• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
زیارت ریذیڈنسی پر حملہ، گلگت بلتستان میں دس غیرملکی سیاحوں کاقتل،کوئٹہ،پشاورمیں دھماکے،قبائلی علاقوں اور کراچی کی تشویشناک صورتحال سے ہر پاکستانی دل گرفتہ ہے۔حالیہ انتخابات کے بعد پاکستانی قوم کی یہ امید بندھ چکی تھی کہ امن وامان کی صورتحال بہتر ہوگی اور ملک کو معاشی استحکام حاصل ہوسکے گا لیکن اس کے باوجود نئی حکومت کو برسراقتدار آنے کے ساتھ ہی پے درپے مختلف حوادث کاسامنا کرناپڑرہا ہے۔ اس لئے سب سے پہلے یہ جائزہ لینا ہوگا کہ ملک میں بدامنی اور دہشت گردی کا سدباب کیسے ممکن ہوسکے گا؟اگر ہم نے یونہی وقت ضائع کیا تو حالات کو سنبھالنا مزید مشکل ہوجائے گا۔دوحہ میں طالبان آفس کاقیام خوش آئند ہے۔امریکہ اور طالبان کے”دوحہ مذاکرات“سے ہی افغانستان اور پاکستان کافائدہ ہے۔ ان مذاکرات کی کامیابی کیلئے پاکستان کو اپنا بھرپور کردار اداکرنا چاہئے۔اگر اس نازک اور فیصلہ کن موڑ پر ماضی کی طرح غلطیاں کی گئیں تو اس کا خمیازہ ملک و قوم کو بھگتنا ہوگا۔ ملک میں حکومت سازی کا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیاں بجٹ منظور کرچکی ہیں۔وزیر اعظم نوازشریف کے قومی اسمبلی میں خطاب کے دوران جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل6کے تحت مقدمہ چلانے کے اعلان بھی کردیا ہے۔ یہ مقدمہ ایک ”ٹیسٹ کیس“ بھی ہے ۔قوم جنرل (ر) مشرف کا کڑااحتساب چاہتی ہے۔پاکستان کے اس وقت تین بڑے مسائل امن و امان کی ناگفتہ بہ صورتحال،کمزور معیشت اور توانائی کابحران ہیں۔ لوڈشیڈنگ،مہنگائی اور بدامنی سے ستائے عوام یہ توقع کررہے تھے کہ موجودہ حکومت ان کے دکھوں کا مداواکرے گی مگر وفاقی بجٹ نے جنرل سیلز ٹیکس میں ایک فیصد اضافہ کرکے حکومت نے عوام کومایوس کیا ہے۔جنرل سیلز ٹیکس جو اب17فیصد ہوگیا ہے لیکن یہ اصلاً اور عملاً22فیصدتک لوگوں سے وصول کیا جائے گا۔ رہی سہی کسر حکومت نے پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ کرکے پوری کردی ہے اور یوں کہ عوام کے مسائل اور مشکلات مزید بڑھ جائیں گے۔ پنجاب اسمبلی میں جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر سید وسیم اختر نے ضمنی بجٹ پر بحث کرتے ہوئے بعض غور طلب باتیں کہیں ان کا کہنا تھا کہ غریب عوام پر تو ٹیکسوں کا بوجھ لاد دیا گیا ہے لیکن حکمران طبقہ اپنی شاہانہ اغراض کیلئے کروڑوں روپے کی بلٹ پروف گاڑیاں استعمال کر رہا ہے۔ ڈاکٹر سید وسیم اختر کی یہ بات درست ہے کہ وزراء چھوٹی گاڑیاں بھی استعمال کرکے اپنی ضرورت پوری کرسکتے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے بلٹ پروف گاڑیاں بھی کسی کی جان بچانے کی ضمانت نہیں دے سکتیں ارباب اقتدار کو بھی موت سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہئے کہ ایک روزاپنے سب کئے کاحساب دینا پڑے گا۔ڈاکٹر سید وسیم اختربہاولپور سے تیسری بار منتخب ہوکر پنجاب اسمبلی پہنچے ہیں۔جنوبی پنجاب میں وہ ممتاز سماجی اور سیاسی شخصیت کے طور پر جانے پہچانے جاتے ہیں۔