• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار کے ٹیکس نہ لگانے کے بلند بانگ دعوے سن کر میاں محمد بخش کا ایک مشہور شعر بہت یاد آیا۔
پھنس گئی جان شکنجے اندر جیوں ویلن وچ گنا
روہ نوں کہو ہُن رہوے محمد ہُن رہوے تے مناں
(جان شکنجے میں اس طرح پھنسی ہے جیسے بیلن میں گنا پھنس جاتا ہے۔ رس سے کہو کہ اب گنے کے اندر رہ کر دکھائے، اگر رہ جائے تو ہم اسے ”عظیم“ مان لیں گے)۔
جیسے بیلن میں پھنسا ہوا گنا اپنے رس کو اندر نہیں رکھ سکتا ایسے ہی ڈار صاحب آئی ایم ایف کا قرضہ لینے کے لئے ٹیکس لگانے سے رک نہیں سکتے تھے۔ آئی ایم ایف کی کڑکی میں پھنسے ملک کے پاس کوئی زیادہ متبادلات بھی نہیں ہوتے اور کڑکی کی تو منطق ہی سیدھی سادی ہے کہ کڑکی لگانے والے کو شکار کی بھوک، ضرورت یا طمع کاعلم ہوتا ہے جس سے شکار خود چل کر کڑکی میں آتا ہے۔ آئی ایم ایف کی تو بہت فرمائشی کڑکی ہے جس کو لگوانے کے لئے بھی امریکہ اور بڑی معاشی طاقتوں کے سامنے منت و زاری کرنا پڑتی ہے۔ پاکستان کے حکمران طبقے کا دیا ہوا یہ تصور بہت مناسب نہیں کہ جیسے آئی ایم ایف قرضے دینے کے لئے قرض خواہ کو بہلا پھسلا رہا ہو تا ہے بلکہ اس کے الٹ آئی ایم ایف ایسا عالمی بنیا ہے جو دیوالیہ پن کے قریب ملکوں کو مخصوص شرائط پر رقوم فراہم کرتا ہے جیسے وہ پاکستان کو اگلے تین سالوں کے لئے 5.3بلین ڈالردے گا۔
پاکستان بار بار اس کڑکی میں پھنستا کیوں ہے؟ کیونکہ وہ بار بار اپنی کمائی سے زیادہ خرچ کرتا ہے اور بار بار دیوالیہ پن کے قریب پہنچ جاتا ہے۔ اس وقت بھی اس کے پاس اتنے زرمبادلہ کے ذخائر نہیں ہیں کہ وہ پہلے سے لئے ہوئے قرضوں کی قسطیں ادا کر سکے۔ اگر وہ عالمی قرضوں کی قسطیں ادا نہیں کرتا تو وہ خود بخود ڈیفالٹ یا دیوالیہ قرار پائے گا اور اگر کوئی ملک واقعی دیوالیہ ہوجائے تو وہ عملی طور پر بیرونی تجارت نہیں کر سکتا کیونکہ ہر ملک یا کمپنی اس سے پیشگی رقم کا تقاضا کریگی۔ چونکہ کوئی عالمی بینک اس کی ضمانت نہیں دے گا اسلئے اس کی بیرونی تجارت ٹھپ ہو جائیگی۔
آئی ایم ایف کسی بھی بنیے سے مختلف نہیں ہے۔ گاوٴں کا بنیا بھی یہ دیکھتا ہے کہ مقروض کی فصل کیسی ہے اس کے پاس مال مویشیوں کی کیا قدرو قیمت ہے۔ بنیے کو اس کی کوئی پروا نہیں ہوتی کہ مقروض اپنے بیوی بچوں کی مستقبل کی خوراک بیچتا ہے یا وہ اپنے اوزار جن پر اس کی آمدنی کا انحصار ہوتا ہے۔ اسی طرح آئی ایم ایف بھی اس امر کو یقینی بناتا ہے کہ اس سے قرض لینے والے ملک کی مستقبل کی آمدنی اور ذرائع کیا ہوں گے۔ بنیے کی طرح آئی ایم ایف کو بھی اس بات کی پروا نہیں ہوتی کہ اس کی شرائط سے ملک کے غریب عوام کچلے جائیں گے اور ان کی مفلوک الحالی میں اضافہ ہوگا۔ اس کی شرائط حکومت کی آمدنی کو بڑھانے اور اخراجات کم کرنے پر مشتمل ہوتی ہیں۔ وہ ہمیشہ بالواسطہ ٹیکس بڑھانے اور سبسڈیز (مراعات) ختم کرنے کی شرط عائد کرتا ہے چونکہ بالواسطہ ٹیکسوں کا پہاڑ عوام کے سر پر ٹوٹتا ہے اس لئے ہربار یہ عام لوگ ہوتے ہیں جو آئی ایم ایف کی کڑکی کا شکار ہوتے ہیں اور یہ انہی کی جان ہے جو شکنجے میں پھنستی ہے۔
اصل میں تو عوام کو مقامی حکمران طبقوں نے بالواسطہ ٹیکسوں کی کڑکی میں پھنسایا ہوا ہے ۔ وہ صاحب ثروت لوگوں سے ٹیکس وصول نہیں کر پاتے اور سارا بوجھ عوام پر بالواسطہ ٹیکسوں کے ذریعے ڈال دیتے ہیں ۔ اس کی شکل سیلز ٹیکس یا ایٹ سورس (At Source) ہوتا ہے۔ اس کی بہت سادہ اور عوامی مثال موبائل فون کارڈ کی خریداری کی شکل میں دیکھا جا سکتا ہے مثلاً اگر سو روپے کا کارڈ خریدا جائے تو آپ کو بتایا جاتا ہے کہ آپ کے اکاوٴنٹ میں تہتر روپے جمع ہو گئے ہیں یعنی ستائس فیصد ٹیکس کاٹ لیا گیا ہے۔ اسی طرح بجلی،گیس اور دوسری اشیائے ضرورت پر ٹیکس لگایا جاتا ہے۔ آئی ایم ایف کو علم ہے کہ یہ ملک صاحب ثروت سے ٹیکس وصول کرکے آمدنی بڑھا نہیں سکتا اس لئے وہ اشیائے ضرورت پر ٹیکس بڑھانے کی شرط عائد کرتا ہے۔ اس میں بنیادی ولن (غنڈہ گرد)تو مقامی حکمران طبقہ ہے جو براہ راست ٹیکس وصول نہیں کر پاتا، آئی ایم ایف کو تو اپنا قرضہ وصول کرنا ہے خواہ وہ براہ راست ٹیکسوں سے دیا جائے یا بالواسطہ ٹیکسوں سے۔
