• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وطن سے ہزاروں میل دور بیٹھ کر خبریں دیکھتے ہوئے یوں لگتا ہے گویا پورا ملک سکھ چین کی بنسی بجا رہا ہے بس لیاری ہے کہ کراچی میں غزہ کی پٹی بنی ہوئی ہے۔
کراچی میں سیاسی شعور، اسپورٹس، محنت مسکینی، ظلم و جرائم کی حوالے سے لیاری کو وہ اہمیت حاصل ہے جو کبھی ان حوالوں سے نیویارک میں ہارلیم کو حاصل تھی۔
لیاری کے وہ دن لد گئے جب بیگم نصرت بھٹو نے کہا تھا اگر فرسٹریشن، غربت اور بیروزگاری کا دہشت گردی سے تعلق ہے تو پھر کیوں نہیں لیاری کے نوجوان کلاشنکوف لیکر اپنے محلے والے کے گھر میں کود جاتے۔ یہ وہ دن تھے جب باقی کراچی کے لڑکے کلاشنکوف لیکر محلے گلی والوں کے گھروں میں کود رہے تھے لیکن لیاری کے نوجوان بجاں تیر بجاں کی دھن پر محو رقص تھے پھر یہ رقص جیل میں تھا پھانسی گھاٹ میں کہ لیاری کی تنگ تاریک گلیوں میں۔ ایسی گلیاں جن کے لئے ہی شاید فیض نے کہا تھا ”ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے“۔ کراچی اگر منی پاکستان تھا تو لیاری منی بلوچستان اور منی ایران تھا۔
لیاری میں افشانی گلی ہے جہاں کا نوجوان عبدالواحد بلوچ مقامی ڈرگ مافیا کے ساتھ لڑتے ہوئے اپنی جان کی قربانی دے گیا تھا اور اس کے باقی ساتھی اسی افشانی گلی اور لیاری کے کئی علاقوں میں جہاں اس سے قبل منشیات بکتی تھی اب وہاں نائٹ اسکول چلایا کرتے تھے۔ بغدادی، کلاکوٹ، افشانی گلی، سنگھولین، ممباسا اسٹریٹ اب یہاں جرائم پیشہ ٹولوں کی جگہ پر لیاری نوجوان تحریک کے کارکن تھے۔ لیاری کے ہی محلے گلیوں کے نوجوان پڑھے لکھے لڑکے لڑکیاں تھے جو راتوں کو اسٹریٹ لائٹس کی روشنی میں اپنی گلیوں میں ٹاٹ پر بیٹھ کر بچوں کو پڑھا رہے تھے۔
چاہے یہ فوجی آمریت کے دن تھے۔ علاقے میں متھ تو اب یہ تھی کہ پناما کے نوریگا کی مافیا کی ڈانڈے آکر لیاری میں ملتے ہیں۔ رات گئے آٹھ چوک کے قہوہ خانوں، ہوٹلوں اور گل محمد لین کے تھڑوں پر نوجوان سیاسی، ادبی اور نظریاتی بحث کرتے۔ بھٹو کے جیالے بھی ہوتے تھے، تو بلوچ قوم پرست بھی، تو بائیں بازو کے روسی چینی نواز لوگ بھی۔ گبول پارک لیاری کے اردگرد ابھی اتنے لوگ بیکار و بیروزگار نہیں بیٹھے تھے کہ ابھی خلیج کے ممالک سے کمانے والے لوگوں کی واپسی نہیں ہوئی تھی۔ افغانستان کی جنگ اور ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد افغانی اور ایرانی مہاجروں کا کراچی میں ایک بڑا پڑاؤ لیاری کے اردگرد اور لی مارکیٹ کے ہوٹلوں میں ابھی نہیں ہوا تھا۔ اب بھی کراچی کے سینماؤں اور ستّر کلفٹن چاہے بلاول ہاؤس کے گیٹ کیپر لیاری سے جاتے تھے۔ اب بھی لیاری میں بھٹوؤں کا یا پھر ارجنٹائن کے فٹ بال اسٹار پیلے یا میراڈونا جسے کھلاڑیوں کا طوطی بولتا تھا۔ لیاری والوں کی کرامت نے مردہ بھٹو کو آمریتوں اور اسٹیبلشمنٹ کیلئے زندہ بھٹو سے خطرناک رکھا ہوا تھا۔ بلوچستان اور ملک میں تو لوگ اب غائب ہونا شروع ہوئے لیکن لیاری کے نوجوان تو الذوالفقار کے نام پر کئی سال قبل لیاری کی گلیوں سے غائب ہونا شروع ہوئے۔ لیاری والوں کے لیڈر بھٹو تھے۔ کچھ دنوں بعد لیاری والوں کا لیڈر انور بھائی جان پیدا ہوا جسے میں لیاری کے بلوچوں کا الطاف حسین کہتا تھا۔ ایرانی نژاد مبینہ جرائم پیشہ امان اللہ مبارکی ابھی کئی بلوچ نوجوانوں کا ہیرو نہیں بنا تھا۔
