• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پرانی گریٹ گیم سے لے کر نئی تک، افغانستان ایک بار پھر خونی بحران کا شکار ہونے کو ہے۔ کئی دہائیوں کی جنگ،بیرونی مداخلت،تقسیم اور سیاسی تجربوںنے افغانستان کی ترقی، ثقافت اور معیشت کو پنپنے ہی نہیں دیا ۔ اس روش کا آغاز انگریزوں اور روسیوں سے ہوا جنہوں نے علاقائی تسلط کے لئے پراکسی وارکی داغ بیل ڈالی۔ وسطی ایشیا کے بھرپور وسائل پر قبضہ کرنے کے لئے اب نیا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ 1800 تک انگریز ہندوستان یا بحر ہند تک پہنچنےسے روسیوں کو روکنے کی پوری کوشش کر رہے تھے۔ افغانستان میں جمہوری اور کمیونسٹ پارٹیوں کے درمیان کشمکش کو فروغ دیا گیا جبکہ روسیوں نے ملک میں استحکام برقرار رکھنے کا جواز گھڑ کر اپنی فوج بھیج دی۔ سیاسی ہلچل اس وقت تک جاری رہی جب تک روسی قبضہ ختم کرانے کی جنگ میں امریکی شامل نہیں ہوئے۔ 1979 میں جنگجو اور پوری دنیا سے رضاکار روس کے خلاف ’’جہاد‘‘ میں شامل ہونے کے لئے افغانستان آئے جبکہ سامان اور اسلحے کی فراہمی امریکیوں اور مغربی بلاک کے ممالک نے اپنے ذمہ لی۔ پاکستان ’’مجاہدین‘‘ کی تحریک میں شامل اور افغانیوںکی حمایت کرتا رہا۔ کئی سالوں کی جنگ اور گرتی سوویت معیشت کے بعد سوویت یونین ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا۔ افغان جنگجو اور عرب رضاکار مسلح گروہ فاتح ٹھہرے ۔ اس کے فورا ًبعد کابل پر قبضے کا مناقشہ شروع ہو گیا۔ 1994 میںملا عمر نے جنگجوؤں کی مدد سے افغانستان میں طاقت پکڑ لی اور 1996 میں ملا عمر کی امارت اسلامیہ کی تشکیل شرعی قوانین کے تحت عمل میں آئی۔ القاعدہ اور اس کے رہنما اسامہ بن لادن کا افغانستان میں طالبان نے خیرمقدم کیا،اسی کے بعد مسائل نے جنم لینا شروع کیا۔

نائن الیون کے حملوں نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا۔ طالبان اور مجاہدین جو کبھی سی آئی اے اور مغربی ممالک کے منظورِ نظر ہوا کرتے تھے، اب دشمن بن گئے۔ اسامہ بن لادن اور ملا عمر کو امریکہ کے حوالے کرنے کا مطالبہ ہوا، جس سے انکار کردیا گیا۔ 2001 میں اتحادی نیٹو ممالک کے ساتھ افغانستان پر امریکی حملوں اور بدترین بمباری شروع ہو گئی جس کی زد میں سینکڑوںبے گناہ عام شہری بھی آتے رہے۔ افغانستان بھر میں تعینات امریکی فوجیوں کی تعداد ایک لاکھ کے قریب تھی۔صدر بش کے دور میں امریکہ کی تین ترجیحات تھیں، القاعدہ کا خاتمہ، طالبان کی سرکوبی اور افغانستان میںایک مضبوط جمہوری حکومت کا قیام۔ کسی حد تک صرف پہلا مقصد حاصل ہوسکا۔ 2001 کے بعد سے 2500 سے زیادہ امریکی فوجی ہلاک اور 20,000 سے زائدشدید زخمی ہوئے۔ افغان فوج کے جوانوںکی اب تک 45,000 سے زیادہ اموات ہوئیں اور 60,000 سے زیادہ اہلکار زخمی ہوئے۔ امریکی حکومت افغانستان میں جنگ پر 1 ٹریلین ڈالر اور افغان تعمیرِ نو کے منصوبوں پر 60 ارب ڈالرز سے زیادہ جھونک چکی ہے لیکن یہ تمام اقدامات اور سرمایہ کاری بیکار گئی کیوں کہ آج پھر ملک کے اسی فیصد حصے پر طالبان قبضہ جما چکے ہیں۔امریکی مایوس ہوکر جاچکے۔ 20 سال کی طویل جنگ کے باوجود امریکی حکومت افغانستان میںاپنی آلہ کار ایک مستحکم حکومت قائم کرنے میں ناکام رہی، جمہوری اداروں کو مضبوط بنانے کی کوششیں بے سود ر ہیں اور طالبان پوری قوت کے ساتھ سر اٹھانے میں کامیاب ہوگئے۔

