• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچھ عرصہ پہلے مجھے فون پر ایک پیغام موصول ہوا جس میں لکھا تھا کہ آپ کا پتہ درکار ہے، اپنی کتاب ارسال کرنی ہے، عاجز، ارشاد حسن خان (سابق چیف جسٹس آف پاکستان)۔ ریٹائرمنٹ کے بعد چونکہ ہر بندہ ہی عاجز ہو جاتا ہے اِس لئے مجھے زیادہ حیرت نہیں ہوئی۔ چند دنوں بعد مجھے اُن کی کتاب ’ارشاد نامہ‘ موصول ہو گئی جو جج صاحب نے کمال شفقت سے اپنے دستخطوں کے ساتھ ’اِس عاجز‘ کو بھیجی تھی۔ کتاب پڑھنے کے بعد مجھ پر تین باتیں آشکار ہوئیں۔

پہلی یہ کہ ارشاد حسن خان ایک فرشتے کا نام ہے، عام انسانوں کی کوئی خرابی یا برائی اُن میں نہیں پائی جاتی، پوری عمر انہوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا، اور اگر کوئی غلط کام اُن سے سرزد ہوا بھی تو اُس میں اُن کا کوئی قصور نہیں تھا، حالات ہی ایسے تھے کہ وہ بےبس تھے، بس یوں سمجھیں کہ جج صاحب ’وہ ظالم تھا میں مجبور تھی‘ والی صورتحال میں پھنسے تھے لہٰذا اُنہیں کسی معاملے میں موردِ الزام ٹھہرانا ناانصافی ہوگی۔ دوسری بات، وہ ایک سیلف میڈ انسان ہیں، انہیں اِس بات پر فخر ہے کہ ایک یتیم سائیکل سوار بچہ محض (بقول اُن کے) اپنی لیاقت، ایمانداری اور قابلیت کی بنیاد پر پاکستان کا چیف جسٹس اور قائم مقام صدر بنا۔ کسی نے نوجوانی میں ہی اُن کے بارے میں کہہ دیا تھا کہ ’’میں تمہارے ماتھے پر چمکتا ہوا تاج دیکھ رہا ہوں، تم کلرک بننے کے لئے پیدا نہیں ہوئے ہو‘‘۔ تیسری بات، اِس کتاب کی شانِ نزول دراصل 12اکتوبر 1999کے مارشل لا کو جواز فراہم کرنے والا فیصلہ اور اُس پر ہونے والی تنقید ہے۔ ارشاد حسن خان نے بطور چیف جسٹس نہ صرف مارشل لا کو قانونی تحفظ دیا بلکہ جنرل مشرف کو آئین میں ترمیم کرنے کی اجازت بھی دے ڈالی۔ جج صاحب نے کتاب میں جگہ جگہ اِس بات کی وضاحت کی ہے کہ اُن پر کی جانے والی تنقید بلاجواز ہے، ایک جگہ لکھتے ہیں کہ یہ ایک تاریخ ساز فیصلہ تھا ’’جسے مفاد پرستوں اور خوفِ خدا سے عاری لوگوں نے متنازع بنا دیا، تمام پہلوؤں کو واضح کرنے کے لئے آٹو بائیو گرافی کا سہارا لیا گیا ہے‘‘۔ اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے ارشاد حسن خان نے یہ دلیل دی ہے کہ مدعی کے وکلا نے خود تسلیم کیا تھا کہ 12اکتوبر کا اقدام واپس نہیں ہو سکتا۔ دوسری دلیل عالی قدر نے یہ دی کہ پرویز مشرف کو اپنے جاری کردہ پی سی او کے تحت آئین میں ترمیم کرنے کا اختیار حاصل تھا اور یہی بات عدالت کے سامنے چیلنج کی گئی تھی لہٰذا یہ کہنا بےحد نا انصافی ہے کہ پرویز مشرف نے تو آئین میں ترمیم کرنے کا اختیار ہی نہیں مانگا تھا مگر عدالت نے یہ اختیار دے دیا۔ جج صاحب نے تقریباً دہائی دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ہم نے تو اِس اختیار کے ساتھ اِس قدر کڑی شرائط عائد کردیں کہ چیف ایگزیکٹو کے لئے آئین میں ترمیم کرنا عملاً ناممکن ہو گیا۔

بےشک جج صاحب نے ازراہِ مہربانی مجھے اپنی کتاب ارسال کی ہے اور مشرقی آداب اور مروت کا تقاضا ہے کہ میں اِس کتاب کی فقط تعریف ہی میں کچھ لکھوں لیکن سچ یہ ہے کہ جج صاحب نے یہ کتاب دراصل ضمیر کی خلش کے ہاتھوں مجبور ہو کر لکھی ہے، ہر انسان کو اچھی طرح علم ہوتا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں کہاں غلط تھا اور کہاں صحیح، جج صاحب کو بھی اِس بات کا پتا ہے کہ اُن کا 12اکتوبر کے اقدام کو جواز فراہم کرنے والا فیصلہ دراصل بدنام زمانہ نظریہ ضرورت کو دوبارہ زندہ کرنے والا فیصلہ تھا۔ انہوں نے جو دلائلاِس فیصلے کے حق میں دیے، معذرت کے ساتھ، وہ تمام کے تمام نہایت بودے ہیں۔ مثلاً آئین میں ترمیم والی بات کو ہی لے لیں، پرویز مشرف نے اِس فیصلے کے بعد آئین میں 37ترامیم کیں، یعنی جس کام کے لئے پارلیمان میں منتخب حکومت کو دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے وہ کام ایک شخص نے یک جنبش قلم 37مرتبہ کیا اور جج صاحب فرماتے ہیں کہ ہم نے آئین میں ترمیم کے اختیار کو اپنے تاریخی فیصلے کے ذریعے عملاً ختم کر دیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ آپ اُس وقت بھی چیف جسٹس تھے جب یہ ترامیم ہو رہی تھیں کیا آپ نے اپنے فیصلے کی اِس کھلم کھلا خلاف ورزی پر کوئی نوٹس لیا؟ جواب ہے نہیں۔ اور بعد ازاں آپ کو چیف الیکشن کمشنر بھی مقرر کر دیا گیا جس کی وجہ ایک دودھ پیتا بچہ بھی بتا سکتا ہے۔ رہی یہ دلیل کہ جج صاحب نے 12اکتوبر کے اقدام کو قانونی اِس لئے قرار دیا کہ مدعی کے وکیل نے تسلیم کیا تھا کہ یہ اقدام واپس نہیں ہو سکتا تو اِس کا جواب یہ ہے کہ بطور چیف جسٹس آپ کی ذمہ داری آئین کے مطابق فیصلہ کرنے کی تھی جس کا آپ نے حلف اُٹھایا ہوا تھا نہ کہ یہ دیکھنے کی آپ کے فیصلے پر کس حد تک عملدرآمد ہوتا ہے۔ اگر یہی فیصلہ کرنا تھا تو یہ کوئی چپراسی بھی کر سکتا تھا اِس کے لئے عدالتِ عظمیٰ کے جج کی پگڑی باندھنے کی کیا ضرورت تھی۔ اور جہاں تک جج صاحب کی اِس دلیل کا تعلق ہے کہ پرویز مشرف کے سات نکات سے تو مدعی کے وکیل نے بھی اتفاق کر لیا تھا، اس بارے میں اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ اگر کوئی کہے کہ ملک میں ترقی ہونی چاہئے تو اِس سے اتفاق ہی کیا جائے گا مگر اِس کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ وہ آئین شکنی کے کام کو بھی درست مان رہا ہے۔ جسٹس صاحب نے ایک منطق یہ بھی بیان کی کہ چونکہ انتخابات کروانے کے لئے نئی انتخابی فہرستیں بنانے کا کام جلد مکمل نہیں ہو سکتا تھا اور خدشہ تھا کہ کئی لاکھ ووٹر حق رائے دہی سے محروم نہ رہ جائیں، اِس لئے بھی پرویز مشرف کو 3سال کا وقت دیا گیا۔ بندہ پوچھے جن لاکھوں ووٹوں پر شب خون مارا گیا تھا اُن کا حساب تو آپ نے لیا نہیں اور جو ابھی پیدا نہیں ہوئے، اُن کی فکر لاحق ہو گئی۔ واہ کیا کہنے!

ارشاد حسن خان صاحب نے یقیناً اپنی زندگی کا سفر قدرے تنگدستی کے عالم میں شروع کیا اور کامیابی کی منازل طے کرتے ہوئے وہ بامِ عروج پر پہنچے مگر اِس کا یہ مطلب نہیں کہ آئین شکنی کو تحفظ دینے کے اُن کے فیصلے کو درست مان لیا جائے، یہ فیصلہ اُن کے ضمیر پر ہمیشہ چابک برساتا رہے گا۔

تازہ ترین