• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نئے قومی نصاب (Single National Curriculum)سے ہمارا ایک مخصوص لبرل طبقہ بہت پریشان ہے اور جھوٹ پر جھوٹ بول کر ایسے تنازعات پیدا کر رہا ہے کہ کسی طرح سے نئے نصاب پر عمل درآمد کو روکا جائے۔ تکلیف اس بات پر ہے کہ نئے نصاب میں سب پر یہ کیوں لازم کر دیا گیا ہے کہ قرآن پاک ہر مسلمان طالب علم کو لازمی پڑھایا جائے چاہے وہ سرکاری اسکول میں زیر تعلیم ہو یا پرائیویٹ میں اور یہ کہ نصاب میں اسلامیات کا مضمون کیوں پڑھایا جائے؟ ایک خاتون جو اپنے آپ کو ماہرِ تعلیم کہتی ہے، اُس نے حال ہی میں لکھا کہ پنجاب میں ایک نصابی کتاب میں نیوٹن کو دوپٹہ پہنا دیا گیا۔ اس بات کو میڈیا پر کچھ مخصوص چینلز نے بہت ہوا دی اور آج بھی اُس کا حوالہ دے رہے ہیں۔ میڈیا کی ایسی باتوں کو پھیلانے سے پہلے متعلقہ سرکاری اداروں سے بات کرکے اس کی تصدیق یا تردید کر لینی چاہئے لیکن یہ تکلف ایک خاص ایجنڈے کے حصول کے لئے نہیں کیا جا رہا۔ اس بارے میں مَیں نے پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کے ایم ڈی ڈاکٹر فاروق منظور سے بات ہوئی جنہوں نے نیوٹن کو دوپٹہ پہنانے والی بات کو مکمل جھوٹ اور پروپیگنڈہ قرار دیا۔ ڈاکٹر فاروق کا کہنا ہے کہ نہ کوئی ایسی نصاب کی کتاب یا سپلیمنٹری بک شائع ہوئی، نہ کوئی اس طرح کی تجویز تھی، نہ کوئی ایسی بات کسی فائل پر لکھی گئی، جو کچھ خاتون ماہر تعلیم نے لکھا، وہ سراسر جھوٹ تھا۔ مجھے امید ہے کہ خاتون ماہر تعلیم اس بارے میں ثبوت پیش کریں گی۔ میڈیا بھی کوشش کرے گا کہ جس محکمہ پر کوئی الزام لگایا جا رہا ہے اُس سے بھی پوچھ لے کہ حقیقت کیا ہے؟ یہ بھی بہت پراپیگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ سائنس کی کتاب سے انسانی جسم کے ڈایاگرام کو ہٹا دیا گیا ہے یا ٹیکسٹ بک بورڈ کی طرف سے اعتراض اٹھایا گیا ہے کہ اس سے بےحیائی پھیلتی ہے۔ اس بارے میں بھی ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ یہ سب جھوٹ ہے اور ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ پروپیگنڈہ کرنے والوں اور جھوٹ بولنے والوں نے یہ بھی کہا علماء بورڈ کے اعتراض پر انسانی جسم کا خاکہ نصاب سے نکالنے کی سفارش کی گئی جبکہ حقیقت میں قانون کے مطابق علماء بورڈ صرف اور صرف اسلام کے متعلق مواد کو نصاب میں شامل کرنے یا اُسے نکالنے سے متعلق ہی سفارش کرتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے مطابق جو بات اس متعلق لکھی گئی اُس میں کوئی صداقت نہ تھی۔

پھر ملالہ کے بارے میں شامل مواد کے متعلق موجودہ تنازعہ پر ڈاکٹر صاحب سے بات ہوئی تو کہنے لگے کہ میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ ملالہ کی تصویر کو پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتابوں میں پاکستان کے ہیروز میں شامل کر دیا گیا ہے۔ تحقیق کرنے پر پتا چلا کہ ایسا ٹیکسٹ بک بورڈ کی کسی کتاب میں شامل نہیں بلکہ آکسفورڈ بکس نے بغیر منظوری کے اسے پاکستان کے اسکولوں کے لئے اپنے نصاب میں شامل کیا جس پر پنجاب بورڈ نے ایکشن لے کر متعلقہ کتابوں کو ضبط کرنے کے احکامات جاری کیے۔ اب میڈیا اور ایک مخصوص طبقہ اس معاملے کو نیا رنگ دے رہا ہے جبکہ جو معلومات مجھے ڈاکٹر فاروق نے دیں اُن کے مطابق نصاب میں شامل کسی بھی کتاب کو قانون کے مطابق اُس وقت تک نہ شائع کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اُسے اسکولوں میں پڑھایا جا سکتا ہے جب تک کہ اُس کتاب کو ٹیکسٹ بک بورڈ این او سی نہ دے دے۔ یہ شرط نہ صرف اُس قانون کی ہے جسے اسمبلی نے پاس کیا بلکہ لاہور ہائی کورٹ نے 2020میں اپنے ایک فیصلہ میں ٹیکسٹ بک بورڈ کو پابند بنایا ہے کہ کسی غیرمنظور شدہ کتاب کو اسکولوں چاہے وہ سرکاری ہوں یا پرائیوٹ اُن میں نہ پڑھایا جائے۔ گویا ملالہ کی تصویر نصاب میں شامل کرنا کسی کی خواہش پر نہیں ہو سکتا بلکہ یہ ایک قانونی عمل کے ذریعے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ ویسے جو کوئی ملالہ کو اپنا اور اپنے بچوں کے لئے ہیروتصور کرے، اس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے لیکن ایسے کسی فرد کو ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر یہ کہنے کا کوئی حق نہیں کہ جو لوگ ملالہ کو ہیرو نہیں مانتے اُنہیں شرم آنی چاہئے۔ یہ بدتہذیبی اور بدتمیزی ہے جس سے گریز کرنا چاہئے۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین