• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میڈیکل کمیشن کا نافذ کردہ ’’این ایل ای‘‘

ڈاکٹر وقاص احمد، لاہور

پاکستان میڈیکل کمیشن ، طِب کی تعلیم اور میڈیکل کالجز کے معیار کو پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر میں یک ساں طور پر بلند کرنے کا خواہاں ہے، لیکن بدقسمتی سے گزشتہ ڈیڑھ سال میں جو اقدامات کیے گئے ہیں، ان کے سبب شعبۂ صحت سے متعلقہ تقریباً تمام ہی حلقوں میں تشویش پائی جارہی ہے۔ فیصلہ سازی اور اہداف کے تعیّن اور ان کے حصول کے لیے میڈیکل کی فیلڈسے وابستہ کسی بھی اسٹیک ہولڈر کو مشاورت کا حصّہ بنایا گیا اور نہ ہی اُن کی طرف سے اُٹھائے گئے اعتراضات کے ازالے کا کوئی تسلی بخش طریقہ کار وضع کیا گیا۔ جس کا ردّ ِعمل مُلک بھر میں جلسے جلوس، مظاہروں،پریس کانفرنسوں اور مختلف سیمینارز یا ویبینارز کی صُورت سامنے آیا ۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان اور امریکا کے عوام اور حالاتِ زندگی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔پاکستان کے معروضی حالات اور صحت کے حقیقی مسائل کا ادراک کیے بغیر یہاں امریکی نظام مِن وعن نافذ کرنے سے پاکستان میں صحت کی تعلیم انتہائی منہگی ہو جائے گی اور معیار بھی بہتر ہونے کی بجائے مزید انحطاط کا شکار ہوگا۔

پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کاؤنسل (PMDC ) جو 1962ء سے اب تک پاکستان میں میڈیکل سے وابستہ ہر ہر چیز کو ریگولیٹ کر رہا تھا،گوکہ اس میں کمیاں موجود تھیں، لیکن اس کو راتوں رات ختم کر کے پاکستان میڈیکل کمیشن تشکیل دے دیا گیا، جس نے خود کو ایک ریگولیٹری باڈی کی بجائے، امتحانی بورڈ ہونےتک محدود کر لیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ شعبۂ طِب میں ایک خلا اور انتشار کی سی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں جس امریکی ماڈل کو یک لخت نافذ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، وہ ماڈل خود امریکا جیسے وسائل سے مالا مال مُلک میں بھی پندرہ سالوں میں بتدریج نافذ ہوا تھا۔ امریکا میں یونائیٹڈ اسٹیٹس میڈیکل لائسینسنگ ایگزامینیشن (USMLE) پر 1980 ءمیں سوچ بچار شروع کی گئی تھی ، جسے 1992 ء سے 1994 ءکے دوران نافذکیا گیا۔ 

مزید براں ،اس میں کلینیکل امتحان 2004 ءمیں شامل ہوا۔ اسی طرح برطانیہ نے 2015ء میں اپنے پرانے نظام کو نئے سینٹرل نظام سے بدلنے کا اعلان کیا ، جسے 2024 ءتک مکمل نافذ کیاجائے گا۔یہ نہیں کہ ایک اجلاس میں فیصلہ ہوا اور راتوں رات نیا نظام، نئے قوانین نافذ العمل ہوگئے۔

امریکا میں ڈاکٹرز اور عوام کے لیے ایک مربوط و منظّم طبّی نظام موجود ہے ۔جس کے تحت ایک ٹیسٹ(MCAT )میڈیکل اسکول میں داخلے سے پہلے ہوتا ہے اورمیڈیکل اسکول میںدورانِ تعلیم USMLEکے بورڈ کے دو امتحان ہوتے ہیں۔ اس کے بعدتین سال کی ٹریننگ کے دوران تیسرا بورڈامتحان، یعنی اسٹیپ 3 ہوتا ہے۔

یہ تمام امتحانات پاس کرنے کے بعد ہی ڈاکٹر ز کو لائسینس جاری کیاجاتا ہے۔ اب اگر وطنِ عزیز کی بات کی جائے تو پاکستان میڈیکل کمیشن نے راتوں رات میڈیکل نظا م میں نیشنل لائسینسنگ ایگزامینیشن (NLE ) کی صورت میں ایک اضافی پیوند کاری کردی، جس کی وجہ سے میڈیکل کےطلبہ ایک ذہنی اذیّت میں مبتلا ہوگئے ہیں۔

ہماری گزشتہ کئی سالوں کی جدّوجہد اور سپریم کورٹ کے حکم کے بعدپی ایم ڈی سی نے پرائیویٹ میڈیکل کالج کی فیس پانچ لاکھ تک محدود کی تھی۔ علاوہ ازیں،پرائیویٹ میڈیکل کالجز میں میرٹ کو یقینی بنانے کے سینٹرل انڈکشن پالیسی بھی نافذ کی تھی، لیکن پاکستان میڈیکل کمیشن نے میڈیکل کالجز میں داخلوں اور فیس ریگولیشن کے تمام اختیارات متعلقہ کالجز کو دے دیئے ہیں۔ 