لال بخش رند، لیاری والوں کا لالہ، پرانا انقلابی اور لیڈر، رحیم بخش آزاد ( بھٹوکی مرحومہ پاکستان پیپلزپارٹی کی لیاری میں بنیاد ڈالنے والے کہ شاید اب جن کی اپنی گلی لیاری میں نوگوایریا بن چکی!)، بلوچوں، لیاری اور بیسویں صدی کے برصغیر کی چلتی پھرتی تاریخ یوشف نسقندی، شاعر نون میم دانش (اب ساکن امریکہ) ، لیاری اور بلوچ تاریخ و ادب پر انسائیکلو پیڈیا نادر شاہ عادل ( کہ جن کی والدہ بانل دشتیاری ہم عصر دور کی عظیم لوک شاعرہ ) ، ان کے بھائی سید امداد شاہ، دانشور اور استاد صبا دشتیاری کہ جن کو سب کو نظر آنے والے خفیہ ہاتھوں نے اغوا کر کے قتل کر دیا، لیبر لیڈرعثمان بلوچ، یونس بلوچ، مولانا اسمعٰیل کھڈے والے، جسٹس سجاد علی شاہ، عمر کوچ، حسین شاہ باکسر، استاد محمد ابراہیم، محمد جمن اور کئی ایسے ہیروں جیسے لوگ تھے لیاری جن کے نام سے جانی جاتی تھی۔ یہ این جی اوز تو ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن کی بات ہے لیاری میں لوگوں کیلئے رفاعی کام اور ادارے بٹوارے سے بھی بہت پہلے کی بات ہے۔ اب بھی لیاری میں اس دور پُرآشوب میں صبیحہ شاہ اور ان کے میاں سید عبدالرحیم موسوی بے سہارا والدین اور بچیوں بچوں کی اجتماعی شادیوں کی تقریبات سمیت رفاعی کام لیاری میں سرانجام دے رہے ہیں۔ لیاری کے کھل نائک ٹائپ سخی لیٹرے تو بعد کی بات ہے۔ اسی لیاری کے قبرستانوں میں انگریزوں کے خلاف پھانسی پانے والا دیومالائی کردار بلوچ ہیرو قادر بخش بلوچ العمروف قادو مکرانی، جدید بلوچ قوم پرستی کا سندھی نظریہ دان قادر بخش نظامانی، پاکستانی کی صحافتی تاریخ کی بہادر ایڈیٹر رضیہ بھٹی دفن ہیں۔ سندھی، بلوچ، جاموٹ، لاسی، کچھی ، میمن، پختون، سلاوٹ، سید کہ افغانی (سابق میئر کراچی عبدالستار افغانی بھی اصل میں اسی لیاری کے تھے) ،اردو بولنے والے کہ میانوالی کے لوگ سب کے سب لیاری کی ایک ہی لڑی میں پروئے ہوئے تھے۔ لیاری کے عبداللہ ہارون کالج کے پرنسپل فیض احمد فیض رہے تھے۔
لیاری آمریت کے خلاف ملک میں اور کراچی میں جمہوری تحریکوں کا مضبوط گڑھ اور قلعہ تھا۔ انہی لیاری کی گلیوں میں ایم آر ڈی تحریک کے دنوں میں بے نظیر بھٹو نے ستّر کلفٹن سے اپنی نظربندی توڑتے ہوئے معرکة الآرا جیالوں کے ہمراہ ایک یادگار بہادرانہ جمہوری لڑائی لڑی تھی۔ یہ اگست انیس سو چھیاسی تھا۔ اسی لیاری کے فٹ بال چوک پر اگست انیس سو تراسی میں مدبر سیاستدان اور بلوچ رہنما (جنہیں بلوچ نوجوان بڑے پیار سے بابائے استمان یعنی بابائے وطن کہتے ہیں) نے گرفتاری پیش کرنے اور اس سے قبل تمام پولیس اور ایجنسیوں کے ناکوں کے باوجود لیاری پہنچنے کی یادگار داستان رقم کی تھی۔ یہ جو آج کے مشہور انسانی حقوق کے قانون دان ضیاء اعوان ہیں یہ بھی کل لیاری کے نوجوانوں کی جمہوری لڑائی کے قافلوں میں شامل تھے۔ انہیں بلوچی اور سندھی سمیت نہ جانے کتنی مقامی زبانوں پر دسترس ہے۔ مطلب کہ لیاری کراچی میں لسانی و فرقہ وارانہ تعصب کا اینٹی تھیسز تھا۔ بھٹو کے نام پر پھانسی پانے والے ناصر اگر بلوچ تھے تو ایاز سموں یا کچھی تھے۔لافانی کافی یار ساکوں لائی ہے عشق آتش گانے والے ماسٹرو استاد محمد جمن جیسے عظیم فنکار بھی تو لیاری کے کچھی تھے۔ ماسٹر ابراہیم بھی یہیں لیاری کے کچھی تھے نہ۔
