• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چیئرمین تحریکِ انصاف کیا فرما گئے ؟”ڈاکٹر طاہر القادری صحیح تھے ۔سیاسی سفر میں ہم ہی غلط تھے ہم سے بہت خطائیں سر زد ہوئیں “۔ڈاکٹر طاہر القادری نے فرمایا کیاتھا؟ ”فخرو بھائی کی عمردیانتداری کو پچھاڑ دے گی باقی ممبر متنازعہ۔ 62/63 پر عملدرآمد نہ کرایا گیا تو دھاندلی کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ تبدیلی کا نعرہ لگانے والے 11 مئی کی رات کو سر پکڑ کر بیٹھے ہوں گے“۔جاں کی اماں پاؤں توعرض کروں انتخابی نتائج تو دانشمندوں کی توقعات کے عین مطابق آئے اور ساری وجوہات خالی وہ غلطیاں نہیں جوعمران خان صاحب کے ذہن کو الجھا رہی ہیں۔جنابِ والا ”جو“ کی فصل جو آپ نے جنوری 2012 میں انٹرا پارٹی الیکشن کے ذریعے بیجی اور پھرکمزور غیر سیاسی فیصلوں سے شدومد کے ساتھ آبیاری کی وہاں آپ کو گندم کاٹنے کو کیسے ملتی ؟”جو “ ہی نصیب تھے۔ سانحہ یہ نہیں کہ پارٹی الیکشن بری طرح ہارگئی سانحہ یہ کہ زیاں کا احساس ہے نہ ادراک ۔ سیاسی قوت ِ فیصلہ غیرموجود، غلط ٹیم کا انتخاب اور آئے دن اپنے ہی فیصلوں کے خلاف اعلانِ جنگ،ایسی غلطیاں بانجھ نہیں ہوتیں۔ لمحاتی فیصلوں سے تحریکِ انصاف کے متعلقین تنگ اور گھبراہٹ کا شکار۔ خوئے دلنوازی سے تعارف نہیں، فہم و فراست کی تنگ دامانی نے رہی سہی کسر تو نکالنا تھی ۔فہم و فراست کی غیر موجودگی میں انٹراپارٹی الیکشن نے اخلاق، انصاف، اقدار کی بیخ کنی ہی تو کرنی تھی۔ 2013 کے قومی انتخابی نتائج استطاعت اور استعداد کا مظہر ہی تو ہیں ۔ تبدیلی اور انصاف کی جماعت کا دفتر قابل ذکرسیاسی عمل اور سیاسی استطاعت سے محروم، غلطیاں نکال دیں تو عمل ندارد۔لمحہ فکر یہ کہ غلطیوں کاسلسلہ جاری ہے ۔
وطن عزیزجو سیاسی، معاشرتی اقدارسے تقریباً عاری، انحطاط کا شکار۔ سیاسی جماعتوں کی تشکیل اور نشوونما اگر میرٹ پرہو جاتی تو ایک گونہ اطمینان کہ سیاسی و معاشرتی ابتری کا سدباب ایک خود کار عمل تھا۔بدقسمت قوم کہ جھوٹوں، مکاروں، دھوکہ بازوں، خائنوں کی کہکشاں ہی مقدر۔ سوائے جماعت اسلامی کے ساری چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں شخصی فیصلوں کے تابع و فرماں اوربڑے بڑے نابغے شخصی ملکیت کے آگے بے دست وپا۔سیاسی جماعتیں شخصی ملکیت کے اصول پر چلنے والی پرا ئیویٹ لمیٹڈ کمپنیاں ہی تو ہیں۔میرٹ کا ڈھونگ تو رچالیں گی لیکن میرٹ کے قریب بھٹک نہ پائیں گی۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی سے گلہ نہیں ان کاتواصول ہی بے اصولی ہے البتہ تحریکِ انصاف نے حیران کر دیا ہے۔ 17 سال سے خواتین ونگ کی صدرفوزیہ قصوری(اور یہ درجنوں میں ایک مثال) میں کیا کمی تھی۔ فوزیہ قصوری NA-48 کے لیے بھی نہ جچی۔ دوسری طرف سیاسی ناعاقبت اندیشی کہ گھر کی سیٹ چھوڑدی۔ میانوالی نے توسب کچھ نچھاور کر دیا۔میانوالی سے ایسی بدسلوکی اور بے عزتی یہ صلہ مناسب نہ تھا۔ میانوالی کی مقامی تنظیم اور کارکنان کی چیخ و پکار PTI کے مستقبل کے اندیشہ ہائے کی خبر ہی تو ہے۔ میانوالی کی غیرت اور حمیت کو للکارنے کی کیا ضرورت تھی؟پھرطے شدہ فیصلوں کی پارلیمانی بورڈ سے توثیق، یہ سلسلہ بند ہو گا یا ”بے ہدایتا !