• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مصر میں اخوان المسلمین کا مینڈیٹ چرائے جانے کے بعد چونکہ جمہوریت پر ایمان متزلزل ہوا ہے اس لئے اسلام پسندوں میں ایک بار پھر یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ انتخابات کے ذریعے تبدیلی ممکن ہے یا نہیں۔ اس صورت حال نے ان اعتدال پسند مذہبی جماعتوں کو بھی مدافعانہ طرز عمل اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ہے جو بُلٹ کے بجائے بیلٹ کے ذریعے جدوجہد کرنے پرقائل تھیں مگرمیرا سوال تو یہ ہے کہ اگر مصر میں اخوان کو دو تہائی اکثریت حاصل ہوئی‘ ترکی میں طیب اردوان کی پارٹی ایک عشرے سے برسراقتدار ہے‘ تیونس‘ مراکش‘ غزہ اور کسی حد تک ملائشیاء میں اسلام کے علم برداروں کا غلبہ ہے تو پاکستان میں اسلام کے نام لیواء بری طرح ناکام کیوں ہیں؟ بالخصوص جماعت اسلامی جو سید مودودی کے افکار و نظریات کی پرچارک ہے وہ انتخابی سیاست میں فلاپ کیوں ہے؟ چونکہ اکابرین جماعت نے طویل مشاورت کے باوجود کوئی اطمینان بخش جواب نہیں دیا اس لئے کارکنان میں بے چینی و اضطراب کی لہریں جوار بھاٹے کی شکل اختیار کر گئیں اور رہی سہی کسر مصر کی حوصلہ شکن صورت حال نے پوری کر دی میری جستجو اور تحقیق کا نچوڑ یہ ہے کہ بشمول جماعت اسلامی تمام مذہبی جماعتیں دل و دماغ کو مدنظر رکھتے ہوئے منشور وضع کرتی ہیں جبکہ انتخابی سیاست کا تقاضا یہ ہے کہ اذہان و قلوب نہیں محض معدے یعنی شکم کے پیش نظر عوامی نعرے دیئے جائیں جیسے بھٹو نے روٹی کپڑا اور مکان کی معروف اصطلاح اختیار کی‘ جیسے حالیہ انتخابات میں تحریک انصاف نے ظلم و استبداد کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے ”نیا پاکستان“ بنانے کا وعدہ کیا۔ میرے فہم دین کے مطابق یہ عوامی سوچ دینی تقاضوں کے عین مطابق ہے مثلا قرآن مجید میں نماز اور روزہ سے زیادہ مسکین کو کھانا کھلانے‘ حاجت مندوں کی دل جوئی کرنے اور یتامیٰ و مساکین کی سرپرستی کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ 82 مرتبہ نماز کے ساتھ زکوٰة کی ادائیگی کا حکم دیا گیا تاکہ غربت و افلاس کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔ حضرت عمر کا وہ شہر آفاق جملہ کہ فرات کنارے کتا بھی بھوکا مر گیا تو اس کی ذمہ داری مجھ پر ہو گی‘ اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ افراد کی معاشی ضروریات کا خیال رکھنا اسلامی حکومت کی اولین ترجیح ہے وگرنہ وہ یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ امارت سلامی میں کسی ایک شخص نے نماز نہ پڑھی یا روزہ نہ رکھا تو امیرالمومنین ہونے کے ناتے مجھ سے باز پُرس ہو گی۔ عمومی سیاسی جماعتوں کے برعکس مذہبی جماعتیں مبہم اور غیر مقبول نعروں کا انتخاب کرتی ہے مثلاً نفاذ شعریعت یا اسلامی انقلاب کی اصطلاح بہت تواتر کے ساتھ استعمال ہوتی ہے جب ایک عام آدمی یہ نعرہ سنتا ہے تو خیال کرتا ہے کہ اسلامی نظام نافذ ہو گیا تو ڈاڑھیاں منڈوانے پر درے لگیں گے‘ زبردستی نمازیں پڑھائی جائیں گی‘ عورتوں کے گھروں سے نکلنے پر پابندی ہو گی‘ چوروں کے ہاتھ کاٹے جائیں گے‘ ہر چوراہے میں ملزم ٹکٹکی سے بندھے ہوں گے اور کوڑے رسید کئے جا رہے ہوں گے… حالانکہ اسلامی نظام کی یہ توضیح‘ تعبیر اور تشریخ صریحاً غلط ہے چوروں کے ہاتھ تب ہی کاٹے جا سکتے ہیں جب رزق کی فراوانی ہو اور بھوک و ننگ کی وجہ سے کوئی غریب واردات کرنے پر مجبور نہ ہو باقی خدشات و اندیشے بھی بے بنیاد ہیں۔ شریعت کے نفاد کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کا نظام عدل لایا جائے‘ معاشی نظام اسلامی بنیادوں پر استوار ہو‘ اخلاقی قدریں اسلام سے مطابقت رکھتی ہوں لیکن یہ علمی و فکری باتیں ہیں انتخابی سیاست کے میدان میں عام فہم اور مختصر بات ہی اثر پذیر ہوتی ہے مثلاً آج لوگ محصولات کے نظام سے عاجز ہیں ٹیکس در ٹیکس کے جبر نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ آمدن پر ٹیکس‘ املاک پر ٹیکس‘ جنرل سیلز ٹیکس‘ ود ہولڈنگ ٹیکس وغیرہ اور اس میں امیر غریب کی کوئی تصریح نہیں۔ آپ کی کمائی کا وہ 100 روپیہ جس پر آپ پہلے ہی انکم ٹیکس ادا کر چکے ہیں اگرکارڈخریدتے ہیں یا موبائل فون پر ایزی لوڈ کراتے ہیں تو 26 روپے یکمشت کٹوتی ہو جاتی ہے اور پھر 19 فیصد کٹوتی کوئی پیکیج یا کال کرتے وقت ہوتی ہے یوں انکم ٹیکس کے علاوہ 48 روپے ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے اور اس کا اطلاق ہر امیر غریب پر یکساں ہوتا ہے۔ اگر آج دینی جماعتیں اپنے منشور میں یہ بات شامل کر لیں کہ چونکہ اسلام میں مسلمانوں سے ٹیکس کی وصولی حرام ہے اس لئے وہ برسر اقتدار آنے کے بعد ٹیکس کا یہ ظالمانہ نظام کر دیں گی اور اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کے لئے صرف زکوٰة‘ عشر اور جزیہ پر انحصار کیا جائے گا‘ تو یقیناً اس نعرے کو پذیرائی حاصل ہو گی۔
ہم نے زکوٰة کو محض غرباء و مساکین کے لئے خیرات اور بھیک کا درجہ دے رکھا ہے جس سے جہیز کے لئے 10 ہزار روپے دیئے جا سکتے ہیں‘ مدارس کے طلبہ کو 150 روپے ماہانہ وظیفہ دیا جا سکتا ہے یا پھر مانگنے والوں کو حاتم طائی بن کر خیرات دی جا سکتی ہے حالانکہ زکوٰة کی مدات میں عاملین زکوٰة کے مشاہرے کی گنجائش موجود ہے تو حقیقی معنوں میں عوامی خدمت کے لئے متعین سرکاری ملازمین کو تنخواہیں بھی دی جا سکتی ہیں اور امور مملکت بھی چلائے جا سکتے ہیں۔ حضرت عمر فاروق کا دور جب زکوٰة لینے والے نہیں ملتے تھے تب امور مملکت چلانے کے لئے اس سرکاری خزانے پر انحصار کیا جاتا تھا جس میں ٹیکس یا محصولات کا کوئی عمل دخل نہ تھا پولیس کا محکمہ حضرت عمر کے دور میں قائم ہوا تو یقیناً اس کی تنخواہیں بھی ادا کی جاتی ہوں گی ایک اور مد فی سبیل اللہ ہے اور ظاہر ہے اس سے مراد صرف قتال فی سبیل اللہ نہیں ہے اللہ کی راہ میں کام کر نے والے کسی بھی فرد کا مشاہرہ مقرر کیا جا سکتا ہے مقروض کا قرض اُتارا جا سکتا ہے الغرض عوامی فلاح و بہبود کے جملہ امور پریہ رقم خرچ کی جا سکتی ہے۔ زکوٰة دراصل ضرورت سے زائد وسائل کے حامل افراد پر اسلامی ٹیکس کا دوسرا نام ہے‘ عشر کو آپ اسلام کا زرعی ٹیکس کہہ سکتے ہیں اور جزیہ غیر مسلموں سے لیا جاتا ہے۔
چونکہ حکومت ظالمانہ ٹیکسوں کے ساتھ زکوٰة وصول کرتی ہے اور پھر اس زکوٰة کا استعمال بھی شفاف انداز میں نہیں ہوتا اس لئے لوگ زکوٰة دینے سے گریزاں ہیں اور ہر سال زکوٰة کی وصولی کا حجم کم سے کم ہوتا چلا جا رہا ہے مثلاً 2006ء میں بینکوں نے 2.3 ارب روپے زکوٰة جمع کی‘ 2007 میں 1.9 ارب روپے کی کٹوتی ہوئی 2008ء میں 1.6 ارب اور 2011 ء میں صرف 1.038 ارب روپے زکوٰة اکٹھی ہوئی حالانکہ بینکوں میں جمع ہونے والی رقوم کا حجم مسلسل بڑھ رہا ہے 2006ء میں 2.733 ٹریلین جمع ہوئے جبکہ 2012 ء میں ڈیپوزٹس کا حجم بڑھ کر 6.402 ٹریلین ہو گیا اگر بینکوں میں پڑی رقوم سے ہی باقاعدہ کٹوتی ہو تو ہر سال 160 ارب روپے زکوٰة کی مَد میں جمع ہو سکتے ہیں۔ 1990ء کے پاکستان بعد حکومت نے عشر کی مَد میں ایک پائی وصول نہیں کی‘ اس حوالے سے بھی بہت بڑی مقدار جمع ہو سکتی ہے۔ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں سونے کا استعمال بہت زیادہ ہے ہم سونے کی طلب کے لحاظ سے 10 ویں بڑی مارکیٹ ہیں عالمی سطح پر 2500 ٹن سونا ہر سال استعمال ہوتا ہے اور اس میں سے 100 ٹن پاکستانی خریدتے ہیں چونکہ 7.5تولے سونے پر ہر سال 2.5 فیصد زکوٰة دینا پڑتی ہے اس لئے اس مَد میں بھی بہت بڑی مقدار بیت المال کا حصہ بن سکتی ہے۔ جوتاجر سیلزٹیکس ادا نہیں کرتے‘ انکم ٹیکس سے کتراتے ہیں ‘ اگر انہیں ہر چیز ارزاں نرخوں پر دستیاب ہو گی تو وہ بلاحیل و حجت اپنے تجارتی سامان پر زکوٰة ادا کریں گے اور مذہبی فریضہ سمجھ کر اس اسلامی ٹیکس کی ادائیگی میں ڈنڈی بھی نہیں ماریں گے۔ میرے تخمینے کے مطابق ٹیکس ختم ہو جائیں تو زکوٰة‘ عشر اور جزیئے کے اطلاق سے ایف بی آر کے موجودہ ریونیو کے مقابلے میں تین گنا زائد رقم جمع ہو سکتی ہے میرا خیال ہے کہ دراصل ابو اعلیٰ مودودی کی فکر ارتقاء سے عبارت ہے اگر جماعت اسلامی اسے لے کر چلے تو انتخابی سیاست کے ذریعے بھی تبدیلی ممکن ہے۔
تازہ ترین