ٹیکس بڑھانے کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف سبسڈیز ختم کرنے کے شرط عائد کر دیتا ہے۔اس کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ یہ شاید حکومت کی دریا دلی ہے کہ وہ بجلی یا گیس پر سبسڈی دیتی ہے اور آئی ایم ایف اس کا مخالف ہے۔ یہ معاملہ پیچیدہ ہے اور پہلے یہ دیکھنا چاہئے کہ سبسڈی ہوتی کیا ہے؟ یہ زیادہ تر حکومت کاعوام کے ساتھ سخاوت کا سلوک نہیں ہوتا بلکہ اس کی اپنی نااہلی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ سبسڈی کا مطلب ہے کہ کسی مد میں گھاٹا پورا کرنے کے لئے حکومتی خزانے سے ادائیگی کرنا۔ بجلی کی مثال کو ہی لیجئے کہ بجلی پیدا کرنے کے اخراجات اس کی آمدنی (وصول شدہ رقم) سے زیادہ ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ بجلی کی فی یونٹ پیداوار بیس سینٹ ہو اور اس سے وصولی چودہ سینٹ ہو رہی ہو لیکن حکومت کو چھ سینٹ گھاٹا (یا سبسڈی) اس لئے پڑ رہا ہے کہ پچیس سے تیس فیصد بجلی چوری ہو جاتی ہے اور بہت سے نادہندگان سے وصولیاں نہیں ہو پاتیں۔اسی طرح کے گھاٹے پورے کرنے کو بجلی کی سبسڈی کانام دیا جاتا ہے۔ اب اگر حکومت یہ سبسڈی ختم کر دیتی ہے (چھ سینٹ کا گھاٹا پوراکرنا) تو اس اس کا نتیجہ یہی ہوگا کہ بیچارے دیانتدار صارفین کے بل مزید بڑھ جائیں گے۔
سبسڈیز کا ایک اورپہلو بڑادلچسپ ہے۔ بہت زیادہ شور تو عوامی ضرورت کی اشیاء پر سبسڈیز کا ہوتا ہے لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ حکومت صنعت کاروں، تاجروں اور صاحب ثروت کو زیادہ مراعات سے نوازتی ہے۔ یہ دھندہ سٹیچوری ریگولیٹری آرڈر(ایس آر او) کے ذریعے ہوتا ہے جس کاتفصیلی ذکر ہم انیس جون کے کالم بعنوان ”معاشی دہشت گرد“ میں کر چکے ہیں۔ بنیادی طور پر ایس آر او کے ذریعے پسندیدہ لابیوں کا ٹیکس بغیر پارلیمینٹ کی منظوری کے ختم یاکم کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح کے کوئی ساڑھے چار ہزار ایس آر اوز ہیں جن سے حکومت صاحب ثروت کو تین سو سے چھ سو ارب روپے کی چھوٹ دیتی ہے۔ یہ بھی ایک طرح کی سبسڈی ہی ہے۔ یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ آئی ایم ایف نے ان ایس آر اوز کو ختم کرنے کی شرط لگائی ہے جسے حکومت پاکستان نے تسلیم کر لیا ہے۔ ہمارے خیال میں اگر ایس آر اوز کو ختم کردیا گیا تو شاید بجٹ کا خسارہ کافی کم ہو جائے اور حکومت کو مزید بالواسطہ ٹیکس نہ لگانے پڑیں اور وہ عوام کو ضروری سبسڈیز دینے کے قابل ہو جائے۔
دنیا میں ہر حکومت تعلیم، صحت، زراعت اور پبلک ٹرانسپورٹ کو سبسڈی دیتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے بھی حکومتیں زیادہ آمدنی والوں سے زیادہ ٹیکس وصول کرتی ہیں اور کم آمدنی والوں کو سبسڈی یا مراعات دیتی ہیں۔ پاکستان میں اس کے بالکل الٹ ہورہا ہے اور چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ گیس کی قیمتوں میں روز افزوں اضافہ عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے۔ اگر حکومت حسب سابق نااہلی کا ثبوت دیتے ہوئے عوام پر معاشی بوجھ ڈالتی جائے گی تو پاکستان کے شہروں میں مصر کے تحریر چوک کا منظر دہرایا جاسکتا ہے۔ اس کے نتائج بھی سب کے سامنے ہیں۔ اس لئے حکومت کو چاہئے کہ جلد از جلد ایسے حالات پیدا کرے کہ عوام کو آئی ایم ایف کی کڑکی میں پھنسنا نہ پڑے اور وہ عوام کو وہ سبسڈیز فراہم کرے جس کے وہ حقدار ہیں۔
تازہ ترین