• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مصر میں بالآخر وہی ہوا جس کا خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا۔ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک نے مصر کی افواج کو اقتدار پر قبضے کا گرین سگنل مئی کے مہینے میں دے دیا تھا لیکن ان ممالک کی یہ شرط تھی کہ اقتدار پر قبضے کے بعد مصری فوج کسی سویلین چہرے کو سامنے رکھے گی جبکہ فوج کی خواہش تھی کہ وہی اقتدار پر قابض رہے تاہم امریکہ اور مصری افواج کے درمیان بالآخر بنگلہ دیش فارمولے پر اتفاق ہوا۔ فوجی بغاوت سے کچھ دن قبل ایک شام مصری آرمی کے چیف جنرل عبدالفتح اسیسی جنہیں صدر محمد مرسی نے ہی دوسرے سینئر جنرلوں پر ترجیح دے کر فوج کا سربراہ مقرر کیاتھا، صدر مرسی سے ملنے آئے اور ان سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ صدارتی عہدے سے مستعفی ہو جائیں اور ان کی جماعت اس میں رکاوٹ نہ بنے۔ صدر مرسی نے آرمی چیف کو جواب دیا۔"Over my dead body" ”ایسا میری لاش پر چل کر ہی ممکن ہے“۔ جس کے بعد مصری فوج نے صدر مرسی کو 48 گھنٹے کا الٹی میٹم دیتے ہوئے کہا کہ ”اگر حکومت اور اس کے مخالفین باہمی طور پر معاملات طے کرنے میں ناکام رہے تو فوج مداخلت کرنے پر مجبور ہوگی“۔ فوج کے الٹی میٹم کے بعد صدر کی حفاظت پر مامور ری پبلکن گارڈز، پولیس اور سیکورٹی اداروں نے صدر محمد مرسی سے اپنا تعاون ختم کردیا اور منتخب صدر تنہا رہ گئے۔ اس طرح اقتدار پر قبضے کے روز فوجی کمانڈوز صدارتی محل میں داخل ہوئے اور صدر مرسی کو بآسانی گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا جبکہ اخوان المسلمون کے اہم رہنما اور حکومتی عہدیدار بھی گرفتار کر لئے گئے۔ طے شدہ معاہدے کے تحت فوج نے ملک کی آئینی عدالت کے سربراہ جسٹس عدی منصور کو عبوری صدر بنادیا اور عوام سے ملک میں جلد عام انتخابات کرانے کا وعدہ کیا۔ اس طرح مصر کی تاریخ کے پہلے منتخب صدر بمشکل ایک سال ہی صدارت کے عہدے پر فائز رہ سکے۔
محمد مرسی اور ان کی جماعت نے فوج کی جانب سے کئے گئے اقدام کو فوجی بغاوت قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فوج نے عوامی مینڈیٹ پر شب خون مارا ہے جس نے جمہوریت کو نقصان پہنچایا ہے۔ صدر مرسی کے حامی بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور ان کی سیکورٹی اداروں اور فوج سے جھڑپیں جاری ہیں۔ صرف پیر کے روز ہونے والے احتجاجی مظاہرے میں فوج کے ہاتھوں صدر مرسی کے 51 سے زیادہ حامی مارے گئے جبکہ فوجی بغاوت سے اب تک اخوان المسلمون کے100 سے زائد افراد مارے جاچکے ہیں۔ دوسری طرف مصر کا لبرل طبقہ صدر مرسی کی برطرفی کی خوشی میں سڑکوں پر نکل آیا ہے اور جشن منارہا ہے جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ مصر لبرل اور مذہبی دو طبقوں میں تقسیم ہوگیا ہے اور اگر فوج نے صورتحال پر قابو نہ پایا تو مصر میں خانہ جنگی چھڑسکتی ہے۔
واضح ہو کہ محمد مرسی مصر میں ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں 30 جون 2012ء کو صدر بنے تھے۔ ان کا انتخاب2011ء میں صدر حسنی مبارک کی آمریت کے خلاف مصر کے عوام کی کامیاب تحریک کے نتیجے میں عمل میں آیا تھا۔ ان انتخابات میں محمد مرسی نے51 فیصد ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی تھی جبکہ ان کے مقابل علی احمد شفیق نے 48 فیصد ووٹ حاصل کئے تھے۔ اس طرح محمد مرسی مصر کی تاریخ کے پہلے منتخب صدر بنے تھے۔ صدر مرسی نے برسراقتدار آنے کے بعد مسلم دنیا سے ازسرنو تعلقات استوار کئے۔ ان کی سربراہی میں بننے والی حکومت مضبوط نہ تھی جبکہ انہیں ایک مضبوط اپوزیشن کا سامنا تھا۔ صدر مرسی نے اپنے دور حکومت میں کچھ ایسے اقدامات کئے جن سے ان کی مقبولیت میں کمی آئی۔ زیادہ اختیارات حاصل کرنے کی کوشش میں صدر مرسی کا پہلا تنازع عدلیہ سے ہوا جسے اپوزیشن نے موقع غنیمت جانتے ہوئے صدر کے خلاف بھرپور تحریک شروع کردی۔ صدر مرسی نے حکومت چلانے کیلئے ملک کی دیگر جماعتوں کا اعتماد حاصل کرنے کے بجائے صرف اپنی جماعت پر انحصار کیا۔ انہوں نے کچھ ایسے فیصلے بھی کئے جن کی وجہ سے ان کے ہمدرد اور مصر کے دوست ممالک بھی ان کے خلاف ہوگئے۔ یہی وجہ ہے کہ خلیج کے کئی ممالک نے صدر مرسی کی برطرفی کا خیر مقدم کیا ہے۔ صدر محمد مرسی نے منتخب ہونے کے بعد پاکستان کا دورہ بھی کیا اور پاکستانی پارلیمینٹ سے خطاب کیا۔ یہ 31 سال بعد کسی مصری صدر کا پہلا دورہ پاکستان تھا۔
صدر مرسی ایک ایماندار، محنتی اور مصر کی ترقی کے خواہاں حکمراں تھے۔ ان کے دور میں یقینا مصر خوشحالی کی جانب بڑھتا اور مشرق وسطیٰ میں مصر کی اہمیت میں اضافہ ہوتا مگر ایک مضبوط اسلامی جماعت کی حکومت کا قیام کچھ مغربی طاقتوں اور مصری اداروں کو قبول نہ تھا۔ صدر مرسی اور ان کی پارٹی کے خلاف فوج کے کریک ڈاؤن سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ فوج مصر کے سیاسی منظر سے اس اسلامی جماعت کو باہر رکھنا چاہتی ہے جو ایک بہت بڑی غلطی ثابت ہوسکتی ہے۔ اگر فوج نے اخوان المسلمون کی اس احتجاجی تحریک کو سختی سے دبانے کی کوشش کی تو 1970ء سے قبل کی پرتشدد اور زیر زمین سیاست کی طرف رجوع کرسکتی ہے جس کا ان کو وسیع تجربہ ہے۔ اب جبکہ مصری فوج نے آئین کو منسوخ کرکے ملک کا نظم و نسق سنبھال لیا ہے، مصر کے مستقبل کے بارے میں کئی مشکل سوالات ابھر رہے ہیں جن میں سب سے اہم یہ ہے کہ آیا مصر کی فوج مزید کسی خون خرابے کے بغیر موجودہ حالات کو کنٹرول میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں اور کیا ملک کو موجودہ صورتحال سے نکالنے کیلئے ایک مضبوط جمہوری حکومت قائم کرنے کے اپنے وعدے کو نبھا سکے گی یا ان کا وعدہ بھی جنرل ضیاء الحق یا جنرل مشرف کا جلد انتخابات کرانے کا وعدہ ثابت ہوگا۔ہمارے حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ مصر میں ہونے والی حالیہ فوجی بغاوت سے سبق حاصل کریں۔ کسی پارٹی کی انتخابات میں کامیابی کایہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ ہارنے والی جماعتوں کو بالکل ہی نظر انداز کردے کیونکہ اس طرح سے اپوزیشن جماعتوں میں احساس محرومی پیدا ہوتا ہے جو حکومت مخالف تحریک کا سبب بنتی ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مصر میں صدر مرسی کا تختہ الٹنے والے فوجی جنرل کا صدر مرسی نے خود بطور آرمی چیف انتخاب کیا تھا جیسا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے جنرل ضیاء الحق کا اور میاں نواز شریف نے جنرل پرویز مشرف کا انتخاب کیا تھا۔ حکمرانوں کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اگر وہ اپنے من پسند جنرل کو دوسرے سینئر فوجی افسران کو نظر انداز کرکے فوج کا سربراہ مقرر کرتے ہیں اور اس سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ ان کے اس اقدام سے حکومت کو فوج کی سپورٹ حاصل ہوگی تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں کیونکہ فوج کا سربراہ حکومت سے مخلص ہونے کے بجائے اپنے ادارے سے زیادہ مخلص ہوتا ہے۔ جب مصر کی تاریخ میں پہلی بار جمہوریت قائم ہوئی تو اکثر یہ کہا جارہا تھا کہ آنے والا وقت ثابت کرے گا کہ مصر مستقبل کا انڈیا بنتا ہے یا پاکستان یعنی مصر میں جمہوریت کی جڑیں پروان چڑھیں گی یا وہاں بھی پاکستان کی تاریخ دہرائی جاتی رہے گی۔ مصر میں ہونے والی حالیہ فوجی بغاوت نے مصر کو آج پاکستان سے مماثلت دے دی ہے۔
تازہ ترین