• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکہ کا مشہور تحقیقاتی ادارے رینڈ کارپوریشن جس کے ایک محقق نے 9/11 کے بعد مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ پر حملہ کا مشورہ دیا تھا کی ایک رپورٹ 22 مارچ 2013ء میں یہ کہا گیا تھا کہ مصر ابھی اسلام پسندوں کے ہاتھوں گم نہیں ہوا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ اسلام پسند حلقے مصر میں اپنا اثرورسوخ کھو رہے ہیں۔ رینڈ کارپوریشن نے امریکہ کو یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ اخوان المسلمین کی حکومت آنے سے خائف نہ ہو کیونکہ مصری خود اس حکومت کو گرا دیں گے۔ اس کے بعد امریکی تھنک ٹینک کے ایرون اسٹین نے فارن پالیسی جریدے کے مئی کے دوسرے ہفتے میں یہ لکھا تھا کہ مصر حکومت کے خلاف اُن کے مخالف مجتمع ہورہے ہیں اور مغرب اُن کی مدد کررہا ہے۔ اس لئے مصر اور تیونس جہاں اسلام پسند قوتیں برسراقتدار آگئی ہیں اُن کو بھی جلد چلتا کیا جائے گا مگر اندازے غلط ثابت ہوئے عوام نے تو مصر کے اخوانی صدر محمد مرسی کو نہیں نکالا بلکہ وہاں کی فوج نے محمد مرسی کو نکال دیا ہے۔ یہ بالکل پاکستان، نائیجیریا، مالی والا انداز ہے اور یہی ڈرامہ جلد ترکی میں بھی دہرایا جائے گا۔ کوئی بعید نہیں پاکستان بھی اُس کی زد میں آجائے ۔ مصر میں فوجی بغاوت ہوگئی ہے۔ مصری فوج نے صدر مرسی کا تختہ 3جولائی2013ء کو اسی طرح الٹ دیا ہے جس طرح جنرل پرویز مشرف نے میاں محمد نوازشریف کی حکومت کا الٹا تھا اور انہوں نے آئین کو معطل کردیا۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں عبوری حکومت قائم کردی ہے۔ محمد مرسی اور اخوان المسلمین کی قیادت کو گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے۔ مصری فوج نے وہی گھسا پٹا امریکہ کا دیا ہوا بیان دیا کہ سیاست سے دور رہیں گے، عوام کے ساتھ کھڑے ہیں، محمد مرسی جنہوں نے آرمی چیف جنرل عبدالفتح کو خود چنا تھا کہ وہ کم گو اور شریف النفس تھے، وہ اسی طرح دھوکہ کھا گئے جس طرح میاں نوازشریف، جنرل پرویز مشرف کے بارے میں کھا گئے تھے۔ البتہ جنرل عبدالفتح نے پرویز مشرف کی طرح خود ملک کی باگ ڈور نہیں سنبھالی بلکہ مصر کو چیف جسٹس کے حوالے کردیا ہے۔ سپریم کورٹ کو بھی مرسی کے اقدامات پر تحفظات تھے۔ اخوان المسلمین نے 1928ء میں جنم لیا، اتنی طویل جدوجہد کے بعد اُس کو صرف ایک سال کا اقتدار نصیب ہوا۔ محمد مرسی نے انٹرنیٹ کے ذریعے پیغام میں کہا ہے کہ فوج نے ڈاکہ ڈالا ہے اور اُن کے حمایتی مزاحمت کررہے ہیں اور امریکی نواز فوج اُن پر ٹینک چڑھانے کو تیار ہیں۔ مصر کے اسلام پسند حلقے بالائی مصر جنوب صحرا سینا اور گنجان آبادی کے حامل مغرب میں واقع علاقوں میں طاقت رکھتے ہیں۔ غیر مسلم آبادی کو قاہرہ، پورٹ سعید، جنوبی سنائی اور بحراحمر کی علاقائی حکومتوں میں مقبولیت حاصل ہے۔ ڈیلٹا کا علاقہ ایسا علاقہ قرار پایا جہاں دونوں طاقتیں پنجہ آزمائی کرتی رہی ہیں، یہاں کسی کی واضح اکثریت نہیں ہے اگرچہ یہاں مسلمانوں نے بہت کام کیا ہے مگر مسلمانوں کا ووٹ کم ہونے کی امید بنتی جارہی ہے۔ ان انتخابات میں جو 2011ء کے آخر اور2012ء کے ابتدا میں ہوئے مسلمانوں نے سارے علاقوں میں بڑی تعداد میں ووٹ حاصل کئے۔ مسلمانوں نے نئے دستور کے لئے مارچ 2011ء میں بھی برتری حاصل کی۔ جولائی 2012ء اور دسمبر 2012ء میں یہ پیٹرن بدلا اور بہت کم اکثریت سے محمد مرسی صدر منتخب ہوئے اور دستور بھی اسی کم اکثریت سے پاس ہوا۔ اس کے بعد یہ کہا جارہا تھا کہ مصر اسلام پسندوں کے قبضے میں ابھی نہیں آیا۔ اس لئے کہ غیرمسلم اور آزاد خیال لوگ موجودہ حکومتی پارٹی کو ہر جگہ چیلنج کر رہے ہیں اور اسلام کے حامیوں کے ساتھ مقابلہ کر رہے ہیں۔اگر غیرمسلم الیکشن کا بائیکاٹ نہ کریں تو کافی بڑی تعداد میں اسمبلی میں آسکتے ہیں۔رینڈ کارپوریشن نے جو رپورٹ مرتب کی تھی اُس کا مقصد یہ تھا کہ امریکی حکومت کو یہ بات سمجھنے میں آسانی ہو کہ مصر میں کیا رجحان چل رہا ہے۔ امید ہے کہ جلد ہی امریکہ کو یہ امید افزا خبر ملے گی کہ غیرمسلموں کو مصر کی اسمبلی میں زیادہ نشستیں حاصل ہوجائیں گی اور وہ ایک فورس بن کر آگئی ہے اور یہ ملک کی واحد اسلامی پارٹی ملک بن کر نہیں رہ جائے گا۔ رینڈ کاپوریشن نے جو امید افزا منظرنامہ بنایا تھا، اُس کے مطابق بالآخر غیرمسلم اسلام پسندوں کے ساتھ اقتدار میں حصہ دار بن جائیں گے۔ اُن کا مشورہ تھا کہ غیرمسلمانوں کی امداد اور اُن کو سیاسی و اسٹرٹیجک ہدایات دی جائیں۔ موجودہ منظرنامہ میں امریکہ کا کوئی قابل ذکر اور قابل بھروسہ اتحادی موجود نہیں ہے۔ اس لئے کہ امریکہ دونوں قسم کی پارٹیوں سے اختلاف رکھتا ہے چاہے وہ اخوان ہوں یا دوسرے مسلک کے سلفی مسلمان، مختلف پوزیشن رکھتے ہیں۔ وہ عورت اور مرد کے برابر کے حقوق کے خلاف ہیں جبکہ بائیں بازو کی جماعت کراما پارٹی اسرائیل سے امن اور فری مارکیٹ کے حوالے سے امریکہ سے مختلف رائے رکھتی ہے۔ اس لئے فی الحال امریکہ کو مصر کی سیاست سے لاتعلق رہنا چاہئے، اس مشورے کو مانتے ہوئے امریکہ نے مرسی کی حکومت ختم کرنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے تاکہ امریکہ کہیں پر اپنے قدم جما سکے تاہم اِن مقاصد کے لئے مرسی کا جانا اور مخالفین کے لئے حالات سازگار کرنے کے لئے ایسی حکومت کی ضرورت تھی جو اخوان کی نہ ہو۔
ہم نے پاکستان، مصر، ترکی، شام، عراق، لبنان، نائیجیریا اور مالی کے معاملات کا مطالعہ کیا ہے۔ یہ ممالک ایک جیسے حالات سے گزر رہے ہیں اور اُن کے اندر اپنے ملک میں ”مرکزی ملکیت“ کا تصور توانا نہیں ہے۔ اس لئے مغرب ان ممالک میں مداخلت کرکے اسلام پسندوں کو نشانہ بناتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دُنیا بھر کے مسلمان ”مرکزی ملکیت“ کے تصور کو قبول کرکے اس پر کام کریں۔
تازہ ترین