• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر فائیواسٹار ہوٹل کا اندرونی موسم ایک جیسا ہوتا ہے مگر کابل کے اِس ہوٹل میں درجۂ حرارت پر کنٹرول کے باوجودہر طرف الیکٹرونک واک تھرو گیٹ، کیل کانٹے سے لیس فوجی جوان اور اُن کے ہاتھوں میں چمکتی ہوئی رائفلیں ماحول میں گھٹن کا احساس دِلا رہی تھیں۔ یہ 2010کا ذکر ہے۔ افغان پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدہ 1965 کے بعدنئے سرے سے طے ہو رہا تھا۔ مذاکرات کا پہلا دور ختم ہوا۔ دوپہر کے کھانے کے بعد دُوسرا دور شروع ہونے میں چند گھنٹے کا وقفہ تھا۔ مجھے افغانی وزارتِ تجارت کے ایک افسر نے قہوے کی دعوت دی۔ گفتگو کے دوران میں نے نوجوان افسر سے سوال کیا، ’’آپ کے خیال میں امریکہ کب تک کابل حکومت کو مالیاتی امداد اور فوجی تحفظ فراہم کرتا رہے گا؟‘‘اُس نے لا تعلقی سے کندھے اُچکانے پر اکتفا کیا۔ مگر میرے دوسرے سوال کی چُبھن نے اُسے بولنے پر مجبور کیا، ’’جب کبھی اُسامہ بن لادن پکڑا گیا تو افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کی موجودگی کا کیا جواز باقی رہ جائے گا؟‘‘ اُس کا جواب افغان حکومت کی خواہش کا عکاس تھا۔ ’’امریکی رائے عامہ افغانستان میں جمہوریت کا فروغ چاہتی ہے۔ اُسے دہشت گردی کے ذریعے نافذ کیا ہوا طالبان کا شرعی نظام قبول نہیں۔ امریکی عوام اظہارِ رائے کی آزادی‘ مذہبی اقلیتوں اور عورتوں کے حقوق کا تحفظ چاہتے ہیں۔ امریکہ کبھی طالبان کو دوبارہ برسرِ اقتدار دیکھنا نہیں چاہے گا۔‘‘ اُس کے جملے سُن کر مجھے یاد آرہا تھا کہ نائن الیون کے فوراً بعد امریکہ‘ افغان سرزمین سے القاعدہ کا خاتمہ اور اُسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کئے جانے کا مطالبہ کر رہا تھا جسے طالبان حکومت نے تسلیم نہیں کیا۔ بپھری ہوئی امریکی رائے عامہ کے دل میں لگی آگ شاید افغانستان پر گولہ باری سے اُٹھنے والے شعلے ہی ٹھنڈا کر سکتے تھے۔ امریکی حکومت کے لئے اِس بند گلی سے نکلنے کے راستے محدود تھے۔ یہ بھی خیال آیا کہ نوجوان افسر کو یاد دلائوں کہ اُسامہ بن لادن کی موت پر امریکی دلچسپی کو معدنی ذخائر قائم رکھ سکتے ہیں جو افغانستان کے پاس موجود نہیں۔

ایک سال بعد 2011 میں امریکی حکومت نے اُسامہ بن لادن کی ہلاکت کا اعلان کیا تو اندازہ تھا کہ امریکہ کی افغان پالیسی ایک دو برس میں تبدیل ہو جائے گی۔ مگر یہ عرصہ دس برس پر محیط ہوا تو حیرت نہیں ہوئی۔زمانۂ طالب علمی کے دوران ویت نام کی جنگ ہماری فہم و فراست میں اضافہ کر چکی تھی۔ تجربہ ہو چکا تھا کہ امریکہ جیسے بڑے ملک کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ جنگ میں اُلجھ جائے تو گروہی مفادات پائوں کی زنجیر بن جاتے ہیں۔ کمپنیاں نِت نئے ہتھیار ایجادکر کے فوج کو بیچنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں۔ اگر ویت نام کی جنگ کے دوران نیپام بم کی ہلاکت خیز رُونمائی ہوئی تو افغانستان کے فوجی ایکشن میں پہلی دفعہ ڈیزی کٹر کی تباہ کاریاں دیکھنے کو ملیں۔ جنگ و جدل کے اخراجات ٹیکس دہندگان پر مالی بوجھ کا باعث سہی مگر انڈسٹریل ملٹری کمپلیکس سے جُڑے بدعنوان عناصر کی جیب بھی بھاری ہوتی رہتی ہے۔ جنگ میں سپاہیوں کی ہلاکتیں ایک ناپسندیدہ فعل سہی مگر اُن کے جسدِ خاکی پر برسنے والے کچھ پھُول سالاروں کے کندھوں پر بھی چمک اُٹھتے ہیں۔

