• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مسلم لیگ (ن) کے آزمودہ کار رہنماؤں نے الیکشن کے فوری بعد اپنی تین اہم ترجیحات کا حوالہ دیتے ہوئے بارہا کہا‘ معیشت‘ معیشت اور معیشت۔ امید ہے کہ حکومت کے پہلے ماہ میں پارٹی کے سنجیدہ اہل فکر اصحاب پر دو چیزیں واضح ہوگئی ہوں گی۔ اول تو یہ کہ اگر ملک میں دہشت گردی کا راج ہو تو معیشت کبھی صحیح معنوں میں فلاح نہیں پاسکتی۔ دوسرا یہ کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور اس سے منسلک ذیلی گروہوں کی بقا جرم و دہشت کی فضا کے دوام میں ہے۔ وہ اپنے مخصوص نظریئے اور سیاست پر نہ تو نظرثانی کیلئے تیار ہیں اور نہ ہی اپنے مالی مفادات اور طاقت کے سرچشمے کو صرف اس بنا پر داؤ پر لگائیں گے کہ مرکز اور خیبرپختونخوا میں برسراقتدار نئی حکومتیں کھلم کھلا ان کی مذمت سے گریزاں ہیں۔حال ہی میں حکومت نے دہشت گردی کے مسئلے پر کل جماعتی کانفرنس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر اس کانفرنس کا ایجنڈا بھی روایتی انداز میں دہشت گردی کی پرزور مذمت‘ دہشت گردوں کے ساتھ بات چیت کی توثیق‘ اور دوسری ریاستوں کی خودمختاری کا احترام اور ان سے اسی رویّے کی توقع کا اعادہ کرنے جیسی غیر حقیقی‘ بے وقعت اور فرسودہ قرار دادوں تک محدود رہا تو یہ وقت کا مکمل ضیاع ہوگا۔ اس کوشش میں حقیقی افادیت پیدا کرنے کیلئے کانفرنس کے دو حصے ہونا چاہئیں۔ پہلے حصے کا محور سیاستدانوں کو اس کینسر کی مختلف جہتوں سے آگاہی فراہم کرنا ہو کہ جو پاکستان کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ جب انہیں صورتحال کا کلی ادراک ہوجائے تو پھر وہ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے بہترین لائحہ عمل مرتب کریں اور اس متفقہ پالیسی کے حق میں رائے عامہ ہموار کریں۔
سیاست دانوں کو تصویر کے ہر رخ سے باخبر کرنے کیلئے آرمی‘ انٹیلی جنس اور قانون نافذ کرنے والے دوسرے سول اداروں کو ان کیمرہ بریفنگ دینا ہوگی‘ انہیں تحریک طالبان پاکستان کے طریقہ کار سے آگاہ کرنا ہوگا کہ جو اپنی فیصلہ سازی میں روایتی درجہ بندی اور مرکزیت سے آزاد ہے‘ جس نے جرم و تشدد سے منسلک ذیلی گروہوں سے الحاق کررکھا ہے اور جو اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے مقامی بنیادوں پر لشکر جھنگوی اور لشکر طیبہ کے ساتھ مشترکہ منصوبہ بندی پر عمل پیرا ہے۔ اگر سیاستدان پھر بھی ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کو دہشت گردی کے سدباب کیلئے بہترین حکمت عملی گردانتے ہیں تو انہیں سنجیدگی سے یہ بھی سوچنا ہوگا کہ آخر جرم و دہشت میں ملوث ان ذیلی تنظیموں اور گروہوں کے سنڈیکیٹ کا قلع قمع کیسے ہوگا‘ جو موجودہ حالات میں تو ٹی ٹی پی کی چھتری تلے جمع ہیں لیکن اپنے طریقہ کار میں بہت حد تک خود مختار اور تحریک کے حتمی کنٹرول سے آزاد ہیں۔آج کا پاکستان ایک بھیانک خواب کی طرح ہے‘ جہاں خطرہ تو تیزی سے آپ کی جانب بڑھ رہا ہے لیکن آپ کا جسم سن ہے اور اعضا حرکت سے معذور۔ خواہ ہماری سیاسی قیادت ہو یا عسکری اور مذہبی‘ بدقسمتی سے ہم ایک ایسی قوی قیادت کے رحم و کرم پر ہیں جو دہشت گردی کے فوری خاتمے کی اشد ضرورت کو سمجھنے سے قاصر ہے یا اس مشکل چیلنج سے نبرد آزما ہونے کے عزم اور ہمت سے عاری۔ اگر اتفاقاً ہم اس بھیانک خواب سے بیدار ہوگئے اور ہمیں اپنے رہنما ریاست اور معاشرے کے مستقبل کی ذمہ داری سنجیدگی سے لیتے دکھائی دیئے تو اس صورت میں انہیں امور پر ضرور غور کرنا ہوگا۔