خشک پڑتے نلکے، ابلتے ہوئے گٹر، خشک ہوتے ہوئے آنسو، چیختے گدھے، پولیس تشدد میں مارے ہوئے جوانوں کے لاشے اور ان پر بین کرتی ہوئی مائیں لیاری کو شاید اس کے جنم سے سوغات میں ملے تھے۔ لیاری کے محبت کے چشموں میں تعصب و دوری کا زہر باہر کے لوگوں نے ملایا ہے۔ باہر کے سیاستدانوں نے لیاری والوں کو اپنے مفادات میں استعمال کرنے کی ہر دور میں کوششیں کی ہے۔
کون نہیں جانتا کہ شیرل دادل جیسے بدنام زمانہ دہشت کے کردار کس سیاسی خاندان کی پیداوار تھے۔ وہ کہ جن کے ذریعے ان کے سرپرست سیاسی مخالفین کے جلسوں میں سانپ چھڑواتے تھے۔ بھٹو نے اس لے گیسی یا وراثت داری کی ایک ہٹی کو آ کر اس کی متھ سمیت توڑ ڈالا تھا۔
بھٹو کا لیاری کے لوگوں کے ساتھ سیاسی رشتے کے ساتھ شاید یہ کم لوگوں کو معلوم ہو کہ ایک رشتہ اور بھی تھا کہ بھٹو کے دادا کو انگریز کلکٹر کی بیوی بھگانے کے بعد پناہ دینے والے بزرگ یا تعلق بھی لیاری کے علاقے کھڈے سے تھا۔ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور میں بدنام زمانہ پکا قلعہ آپریشن کے لیڈ کردار پولیس افسر دین محمد بلوچ کا تعلق بھی لیاری سے ہے۔
لیاری جہاں کے ککری گراؤنڈ پر بے نظیر بھٹو کی شادی اور اس کے بلاول اور بختاور کی پیدائش گاہ بھی لیاری تھا۔ کون نہیں جانتا کہ بے نظیر بھٹو کو کراچی میں خودکش حملے کے وقت انہیں حملے کی جائے واردات سے بحفاظت زندہ سلامت نکال کر بلاول ہاؤس لے جانا والا رحمن ڈکیت تھا کہ جسے اب لیاری کے اکثر لوگ سردار عبدالرحمن کہتے ہیں۔ پھر اسی رحمن ڈکیٹ کو بھٹو کے نام پر حکومت کرنے والوں نے ایس ایس پی چوہدری اسلم اور اس کی ہٹ مین ٹیم کے ہاتھوں مرواکر سردار عبدالرحمن بنوا دیا پھر اسی لیاری پر برادر عزیز کی منشا پر چوہدری اسلم کو جنرل ڈائر بنا کر بھیجا گیا۔ نہ صرف لیاری کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی پر اس کے ساتھ پی پی پی کی لیاری میں مقبولیت کے تابوت میں آخری کیل بھی۔ لیاری کے لوگ کہتے تھے کہ یہ سب کچھ اپنے اتحادی ایم کیو ایم کو خوش کرنے کیلئے کیا گیا۔ جب ایم کیو ایم اتحاد میں نہیں تو پھر سندھ کے وزیراعلیٰ قائم علی شاہ حلف اٹھانے کے بعد جہاں لیاری امن کمیٹی والوں کے ہاں استقبالیہ میں شرکت کرنے کو گئے۔ آپ ہی بتائیں کہ لیاری میں امن کیسے قائم ہوسکتا ہے جب اب لیاری امن کمیٹی والوں کے پاس پولیس اور انتظامیہ کے سینئر افسر اپنی پوسٹنگس اور ٹرانسفر کیلئے حاضریاں دے رہے ہیں! کیا لیاری کے امن کا فیصلہ بھی لیاری میں نہیں لندن میں ہونا ہے!
سندھ میں وزیراعلیٰ کوئی بھی ہو نہ صرف عزیز آباد90 کے طواف کو جائیں گے بلکہ لیاری میں بلوچ ہاؤس پر بھی۔ لیاری جہاں دنیا بھر سے لوگ مہاجر بن کر آتے تھے اب اس جنگ میں لیاری کے قدیمی باشندے مہاجر بن کر لیاری چھوڑ کر جار ہے ہیں۔ یہ لیاری کی تاریخ میں پہلی بار ہو رہا ہے۔اگر بھٹو آج زندہ ہوتے تو دیکھتے کہ آج کے لیاری میں وراثت ان کی نہیں شیرل دادل کی چل رہی ہے۔
تازہ ترین