• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ماہ رمضان کی آمد سے قبل پاکستان کے معاشی فرنٹ پر دو اہم فیصلے ہوئے ہیں۔ ایک آئی ایم ایف سے 5.3 ارب ڈالر کا نیا قرضہ اور دوسرا وزیراعظم میاں نوازشریف کا دورہ چین، موجودہ معاشی حالات کے تناظر میں دونوں معاملات کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ چین سے اقتصادی تعاون بڑھانے کے بھی کئی فوائد حاصل ہوسکتے ہیں جبکہ آئی ایم ایف کے نئے قرضہ کی اصولی منظوری سے بین الاقوامی سطح پر پاکستان مشکل حالات سے دوچار ہوتے ہوتے رہ گیا ہے۔
تاہم یہ صورتحال تو تب بہتر ہوگی جب مشترکہ مفادات کی کونسل کے اجلاس میں سندھ اور خیبرپختونخوا کے وزرائے اعلیٰ اس اقدام سے اتفاق کرتے ہیں یا نہیں، اس کے بعد ماہ ستمبر کے تیسرے ہفتے میں آئی ایم ایف کا ایگزیکٹو بورڈ اس قرضہ کی باقاعدہ منظوری دے گا۔ ظاہر ہے اس سے قبل امریکہ کی مرضی سے آئی ایم ایف کے حکام کئی امور پاکستان کے حکام سے طے کریں گے۔ جن کا خصوصی تعلق افغانستان سے بظاہر امریکی افواج کی واپسی کے شیڈول اور وہاں بھارت کا رول بڑھانے کے حوالے سے ہوگا۔ اس سلسلہ میں ہمارا فارن آفس ، وزیراعظم اور ان کی ٹیم کو کیا گائیڈ لائن فراہم کرتا ہے۔ یہ چیزیں آئندہ چند ہفتوں میں طے ہو جائیں گی۔ اس کے بعد امریکی سیکرٹری خارجہ جان کیری کے دورہ پاکستان کی حتمی تاریخ کا تعین کیا جائیگا۔ جہاں تک آئی ایم ایف سے نیا قرضہ لینے کا معاملہ ہے، یہ بات سب حلقے جانتے ہیں کہ موجودہ مشکل اقتصادی حالات میں اس کے سوا حکومت کے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔لیکن اب اس کے بعد بال حکومت کی کورٹ میں آگئی ہے کہ وہ آئندہ دو سالوں میں کیسے معاشی ڈسلپن اور اقتصادی ترقی کے اہداف پورے کریگی۔ جس سے پاکستان کے بیرونی قرضوں کے دباؤ میں کمی آسکتی ہے اور کئی معاشی اصلاحات سے ٹیکسوں کو بنیادوسیع کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ بشرطیکہ اس کے لیے طاقتور اور بااختیار کو پورا ٹیکس اور نہ دینے والوں کو ٹیکس ادا کرنے کی عادت ڈالنی ہوگی۔
آئی ایم ایف سے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پاکستان کا کوٹہ 500 ایس ڈی آر تک بڑھا کر 7 ارب ڈالر کی بات کی تھی۔ جو فی الحال تو آئی ایم ایف کے حکام نے 5.3 ارب ڈالر دینے پر اتفاق کیا ہے۔ جبکہ ہوسکتا ہے کہ ستمبر کے اجلاس سے قبل مختلف شرائط کو ماننے کی صورت میں 7 ارب ڈالر بھی مل جائیں۔ اس کے بعد بھی پاکستان کو چھ سات ارب ڈالر دیگر بین الاقوامی اداروں سے ملنے کی توقع ہے۔ ان سب چیزوں کا تعلق بہرحال امریکی مفادات اور تقاضوں کو پورا کرنے سے ہے۔ جبکہ اندرون ملک تو عوام بجلی کے نرخوں میں اضافہ اور مسلسل لوڈشیڈنگ پر پریشان ہیں۔ اس سے عوام نہیں، پوری معیشت اورخاص کر صنعت و تجارت بری طرح متاثر ہورہی ہے۔ پاکستان کو آئی ایم ایف سے 2008ء میں کم مدت کے لیے زیادہ مالیت کا قرضہ ملا تھاجبکہ اب کی بار زیادہ مدت کے لیے کم مالیت کا قرضہ ملا ہے۔ پاکستان اور آئی ایم ایف کے معاملات 1958ء سے چل رہے ہیں۔ ان میں اکثر دفعہ پاکستان قرضہ کی شرائط پوری نہ کرنے کی وجہ سے عملاً ڈیفالٹ کرتا رہا ہے۔ اس وجہ سے اسے عالمی مالیاتی اداروں میں ایک قسط والا ملک بھی کہا جاتا ہے۔ 1947ء سے 1971ء کے پہلے مرحلہ میں پاکستان نے آئی ایم ایف سے 2 سٹینڈ بائی ایگریمنٹ کیے۔ ان میں 1958ء اور 1965ء میں ایک کا قرضہ پورا ملا اور دوسرا آگے نہ چل سکا۔