ایک مغربی مفکر آسٹن کا کہنا ہے کہ خودمختار وہ ہے جو ایک مخصوص علاقے میں کسی کا حکم عادتاً تسلیم نہیں کرتا جبکہ دوسرے عادتاً اس کی عملداری تسلیم کرتے ہیں۔ اب اگر پاکستان ایک خودمختار ریاست ہے تو یہ ان محفوظ پناہ گاہوں کو قطعاً تسلیم نہیں کرسکتا جہاں ٹی ٹی پی یا دوسرے غیر ریاستی عناصر پاکستانی ریاست کی عملداری سے انکاری ہیں اور اپنی عملداری قائم کرچکے ہیں۔ جب ان علاقوں کے باسی اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ ٹی ٹی پی کی قیادت پاکستانی ریاست سے زیادہ قوی اور موٴثر ہے تو اس علاقے میں پاکستان کی خودمختاری کا دعویٰ بالکل خام ہو کر رہ جائے گا۔
علاقائی خودمختاری محض ایک نظریاتی تصور نہیں‘ یہ ایک فعال‘ عملی حقیقت ہے۔ سب سے پہلے تو خود مختاری میں شراکت داری نام کی کوئی شے نہیں‘ سوا اس کے کہ طاقت میں شراکت دار اس ذریعے کی قانونی حیثیت کو لائق احترام سمجھیں جو اس تقسیم کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ مثال کے طور پر وفاقی نظام میں وفاق اور صوبے طاقت میں شراکت دار ہیں لیکن یہ طاقت انہیں آئین بخشتا ہے جسے دونوں تسلیم کرتے ہیں۔ ٹی ٹی پی کے کیس میں اس کی قوت کا سرچشمہ اپنے زیر اثر علاقوں میں طاقت کے استعمال پر اس کی اجارہ داری ہے۔ جوں جوں ٹی ٹی پی پاکستان کی ریاست میں تشدد آمیز کارروائیاں بڑھانے کی استعداد میں اضافہ کرے گی وہ مزید علاقوں میں عملداری کی دعویدار ہوگی۔
دوسری بات یہ کہ جب تک پاکستان قبائلی علاقے کو ٹی ٹی پی کی خودمختار عملداری کی حامل ریاست کے طور پر نہیں ڈیل کرے گا وہاں سے آزادانہ طور پر مالی و مادی معاونت اور شدت پسندوں کی نقل و حمل کا سلسلہ جاری رہے گا۔ یوں پاکستان ٹی ٹی پی اور اس سے منسلک تنظیموں کے دہشت گرد سنڈیکیٹ کے رحم و کرم پر ہوگا جو پاکستانی ریاست اور اس کے شہریوں پر پرتشدد کارروائیوں کی صلاحیت برقرار رکھیں گے۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ اگر ہم بات چیت کے عمل پر متفق ہوگئے اور یہ مذاکرات کامیاب رہے تو اس سے ٹی ٹی پی کی ہم پر حملہ کرنے کی استعداد قطعاً متاثر نہ ہوگی‘ صرف ہم اس گمان میں مبتلا ہوں گے کہ شاید اب وہ ایسا اقدام اٹھانے سے گریز کریں۔پاکستان ایک بڑا ملک ہے دہشت گردی اور غیر ریاستی عناصر کے اس دور میں ہارڈ (Hard) اور سوفٹ (Soft) اہداف کی تخصیص مٹ گئی ہے۔ جی ایچ کیو‘ ایئربیسز اور وی آئی پیز کی حفاظت تو شاید سخت سیکورٹی سے ممکن بنائی جاسکے لیکن ہر اسکول‘ سرکاری عمارت‘ تجارتی مرکز‘ رہائشی علاقے‘ ہر پولیس اہلکار‘ جج‘ پراسیکیوٹر‘ ہر بس اور کیمپنگ سائٹ کی حفاظت کیسے یقینی بنائی جاسکتی ہے؟ جب تک ہماری دھرتی پر غیر ریاستی عناصر موجود ہیں خواہ وہ نفرت و تعصب پر مبنی کسی نظریئے سے متاثر ہیں یا بیرونی قوتوں کے زرخرید آلہ کار ہیں‘ دہشت گردی کا مسئلہ اپنی تمام شدت سے موجود رہے گا۔