تو ں نے نہیں سیکھنا‘۔میرٹ کے دعوے اور وعدے وعیدکرنے میں خرچ ہی کتنا ؟دروغ گو ئی ، خیانت ، دھوکے بازی ،کرپشن ور بدکرداری سب سے پہلے شرم و جھجک ہی کو توقتل کرتی ہے۔ ہمارے قومی رہنماء توانواع اقسام کی نامعقولات میں حصہ دار( Patner in Crime) ٹھہرے۔تحریکِ انصاف نے ایسی پارٹنر شپ ہی تو توڑنی تھی ۔2011 تحریکِ انصاف کا سال ہی تو تھا۔ عمران خان جو 3دہا ئیوں سے عام لو گوں میں مشہور ، کرکٹ اور ہسپتال کے بل بوتے پر محبوب قومی ہیرو جانا گیا ۔عوام کی حالت زارپرعملی سیاست میں قدم رکھنے کا تہیہ کیا تو گمان اغلب تھا کہ ہاتھوں ہاتھ لیا جائے گا۔ 1997 اور 2002 کے انتخا بات میں بھرپور حصہ لیالیکن شکست مقدر بنی کہ قوم PPPاور مسلم لیگ سے پوری طرح نا امیدنہ تھی ۔2000 کی دہائی میں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کی جلادوطنی پر میدان خالی ملا۔اس خلاء کو پُر کرنے کے لیے تگ و دو بھی کی، باوجودیکہ ناکافی، تحریک ِ انصاف کو پذیرائی ملنا شروع ہوگئی۔ پارٹی بننے کا قوی امکان پیدا ہو گیا۔ 2008 کے انتخا بی عمل کے بائیکاٹ کی غلطی نے پارٹی بننے کے عمل کودھچکہ پہنچایانتیجاََ خالص این آر او زدہ سیاستدان مزیدطاقتور بن کرمسندِ اقتدار پرجا بیٹھے ۔ دو سالوں ہی میں عوام الناس نے تنگ آکر مقتدر سیاستدانوں کو ٹھکانے لگانے کاتہیہ کیا اور PTI کو مسکن بنانے کی ٹھانی۔بہت کچھ جوڑنے سنوارنے کے خواب دیکھے کہ پیرومرشد کا خواب بکھر چکا تھا۔
2011 کا سورج جب ڈوبا تو تحریکِ انصاف کاسورج نصف النہار پر تھا۔ جوش و خروش طوفانی بلکہ سونامی کا روپ دھار چکاجبکہ سارے اہلِ علم و ہنر، سروے، تجزیے ، سارے اہل سیاست اقتدار تحریکِ انصاف کی دہلیز پررکھ چکے تھے۔ تحریکِ انصاف جو تصور ِ اقتدار میں وزاتیں بانٹ چکی تھی ، پالیسی پر پالیسی بنا کر خیالی اقتدار کی تزئین و آرائش میں مصروف، مورچہ خالی کر بیٹھی نتیجہ ظاہرہے یاجوج ماجوج کی قوم جب اگلے دن واپس آئی تو دیوار دوبارہ اصلی حالت میں موجود، ناقابل تسخیر۔کبھی ان عوامل پر بھی غور وخوض ہو گا کہ اقتدار میں تو ن لیگ اور PPP تھیں PTI کی مقبولیت کو ضعف کیوں پہنچا؟ الیکشن سے پہلے ہی کثیر تعدادتحریکِ انصاف سے مایوس کیوں ہو گئی؟2011 میں کروڑوں کا جم ِ غفیر 2013 میں لاکھوں تک کیسے محدود ہوا؟ لوگوں کی شدت اور وارفتگی کوایک سال کے اندرریورس گیئر کیوں لگا؟ سیاسی عاقبت نااندیشی یاترجیحات کا فقدان ،نیتوں کا فطور یا نالائق اور بری شہرت کے مصاحبین کا کارنامہ۔مطالعہ سیاست میں ایک بات تو حتمی ہے کہ” اللہ تعالیٰ نے کامیابی اور اقتدار صرف ذہنی استعداداور سیاسی استطاعت والوں کے لیے وقف کررکھا ہے“۔ 30 اکتوبر کے بعد سینکڑوں سیاستدانوں اورکروڑوں عوام کو جوڑنے کے لیے جو اہلیت درکار تھی اس کادور دور تک شائبہ نظرنہ آیا۔وقت سے پہلے عروج نے نفسیاتی ہیجان اور ذہنی خلجان میں مبتلا کر دیا۔ تصوراتی طور پر الیکشن جیت لیا گیا اطوار بھی شاہانہ اور آمرانہ ہو گئے، پرانے نئے کی تکریم کا کوئی طریقہ ایجاد کرنے کی بجائے بڑے بڑے ناموں کی توہین اور تذلیل رواجِ عام ٹھہرا۔لڑائیاں معمول اور تضحیک کلچرٹھہرا۔