ڈاکٹر سید وسیم اختر نے پنجاب اسمبلی میں چولستان میں اسکولوں کو بند کرنے اور تعلیمی اداروں میں میوزک پروگراموں اورکیٹ واکس کی طرف بھی حکومت کی توجہ دلائی۔انہوں نے بہاولپور،رحیم یار خان اور بہاولنگر کے چولستان کے ملحقہ علاقوں میں بھی دانش اسکول کھولنے پر زور دیااور کہا کہ حکومت پنجاب کو چولستان جیسے پسماندہ علاقوں میں کمیونٹی اسکولوں کو بند کرنے کے بجائے مزید نئے اسکولوں کاقیام عمل میں لانا چاہئے۔ تعلیمی اداروں میں کیٹ واکس اور میوزک کنسرٹ جیسے پروگراموں کو روکناحکومت کی ذمہ داری ہے۔یہ پنجاب حکومت کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ آخر ہم اپنی نوجوان نسل کوکس طرف لے کے جارہے ہیں؟
پاکستان کو درپیش مسائل سے نمٹنے کیلئے سیاسی عزم، بصیرت اور درست فیصلوں کی ضرورت ہے۔ پاکستان تو ایک ایسی ریاست بنتا جارہاہے کہ جہاں”حادثات اور سانحات“معمول بن چکے ہیں۔حادثوں اور سانحوں کی لمبی داستان ہے جس پرپروفیسر عنایت علی خان کا یہ شعر صادق آتا ہے۔
حادثے سے بڑھ کر سانحہ یہ ہوا
کہ لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر
امریکہ نے ایک ”نائن الیون“کاسامنا کیا ہے جبکہ پاکستان کوآئے روز”نائن الیون“جیسے واقعات کا سامنا کرناپڑتا ہے۔ہماری سول اور فوجی قیادت کو جنوبی ایشیاء بالخصوص پاکستان میں امریکی کردار پرگہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ امریکہ کی تاریخ یہی ہے کہ اس نے کبھی دوستوں کے ساتھ وفاداری نہیں کی۔ امریکہ بھارت کو اپنی حکمت عملیوں کا حلیف بناکر ہمیں یہ واضح پیغام دے چکا ہے کہ وہ جنوبی ایشیاء میں بھارت کی ”اجارہ داری“کا خواہشمند ہے۔ 2014ء کے اواخر تک امریکی و نیٹوفورسز کے انخلاء کے بعد بھی وہ افغانستان میں بھارت کو متعین کردار دینا چاہتاہے۔ پاکستان کے سنجیدہ قومی حلقے نائن الیون کے ڈرامے کے بعد یہ اس حقیقت کو تواتر سے سامنے لارہے تھے کہ امریکہ افغانستان میں پاکستان کے ایٹمی اثاثوں،وسط ایشیاء کے معدنی وسائل اور چین کے گرد گھیرا تنگ کرنے کیلئے آیاہے مگر اس وقت امریکہ کی محبت میں گرفتار ”دانشور اور این جی اوز“ اس حقیقت کا ادراک نہیں کررہے تھے لیکن اب وقت نے یہ ثابت کردیا ہے۔ امریکہ افغانستان سے 2014ء میں محفوظ انخلا تو چاہتا ہے لیکن پاکستان کے قبائلی علاقوں، بلوچستان اور کراچی میں لگائی گئی آگ کو بجھانے کا روادار نہیں۔پاکستان کو اپنی خودمختاری، سالمیت اور وقار عزیزہے توآج ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ پاکستان کو امریکی حلقہ اثر سے نکالنا ہے۔ مستقبل کے منظرنامے میں گوادر پورٹ اور ایران، پاکستان گیس پائپ لائن کے منصوبوں پر مناسب پیشرفت سے ملکی ترقی و خوشحالی ممکن ہوسکتی ہے لیکن ہم نے ماضی سے سبق نہیں سیکھا اور اپنی روش نہ بدلی تو ”حادثے اور سانحے“ہمارا مقدر بنتے رہیں گے۔مصر میں فوج کا صدر محمد مرسی کی جمہوری حکومت پر شب خون مارنا بھی عالم اسلام کیلئے کسی”حادثے اور سانحے“ سے کم نہیں ہے۔امریکہ اور یورپی ممالک کے اسلامی دنیا کے حوالے سے دہرے معیارات بھی کھل کر سامنے آگئے ہیں۔مصر میں اخوان المسلمون انشاء اللہ دوبارہ ابھریں گے۔
تازہ ترین