دوسرے مرحلہ میں 1972ء سے 1988ء میں آئی ایم ایف کے ساتھ ایک سالہ مدت کے چار معاہدے (SBA) تین معاہدے (EFF) کیے۔ ان پانچ میں سے تین معاہدوں میں آئی ایم ایف کے پورے قرضے ملے اور استعمال بھی کیے گئے۔ تیسرے مرحلہ میں 1988ء کے الیکشن کے بعد سے 1999ء تک آئی ایم ایف سے قرضہ کے 8 معاہدوں پر دستخط کیے گئے۔ ان میں پانچ پیپلز پارٹی کے دور، ایک نگران وزیراعظم معین قریشی اور 2 معاہدے مسلم لیگ (ن) کے درو میں کیے گئے۔ ان 8 معاہدوں میں سے صرف ایک کا قرضہ پورا ملا اور باقی آئی ایم ایف نے شرائط پوری نہ ہونے پر قرضہ کی رقوم ریلیز نہیں کی۔ چوتھے مرحلہ میں 2002ء سے 2012ء کے عرصہ میں پاکستان نے 3 معاہدوں پر دستخط کیے۔ جن میں 2 صدر پرویز مشرف اور ایک پیپلز پارٹی کی حکومت کے دور میں کیا گیا۔ ان 3 میں سے بھی ایک قرضہ پوران ملامجموعی طور پر آئی ایم ایف سے 18 معاہدوں میں ایک تہائی پر پورا عمل ہوا۔ جبکہ باقی معاہدے وقت سے پہلے ہی ختم ہوتے رہے۔ مجموعی طور پر ان قرضوں میں پاکستان کے لیے SDR کے کوٹہ کے حساب سے 11.934 ارب ڈالر کی منظوری دی گئی۔ لیکن پاکستان کئی وعدے اور شرائط پوری نہ کرنے کی وجہ سے صرف 7.027 ارب ڈالر (SDR) حاصل کرسکا۔ اب پاکستان اور آئی ایم ایف سے جو نیا قرضہ ملا ہے اس سے 2 ارب ڈالر تو رواں مالی سال ہی سے سابق قرضوں کی ادائیگی میں چلے جائیں گے۔ اس طرح عملاً تو پاکستان کو 13 ارب ڈالر کی ضروریات کے برعکس 3.5 ارب ڈالر کے قرضے مل رہے ہیں۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکومت نے اقتدار سے پہلے جو دعوے کیے تھے کہ کشکول توڑ دیں گے، وہ وعدے کہاں گئے۔ عوام تو اس وعدوں کو پورا ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے بیرون امداد اور معاشی تعاون کے لیے ضرور کوششیں کی جائیں لیکن پہلے پاکستان کے اپنے وسائل کو بروئے کار لانے اور ٹیکس کی وصولی یا قومی وسائل کی تقسیم ان میں مساوی سسٹم اور رول آف لاء کو موثر بنانا ضروری ہے۔
اب حیران کن بات یہ ہے کہ ملک میں توانائی کا بحران حل کرنے کے نام پر بجلی کے نرخوں میں اضافہ کیا جارہا ہے۔ کیا جی ایس ٹی کی شرح میں ایک فیصد اضافہ کافی نہیں تھا۔ عوام تو بے چارے اس حوالے سے پہلے ہی خاصے پریشان ہیں۔ انہیں بلٹ ٹرین جیسے بڑے منصوبوں سے پہلے فوری طور پر انرجی اور روٹی چاہئے۔ اس کے علاوہ امن و امان کی صورتحال پر توجہ دینا ہوگی۔ اگر ہمارے ہاں امن و امان کے حالات بہتر نہیں ہوتے تو غیر ملکی سرمایہ کار یہاں کیسے آئیں گے۔ اس لیے پہلے اندرون ملک حالات بہتر بنانے پر توجہ دی جائے۔ اس سے کئی مسائل حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
تازہ ترین