• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسلام آباد کی بیوروکریسی نے کبھی بھی اس بات کو تسلیم نہیں کیا کہ ”خدمات“ پر سیلس ٹیکس کی وصولی مرکزی حکومت کی بجائے صوبے کریں۔ اس کی ایک لمبی کہانی ہے۔ 1973ء کے اصل آئین کے مطابق بھی خدمات پے سیلس ٹیکس کی وصولی صوبوں کا حق تھا مگر یہ وصولی 18ویں آئینی ترمیم کی منظوری تک صوبوں کی بجائے مرکز ہی کرتا رہا‘ 1973ء کے آئین کے تحت جو فارمولا طے کیا گیا تھا کے مطابق اس مقصد کیلئے چوتھے شیڈول میں تین مختلف فہرستیں بنائی گئی تھیں۔ ان میں سے ایک فہرست فیڈرل لجسلیٹو لسٹ نمبر۔1 تھی۔ اس فہرست میں جو بھی Subjects تھے وہ کلی طور پر مرکز کے اختیار میں تھے۔ دوسری فہرست کا نام فیڈرل لجسلیٹو لسٹ نمبر۔ 2 تھی۔ اس فہرست پر جو Subjects تھے وہ اکثر اقتصادی اور قانونی ماہرین کے مطابق کاؤنسل آف کامن انٹریسٹس (سی سی آئی) کے دسترس میں تھے۔ اس فہرست کے بارے میں آج بھی ایک رائے یہ ہے کہ جو Subjects فہرست نمبر۔2 میں تھے یا ہیں ان کے بارے میں پالیسیاں اور ان سبجیکٹس سے تعلق رکھنے والے اداروں کو ریگولرائزڈ وفاقی کابینہ نہیں مگر سی سی آئی کو کرنا ہے۔ بہرحال فی الحال یہ ایک رائے ہے کیونکہ 1973ء سے اب تک اس رائے پر کبھی بھی عمل نہیں کیا گیا اور عملی طور پر یہ سبجیکٹس اور متعلقہ ادارے وفاقی کابینہ کے ہی تحویل میں ہیں۔ شیڈول۔4 کی تیسری فہرست کا نام Concurrent فہرست تھا۔ اصولی طور پر اس فہرست پر جو بھی Subjects تھے ان کے بارے میں قانون سازی جہاں قومی اسمبلی اور سینٹ کرسکتے تھے وہیں اس سلسلے میں صوبائی اسمبلیاں بھی ان Subjects کے بارے میں قانون سازی کرسکتی تھی۔ مگر عملی طور پر یہ Subjects بھی مرکز کی ہی تحویل میں رہے نہ صوبے ان کے نزدیک گئے اور نہ صوبوں کو ان کے نزدیک آنے دیا گیا۔ 1973ء کے آئین کیلئے جو فارمولا تیار کیا گیا تھا۔ اس کے تحت جو Subjects ان تینوں میں سے کسی بھی فہرست پر نہ تھے وہ خود بخود صوبائی Subjects تصور کئے گئے۔ چونکہ خدمات پے سیلس ٹیکس چوتھے شیڈول کے کسی بھی فہرست پر نہ تھا۔ لہٰذا یہ صوبائی سبجیکٹ تھا مگر 1973ء سے 18ویں آئین کے منظور کئے جانے تک ایک بار بھی کسی صوبے نے خدمات پے سیلس ٹیکس عائد کرنے کی جسارت نہ کی۔ مگر کہا جاتا ہے کہ جب بھی کسی صوبائی عہدیدار نے یہ ایشو اٹھانے کی جسارت کی تو اسے یہ کہہ کر خاموش کرادیا گیا کہ 4th شیڈول میں کوئی ایسی کلاس دکھائیں۔ لہٰذا شاید اس اعتراض کو مدنظر رکھتے ہوئے18 ویں آئینی ترمیم کے تحت فیڈرل لجسلیٹو لسٹ پارٹ ون کے کلاس 49 میں یہ بات ان الفاظ میں صاف طور پر درج کی گئی کہ ”وہ اشیاء جو درآمد کی جائیں گی‘ برآمد کی جائیں گی‘ مینوفیکچر کی جائیگی ‘ تیار کی جائیگی یا استعمال کی جائیگی، ان پر یہ ٹیکس عائد ہوگا، اس مرحلے پر اس کلاس میں یہ الفاظ خاص طور پر لکھے گئے کہ (ان میں وہ ٹیکس شامل نہیں ہوگا جو خدمات پر وصول کیا جائیگا) یعنی خدمات پر وصول ہونے والا سیلز ٹیکس صوبوں کی تحویل میں ہے۔ یہاں یہ بات بھی ریکارڈ پر لانے میں کوئی حرج نہیں کہ 2008ء کے انتخابات کے لئے پی پی کی اس وقت کی چیئرپرسن شہید بینظیر بھٹو کی خاص ہدایات کی روشنی میں جو انتخابی منشور تیار کیا گیا تھا اس میں یہ وعدہ بھی شامل تھا کہ اب کی بار منتخب ہونے کے بعد پی پی آئین میں ترمیم کرکے اشیاء پر عائد ہونے والا سیلس ٹیکس بھی مرکز سے صوبوں کو منتقل کردے گی۔ مگر بعد میں 18ویں آئینی ترمیم کے بارے میں تشکیل دی جانے والی پارلیمینٹری کمیٹی شاید پنجاب (درپردہ اسلام آباد کی بیوروکریسی) کی سخت مخالفت کی وجہ سے یہ ترمیم 18ویں آئینی تریم میں شامل نہ کراسکی۔ بہرحال 18ویں آئینی تریم جس شکل میں بھی منظور ہوئی یہ کوئی چھوٹا کارنامہ نہیں ہے۔ اس کارنامے کے اصل ہیرو پی پی کے میاں رضا ربانی اور ن لیگ کے اسحاق ڈار صاحب ہیں۔ بہت سے لوگوں کو پتا ہے کہ بعد میں پارلیمینٹ کے دونوں ایوانوں سے ”معجزانہ طور “ پر منظور ہوجانے والی اس 18ویں آئینی ترمیم کے ساتھ کیا کیا حشر نہ ہوا۔ آئین اور رولس آف بزنس کے مطابق ، کوئی بھی آئینی ترمیم پارلیمینٹ سے منظور ہونے کے بعد وزیراعظم کی وساطت سے assent کے لئے صدر کے پاس جاتی ہے۔ صدر صاحب شاید اتنے مصروف تھے کہ انہوں نے اس ترمیم کے ڈرافٹ کو پڑھنا بھی گوارہ نہیں کیا اور جو نوٹ انہیں پیش کیا گیا تھا انہوں نے اس پر دستخط کردیئے۔ اسلام آباد کی بیوروکریسی اس کارنامے پر بہت خوش ہوئی ہوگی۔ مگر یہ بات کسی طرح صحافیوں تک پہنچ گئی، انہوں نے آسمان سر پر اٹھالیا۔ جب سندھ کے وزیراعلیٰ نے یہ ڈرافٹ منگوایا تو پڑھ کے ان کے بھی بارہ طبق روشن ہوگئے۔ انہوں نے اس بات پر نہ فقط وزیراعظم سے احتجاج کیا ، صدر کو ساری صورتحال سے مطلع کیا مگر پریس میں بھی اس بات کو بڑے پیمانے پر اچھالا گیا۔ آخرکار ان دونوں وزیر اعظم اور صدر کو اس بات کا نوٹس لینا پڑا۔ پتہ چلا کہ شکایت درست ہے۔ پتہ نہیں کسی متعلقہ افسر کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی یا نہیں ، بہرحال نئے سرے سے ڈرافٹ بنایا گیا اور نئے سرے سے صدر کے لئے نوٹ تیار کیا گیا جو اب 18ویں آئین ترمیم کے روح کے مطابق تھا۔ آخر صدر نے بھی دستخط کردیئے۔ بعد میں بجٹ پیش کرنے کا وقت آیا۔ بجٹ پیش کرتے وقت ڈاکومینٹس بھی تقسیم کئے گئے پتہ چلا کہ اب کے بار پھر وہی ”غلطی“ ہوگئی ہے۔ پھر شور ہوا ، پھر ڈاکومینٹس درست کئے گئے۔ ماضی میں یہ روایت رہی ہے کہ قومی اسمبلی میں سالانہ بجٹ پیش کرتے وقت سارے صوبوں سے بجٹ کو Cover کرنے والے صحافیوں کو مدعو کیا جاتا ہے۔ پتہ نہیں اس بار اور صوبوں سے ان صحافیوں کو مدعو کیا گیا یا نہیں مگر کم سے کم سندھ سے صحافیوں کو مدعو نہیں کیا گیا۔ ہوسکتا ہے اس بار یہ اس وجہ سے کیا گیا کہ ملک کی اقتصادی صورتحال کافی مشکلات میں پھنسی ہوئی ہے۔ یا ہوسکتا ہے کہ اس وقت سندھ کے صحافیوں کی طرف سے اٹھانے والے شور کی وجہ سے اس بار سندھ کے صحافیوں کو دور ہی رکھا گیا۔ 2008ء کی بجٹ میں خدمات پر صوبوں کی طرف سے سیلس ٹیکس عائد کرنے کے سلسلے میں اس وقت جو کہانی شروع ہوئی تھی وہ اتنی آسانی سے ختم نہیں ہوئی۔ اسلام آباد کی افسر شاہی نے موقف اختیار کیا کہ صوبوں میں اتنی Capability ہی نہیں ہے کہ وہ خود یہ ٹیکس اچھے طریقے سے وصول کریں۔ سندھ نے اس کی مخالفت کی۔ اسی دوران یہ ہوا کہ عالمی بینک میں اسلام آباد کی بیوروکریسی کے جو بھائی بند اہم عہدوں پر ہیں ان کے ذریعے عالمی بینک یا آئی ایم ایف کے پلیٹ فارم سے یہ مسئلہ اٹھایا گیا اور شاید اس بار یہ ایشو کچھ اس طرح ایک نئے انداز میں اٹھایا گیا کہ بجائے سیلز ٹیکس کے ریفارمڈ سیلز ٹیکس عائد کیا جائے جو صوبوں کی بجائے مرکز وصول کرے۔ مگر سندھ حکومت نے اس موقف کو بھی تسلیم نہیں کیا۔ سندھ کے سیکرٹری فنانس کی قیادت میں سندھ کے افسروں کا ایک اعلیٰ سطحی وفد اس سلسے میں دبئی گیا جہاں انہوں نے عالمی بینک /آئی ایم ایف کے حکام سے مذاکرات کئے اور اطلاعات کے مطابق سندھ کا وفد اپنی بات منواکر واپس آگیا۔ بہرحال ساری مشکلاتوں کے باوجود سندھ نے سندھ روینیو اتھارٹی کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جس نے خدمات پر سیلس ٹیکس وصول کرنا شروع کردیا اور اس کے نتائج انتہائی شاندار آئے۔ بعد میں شاید پنجاب نے بھی اپنے ہاں ایسا ادارہ بنا کر خود بھی اپنے یہاں پر ٹیکس وصول کرنا شروع کردیا۔ بعد کی اطلاعات کے مطابق اب کے پی نے بھی یہ ٹیکس وصول کرنا شروع کردیا۔ یہ سب دیکھ کر اسلام آبا کے صاحب لوگوں کو خوش ہونا چاہئے تھا۔ مگر لگتا ہے کہ انہوں نے ابھی تک اس بات کو قبول نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس سال جو بجٹ پیش کیا گیااس میں ایک بار پھر صوبوں کی طرف سے وصول ہونے والی خدمات والے سیلز ٹیکس میں اسلام آباد کے طرف سے مداخلت کی گئی ہے۔ اس مرحلے پہ اسلام آباد کی بیورو کریسی نے جو فنانس بل 2013پیش کیا ہے اس کے ذریعے صوبوں سے یہ حق کسی حد تک چھیننے کی ابتداء کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ سی این جی پہ بھی ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سی این جی "Service"نہیں "Goods"کے دائرے میں آتی ہے۔ مگر یہ سب کرتے وقت اسلام آباد کے ہمارے صاحبوں نے آئین کے کلاس172کے سب کلاس(3)پہ نظر نہیں ڈالی۔ صورتحال کی وضاحت کے لئے میں آئین کے کلاس172کا سب کلاس (3)یہاں پیش کر رہا ہوں :یعنی سی این جی پر جو بھی ٹیکس وصول کیا جائے گا اس کا آدھا حصہ مرکز کو اور دوسرا آدھا حصہ اس صوبے کو جائے گا جہاں سے یہ گیس نکلتی ہے‘ اس ایشو پر فنانس بل 2013 ء خاموش ہے‘ بہرحال یہ بل نہ فقط پارلیمینٹ میں پیش کیا گیا تو اکثریتی ووٹ جس کا تعلق پنجاب صوبے سے ہے کی حمایت سے منظور ہوگیا‘ اسی طرح اسی فنانس بل کے ذریعے صوبوں کی طرف سے خدمات پہ سیلز ٹیکس وصول کرنے کے سلسلے میں کسی حد تک قدغن بھی لگائی گئی ہے جو شاید اسلام آباد کے آئندہ کے ارادوں کی ابتدا نظر آتی ہے۔ اس فنانس بل میں پی پی پارلیمنٹرین نے ترمیم بھی پیش کی تھی‘ اس کے علاوہ سندھ کے کچھ اقتصادی اور قانونی ماہرین نے قومی اسمبلی میں پیش کئے گئے فنانس بل 2013 پے ان الفاظ میں تنقید کی ہے اور سوال اٹھائے ہیں جن کا متن اس طرح ہے : This provision of the finance bill 2013 is malafide and need to be omitted with a view to continuing the intent and purposes of 18th ammendment (spsfically in relation to item No 49 of the Federal legislative list) and Article 8 of 7th NFC Award. Since Sales tax on Services is provincial Subject the scope of Fed taxation on services should not be expanded. مجھے تحریک انصاف کے اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے ایک ایم این اے نے بتایا کہ جب اسمبلی میں فنانس بل پیش کیا گیا تو اسمبلی میں موجود پی پی، تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کے ممبران نے ترمیم کے حق میں ووٹ دیا اس کے باوجود ہر ترمیم رد ہو گئی اور متنازعہ بل منظور ہو گیا کیونکہ پنجاب کے ممبران اکثریت میں تھے یہاں میں اس بات کی طرف توجہ مبذول کراؤں گا کہ یہ جو فنانس بل منظور ہوا ہے وہ رولز آف بزنس کے تحت اس کی منظوری کے لئے صدر زرداری کو ضرور بھیجا جانا ہے‘ زرداری صاحب چاہیں تو آئین اور قانون سے متصادم شقوں کے حوالے دیکر یہ بل واپس وزیر اعظم کو بھیج سکتے ہیں مگر کیا اب کی بار زرداری صاحب سے اس جرات کی امید کرنی چاہئے ؟ یہاں یہ بھی ذکر کرتے چلیں کہ اس بل کے خلاف سندھ اسمبلی نے سخت الفاظ میں ایک قرارداد اتفاق رائے سے منظور کر لی تھی مگر اسلام آباد نے شاید اس قرارداد کو حقارت سے ردکر دیا ۔
تازہ ترین