تمام اقدامات کو افغان عوام، قبائلی رہنماؤں سمیت لویہ جرگہ سے اشیر باد ملتی رہی۔ امریکیوں نے حامد کرزئی کی قیادت کا انتخاب کیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ان کے والد نے روس کی تشکیل کردہ کمیونسٹ حکومت کے تحت خدمات انجام دیں اور وہ امریکیوں کے تابع رہے۔ حامد کرزئی کا تعلق افغانستان کے جنوبی علاقے سے ہے ،انہوں نے پاکستان میںبھی کافی وقت گزارا۔ انہوںنے ہندوستان سے پولیٹکل سائنس کی ڈگری لی اور اسے اپنا دوسرا گھر قرار دیا۔ افغان عوام کی مخالفت کے باوجود، کرزئی نے ہندوستانی حکومت اور کاروباری اداروں کو افغان سیاست اور تعمیر نو میںمداخلت کی کھلی اجازت دی، یہ حکمتِ عملی بھی ان کی حکومت کی طرح ناکام رہی۔ عبدﷲ عبدﷲ نے مربوط نقطہ نظر اپنایا اور متعدد ادارہ سازی کے منصوبوں میں حصہ لیا۔ انہوں نے پاور شیئرنگ کے لئے متعدد انتخابات جیتے لیکن کلیدی فیصلوں سے انکار کردیا ۔

امریکی نکل چکے ،جوبائیڈن کے انتخابی وعدوں میں سے ایک امریکی افواج کا افغانستان سے انخلا بھی تھا۔ اب اگر دہشت گردی پھر زور پکڑتی ہے اور ہزاروں افراد خودکش حملوں میں مارے جاتے ہیںتو امریکیوں کو اس پر تشویش ضرور ہوگی لیکن ان کے پاس اس کا کوئی حل نہیں ہوگا۔حتمی حقیقت یہی ہے کہ یہ جنگ صرف افغانستان کے عوام ہی اندرسے جیت سکتے ہیں ۔ تبدیلی اندر سے ہی آنی ہے ، افغانستان کے عوام جنہوں نے امریکی فوج اور غیر ملکی امداد سے امیدیں وابستہ کیں اب حقیقت پسند بن چکے ہیں۔خانہ جنگی سر پر کھڑی ہے۔ طالبان جڑیں پکڑ رہے ہیں جبکہ امریکی اس صورتِ حال سے تنگ آچکے ہیں، وہ اربوںروپے مالیت کا سامان چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں جو طالبان کے کام آرہا ہے۔ ملک کااسی فیصد علاقہ ان کی دسترس میں آچکا ہے ۔ افغانستان کی تقدیر ہنوز بے یقینی کی فضا میں معلق ہے۔

ایران نے اپنے پڑوسی ملک میں غیر ملکی افواج کی ناکامی کو سراہا اور پاکستان حکومت کے افغان مسئلے کا کوئی فوجی حل نہ ہونے کے بیانیے کی تائید کی ۔ پڑوسی مسلم ممالک کے لئے وقت آگیا ہے کہ وہ تفصیلی بات چیت، مذاکرات اور طاقت کے باہمی اشتراک سے بیگناہ قیمتی جانوں، معیشت اور بنیادی ڈھانچے کے نقصان کو کم سے کم کرنے میں مثبت کردار ادا کریں۔ پاکستان افغانستان میں قیام امن کے لئے چین کی پیش قدمی اور ترقی کے عہد میں شانہ بہ شانہ ہے،متوقع خانہ جنگی کے باوجود مایوس ہونا امید کی توہین ہے۔

(مصنف جناح رفیع فائونڈیشن کے چیئرمین ہیں)

تازہ ترین