ہمیں یہ تو معلوم نہیں کہ افغانستان سے فوجی انخلا کے فیصلے کو امریکی اسٹیبلشمنٹ کی تائید حاصل تھی یا نہیں مگر صدر بائیڈن کے اِس اعلان نے بین الاقوامی اور مقامی میڈیا میں ایک ہیجان برپا کر دیا۔ آج جنگ شروع ہونے کے بیس برس بعد امریکی صدر اپنی قوم سے وعدہ کر رہے ہیں کہ وہ دُوسری نسل کو اِس لاحاصل جنگ کا حصہ نہیں بنائیں گے۔ انخلاء کی اتنی جلدی ہے کہ امریکی افواج نے رات کی تاریکی میں بگرام ایئر بیس خالی کردیا۔ جن افغانیوں نے امریکیوں کا ساتھ نبھایا، اُنہیں فوری طور پر کسی تیسرے ملک منتقل کیاجا رہا ہے جہاں اُن کی امریکہ میں مستقل پناہ کی درخواستوں پر فیصلہ ہو گا۔ بھارت کے بھی ہاتھ پائوں پھولے ہوئے ہیں۔ پاکستان دُشمنی کے تحت بنائی گئی افغان پالیسی ہمیں مغرب کی طرف سے گھیرنے کی ناکام کوشش تھی۔ صوبہ ہرات میں ہندوستانی حکومت کا بنایا ہوا سلما ڈیم، 16فوجیوں کی ہلاکت کے بعد طالبان کے قبضے میں آ چکا ہے۔ یاد رہے کہ اِس ڈیم کا سنگِ بنیاد رکھنے کے لئے 5 سال پہلے ہندوستانی وزیرِ اعظم مودی افغانستان تشریف لے گئے تھے۔ آج کل اُنہیں تین ہزار سے اُوپر ہندوستانی شہریوں کے افغانستان سے انخلا کی فکر کھائے جا رہی ہے۔مزار شریف اور قندھار قونصلیٹ میں تعینات سفارت کاراور اُن کے مدد گار عملے کےسینکڑوں افراد کا مستقبل کیا ہو گا؟ افغانستان کے طول و عرض میں چار سو منصوبوں پر ہندوستانی سرمایہ کاری افغانیوں کے دل میں کوئی غیر سگالی جذبات پیدا نہیں کر سکے گی۔ اب اُن کے وزیر خارجہ ایران کے ساتھ مل کر مشکل صورتِ حال سے عہدہ برآ ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ خطے کے دُوسرے ممالک بھی ہر لمحہ بدلتے حالات سے پریشان ہیں۔ چین امریکہ کو موردِ الزام ٹھہرا رہا ہے۔ جن وسطی ایشیائی ممالک کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں، وہ کسی ممکنہ خطرے سے نمٹنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ افغانستان میں بسنے والے اقلیتی فرقوں کے افراد حفاظتی پیش بندی میں مصروف ہیں۔روزانہ نئی خبروں سے اطلاع ملتی ہے کہ افغانستان کے مزید اضلاع طالبان کے قبضے میں آچکے ہیں۔پاکستان کو اپنی جگہ یہ پریشانی لاحق ہے کہ افغان خانہ جنگی کی صورت میں فرار حاصل کرنے والے افغان شہری پاکستانی سرحدوں کا رُخ کریں گے۔ ایک اور سوال ذہن میں اُبھرتا ہے کہ پاکستان میں مقامی تحریک طالبان جسے پاک فوج نے اپنے خون سے کنٹرول کیا،کے مستقبل پر کیا اثر پڑے گا؟ کیا افغانستان کی نئی حکومت داعش کو پھلنے پھُولنے کا موقع دے گی؟

یہ معاملہ ابھی تحقیق طلب ہے کہ قطر میں ہونے والے مذاکرات کے دوران امریکہ اور طالبان کی قیادت، باہمی رضامندی سے کون سے معاملات طے کر چکی ہے۔ اِس تناظر میں طالبان کا آئندہ کا طرزِ عمل کیسا ہو گا؟ پہلے ایڈیشن میں اُن کی قیادت دینی مدرسے کے ماحول سے نکل کر بندوق کے بل بوتے پرحکومتی ایوانوں میں منتقل ہو گئی۔ اُن کی سیدھی سادھی سوچ، اپنی سچائی کی دُھن میں مگن راج نیتی کی ضروریات سے بڑی حد تک ناآشنا رہی۔ اب طالبان قیادت بظاہر مختلف نظر آتی ہے۔ پہلے ایڈیشن کے پانچ سالہ تجربے اور گزشتہ بیس برسوں کے نشیب و فراز نے اُسے حکومتی اسرار ورموز سمجھنے کا بیش قیمت موقع دیا ہے۔ مگر کیا افغان طالبان نے تدبر سے کام لے کرذہنی ارتقاء کی وہ منازل طے کی ہیں جو دوسرے ایڈیشن میں اُن کی حکومت کو بین الاقوامی قبولیت سے نواز دے؟ امریکی صدر بار بار کہہ رہے ہیں کہ طاقت کے زور پر قائم کی گئی حکومت تسلیم نہیں کی جائے گی۔ سوال ایک ہی ہے کہ کیا طالبان قیادت نے ناپسندیدہ حالات سے نبردآزما ہونے اور گفت و شُنید سے حالات سُدھارنے کا فن سیکھ لیا ہے؟ آئندہ کالم میں اِسی موضوع پر اظہار خیال ہو گا۔ (جاری ہے)

تازہ ترین