چنانچہ بری خبر یہ ہے کہ اگر ٹی ٹی پی سے بات چیت ہوتی ہے اور مذاکرات کامیاب بھی ہوجاتے ہیں تو نتیجہ ایک عارضی اور کمزور جنگ بندی سے زیادہ کچھ نہ ہوگا۔ دہشت گردی کا یہ سنڈیکیٹ جو ٹی ٹی پی کی چھتری تلے کام کررہا ہے کوئی ایسا ادارہ نہیں جو کڑے نظم و ضبط کا پابندہو یا جس میں فیصلہ سازی کی مرکزیت ہو۔ صرف حکیم اللہ محسود کا اعلان جنگ بندی یا احسان اللہ احسان کی کسی خفیہ مقام سے ریٹائرمنٹ کا اعلان، دہشت گردی کے خاتمے کا باعث نہیں بن سکتے۔ بنیاد پرستانہ نظریہ اور دہشت گردی سے متعلقہ سیاسی و معاشی مفادات اس قدر موٴثر ہیں کہ اگر موجودہ سرکردہ رہنماؤں کو ریاست پاکستان اپنا ہمنوا کر بھی لے تو ان سے زیادہ شدت پسند رجحانات کے حامل ان کے ساتھی اور شراکت دار اپنی روش چھوڑنے پر آمادہ نہ ہوں گے بلکہ خود ان مصالحتی رہنماؤں کا رسوخ اور حیثیت خطرے میں پڑ جائیں گے۔
یہ دہشت گرد سنڈیکیٹ ہر گزرتے دن کے ساتھ زیادہ طاقتور اور باوسائل ہوتا جارہا ہے۔ ایک لمحے کیلئے بیرونی امداد کو بھول جائیے۔ دہشت گردی کے اس نیٹ ورک کے وسائل کے دو بنیادی ذریعے اغواء برائے تاوان اور بھتہ خوری ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق شمالی وزیرستان میں تقریباً ایک ہزار شہری ہمہ وقت اغواء برائے تاوان کے سلسلے میں محبوس ہوتے ہیں۔ بھتہ خوری کی صورتحال اس سے بھی زیادہ تشویشناک ہے۔ ہر قسم کے بھتہ خور گروہ‘ جن میں سے کچھ تو ٹی ٹی پی کے زیر سایہ کام کرتے ہیں اور بعض محض موقع کا فائدہ اٹھاتے ہیں‘ ایسے تمام لوگوں سے پیسہ اکٹھا کرتے ہیں جن کی مالی حیثیت مضبوط ہے۔
آج ریاست اپنے شہریوں کے جان و مال کی حفاظت میں ناکام ہے۔ اگر ٹی ٹی پی کو اس یقین دہانی پر ادائیگی کی جائے کہ آپ کسی ممکنہ نقصان سے محفوظ رہیں گے‘ تو کیا ٹی ٹی پی کے زیر اثر علاقے(With Brachetr) (جو کہ اب بدقسمتی سے پاکستان کے طول و عرض میں موجود ہیں) میں موجود ایک کاروباری شخص یہ فیصلہ کرنے میں حق بجانب نہ ہوگا؟ اور پھر ٹی ٹی پی شہری خدمات میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے اگر آپ کے گھر یا زمین پر کسی نے قبضہ کررکھا ہے تو یا تو آپ اعصاب شکن نظام انصاف سے رجوع کریں‘ رشوت کا سہارا لیں اور پھر سالہا سال فیصلے کا انتظار کریں یا پھر آپ ٹی ٹی پی اور اس کی مقامی فرنچائز سے رابطہ کریں اور فوری نتائج حاصل کریں۔
ایک فعال ریاست میں لوگ ٹیکس دیتے ہیں تاکہ ریاست ان کے بنیادی حقوق اور آزادیوں کا تحفظ کرے۔ ریاست کی جانب سے فراہم کردہ مختلف سہولتوں کے عوض شہری ادائیگی بھی کرتے ہیں۔ کیا یہ ستم ظریفی نہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے خوشحال کاروباری حضرات امن و سکون میں رہنے کیلئے ٹی ٹی پی کو جزیہ دینے پر مجبور ہیں؟ اور کیا یہ بات خوفناک نہیں کہ کچھ لوگ اپنی مرضی سے دہشت کے ان سوداگروں سے اپنے ذاتی تنازعات کے تصفیے اور حل کیلئے مدد مانگتے ہیں؟ جب ٹی ٹی پی کی طرف سے جاری کردہ ہدایات حکومتی رٹ سے زیادہ موٴثر جانی جائیں‘ جب دہشت گردی کا یہ سنڈیکیٹ ریاستی اداروں سے زیادہ توانا اور مضبوط دکھائی دے‘ تو کیا اس کے سوا کوئی اور نتیجہ نکالنا ممکن ہوگا کہ ریاست کا شیرازہ بتدریج بکھر رہا ہے۔
دہشت گردی کے مسئلے پر بلائی گئی کل جماعتی کانفرنس پر چیتھم ہاؤس قوانین (Chatham House Rules) کا اطلاق کیا جانا چاہئے۔ سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کو معاملے کی نوعیت اور شدت عوامی نمائندوں کے سامنے وضاحت سے پیش کرنا ہوگی تاکہ ایک جامع‘ تعمیری اور موٴثر مباحثہ ممکن بنایا جاسکے۔ بحث میں شامل افراد کی شناخت پوشیدہ رکھی جائے کیونکہ اگر اس اہم مسئلہ پر منطقی پالیسی سازی ذاتی یا شخصی نقصان کے خوف کے زیر اثر یرغمال بن گئی تو پھر شاید اس خطرے سے نپٹنے کا وقت گزر جائے۔
تازہ ترین