یہی وجہ ہے کہ اب پرائیویٹ میڈیکل کالجز کی فیس پندرہ لاکھ تک پہنچ گئی ہےاور داخلوں میں میرٹ اور شفّافیت کا فقدان صاف نظر آ رہا ہے۔ پاکستان میں پرائیویٹ میڈیکل کالجز اربوں روپے کاکاروبار کر رہےہیں، لیکن امریکی نظام میں پرائیویٹ میڈیکل کالجز کی فیس ،فردِ واحد کی جیب میں نہیں، انڈومنٹ فنڈ میں جاتی ہے۔ 

مزید براں، وہاں کسی بھی میڈیکل کالج میں طالب علم کو فیس نہ دینے کے سبب داخلہ دینے سے انکار نہیں کیا جاتا ، طلبہ کو قرض فراہم کرنے کا ایک پورا نظام موجود ہے، جسے وہ ڈاکٹر بننے کے بعد قسط وار ادا کرتے ہیں۔ پاکستان میں ایسے کوئی رُلوز اینڈ ریگولیشنز نہیںکہ جن کے تحت طِب کی تعلیم کاروبار کی بجائے ،میرٹ اور معیارکے مطابق فراہمی کی جائے۔ 

نیز، میڈیکل کمیشن نے پوسٹ گریجویٹ ٹریننگ کا کوئی روڈ میپ نہیں دیا اور پاکستان میں پوسٹ گریجویٹ ٹریننگ کی پہلے سے موجود سیٹس بھی آدھی کر دی گئی ہیں، ٹریننگ کے لیے ضروری قرار دیے گئے Periphery Services کے لیے کوئی لائحہ عمل موجودنہیں۔ ڈاکٹرز کی تعداد بیسک ہیلتھ یونٹ (BHU) اور رورل ہیلتھ کلینک(RHC) کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے،لیکن ٹریننگ کے لیے ہزاروں ڈاکٹرز کئی کئی سال انتظار کرتے رہتے ہیں کہ ان کی باری آنے سے قبل یہ سیٹس بِک جاتی ہیں۔ 

پاکستان میڈیکل کمیشن نے میڈیکل کالجز کے لیے’’ Basic Medical Sciences ‘‘ریگولیشن ، میڈیکل فیکلٹیز ریگولیشن، ٹیچنگ اسپتالوں کی ریگولیشن وغیرہ اپنے دائرہ اختیار سے نکال کر کالجز یا یونی وَرسٹیز کو دے دی ہے۔ جن کے نتیجے میں پرائیویٹ میڈیکل تعلیم کا معیار مزید انحطاط کا شکار ہو گا۔

ہم بحثیت میڈیکل کمیونٹی مطالبہ کرتے ہیں کہ

٭ شعبۂ طِب سے متعلق جو بھی اصلاحات کی جائیں ،اُن پر تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ وسیع اور مکمل مشاورت کی جائے۔

٭ ان اصلاحات کو یک دَم نہیں، بتدریج نافذ کیا جائے۔

٭ NLE کے نفاذ کو فی الحال ملتوی کر دیاجائے ۔

٭ تفصیلی مشاورت کے نتیجے میں اگر این ایل ای کے نفاذ پر اتفاق ہو جائے ،تو اس کو پوسٹ گریجویٹ ٹریننگ کی انڈکشن کے طور پر لیا جائے۔

٭ پوسٹ گریجویٹ ٹریننگ کی سیٹس بڑھائی جائیں اور اس کے راستے کی تمام رکاوٹیں دُور کر کے ڈاکٹرز کی ٹریننگ کے لیے آسانیاں اور سہولتیں پیدا کی جائیں۔

٭ تمام ڈسٹرکٹ اسپتالوں کو ٹیچنگ اسپتال بنانے کے فوری اقدامات کیے جائیں۔

٭ پرائیوٹ میڈیکل کالجز کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے ٹیچنگ اسپتالوں میں اپنے تمام طلبہ کے لیے Paid ہائوس جاب کا بندو بست کریں اور زیادہ سے زیادہ ٹریننگ اسپیشلٹیز اور سیٹس کا اضافہ کریں۔ نیز، ان اسپتالوں کو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی بنیاد پر CIPکے ساتھ جوڑا جائے ۔

٭مزید پرائیویٹ میڈیکل کالجز اور B اور C کیٹیگری کے فارن میڈیکل کالجز میں داخلوں پر پابندی عاید کی جائے۔ 

(مضمون نگار، میو اسپتال، لاہور میں بطور میڈیکل آفیسر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ نیز، پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن، لاہور کے جنرل سیکرٹری بھی ہیں۔ )

تازہ ترین