سنیئرز کی پگڑیاں سرعام اچھالی گئیں،عزتوں کے لالے پڑ گئے۔ ”پیر سائیں، انعام اللہ خان اور درجنوں مزید میںآ پکا جرم داراور آپ سے شرمندہ ہوں“۔انٹرا پارٹی الیکشن غلطیوں کو چھپانے کی ایک سعی لاحاصل جبکہ انہونی کو ہونی بنانے کا عمل ملکی سیاست سے توجہ ہٹانے کا موجب بنا ن لیگ کا ترنوالہ تو بننا ہی تھا۔ بے ہنگم پارٹی الیکشن نے جوخلاء پیدا کیا ن لیگ نے موقع شناسی دکھائی ،کمالِ ہوشیاری سے عوام میں تحریکِ انصاف کی استطاعت کے بارے غلط فہمیوں کو عام کیا۔ آج ن لیگ کا اقتدار تحریک انصاف کا مرہون ِ منت ہی تو ہے ۔
جنوری 2012 میں جب یقین ہو چلا کہ تحریکِ انصاف عروج سے زوال کے راستے پر گامزن ہے ۔ دوزانو ہاتھ جوڑ کر آہ و نالہ کیا حضور آپ سیاستدان ہیںآ ئین سٹائن نہیں، ایجادات سے دور رہیں۔ پہلے ہی ایسی ایجاد ات سے پارٹی بمشکل جانبر ہو پائی ہے ”بیِن “ تو میں نے بہت بجائی شاید”لَے “ ہی بے سری تھی۔ بدقسمتی سے چیئرمین صاحب اندرونی انتخابات کے سحرکی گرفت میں کچھ سننے پر تیار ہی نہ تھے ۔ اندرونی انتخابات شکست و ریخت کے سوا کچھ نہ دے پائے ۔مایوس لوگوں کی جائے اماںPTI آباد نہ ہو سکی۔
قومی ٹی وی پرفرمایا کہ ”پارٹی ٹوٹتی ہے ٹو ٹ جائے انٹرا پارٹی الیکشن ضرور ہوں گے“یعنی اپنے ساتھ ہی کُشتی کے داؤ۔ملک کے طول و عرض میں گلی کوچوں، منڈیوں،میلوں ، بازاروں ، اڈوں اور گھر گھرجا کر ایک کروڑ ممبر بنانے کا عزم صمیم ہواکچے ممبروں سے پکی پارٹی بنوانے کی سعی ہوئی۔ لڑائی مارکٹائی کی ایک سال پر محیط نیٹ پریکٹس کے سوا کچھ نہ دے پائے۔پارٹی انتخاب موضوع نہیں مقصود صرف نشاندہی کہ جس کو تریاق سمجھ بیٹھے وہ زہرہلاہل نکلا۔ پارٹی انتخابات فقط بری شہرت، سرمایہ کاروں اور موقع شناسوں کو اہم عہدوں پر فائزکرنے میں ممدومعاون ثابت ہوئے ۔ تازہ بری خبر یہ ہے کہ سیکھا کچھ نہیں۔ اور 76 لاکھ ووٹرز ششدر اپنے مسیحاعمران کی تلاش میں مستقبل کے بارے فکرمند ۔مودبانہ گذارش کہ ماضی سے سبق سیکھیں، الیکشن 2018 کی فکرکرنادان۔17 سال کی سیاسی ناکامی بتاتی ہے کہ ایک دفعہ ”پرنالہ“ کی جگہ تبدیل کرنا ہوگی وگرنہ اس دفعہ کا نقصان آخری کیل ثابت ہوگا۔ میڈیا میں دل و جان سے سینہ سپر رہنے والے بھی میسرنہ ہوں گے ۔ ” سترہ سال خون پانی ایک کرنے والا کالم نویس توخون کے گھونٹ پی رہا ہے “جبکہ ساتھی تو ٹشو پیپرہی ٹھہرے ۔ کیا عمران خان 2 نمبر لوگوں سے جان چھڑوا کر ابابیلوں اور جانثاروں میں واپس آپائیں گے۔کیا وہ سیاسی فہم و فراست سے بھرپور نظریاتی لوگوں کی ٹیم بنا پائیں گے۔ کیا تحریکِ انصاف ایک نظریہ بن پائے گا؟ بظاہر مشکل۔ ”جے میں ویکھاں عملاں وَلے کج نیئں میرے پلے“ البتہ رب ذوالجلال سے مایوسی کفر اور میں پر امید ہوں۔اگر روش اور وتیرہ گندے اور غیر سیاسی لوگوں کی امیج بلڈنگ اور مارکیٹنگ ہی رہا تو تبدیلی کے نعرے تصوراتی اور خیالی، بس۔ حضور لمحوں کے کمزور فیصلے دہائیوں تک پچھاڑتے رہیں گے ۔
وہ وقت بھی دیکھے ہیں تاریخ کی گھڑیوں نے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی
کیا تحریکِ انصاف کی گھنگھور گھٹائیں کبھی برس پائیں گی اس کا فیصلہ اور تعین صرف عمران خان نے کرنا ہے۔
تازہ ترین