• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ارود زبان میں کالم لکھتے وقت راقم کی حتی الواسع کوشش یہی ہوتی ہے کہ انگریزی الفاظ استعمال کرنے سے گریز کیا جائے لیکن آج راقم کو ایسی مجبوری لاحق ہے جس کے باعث اردو لفظ ”آم“ استعمال کرنے کے بجائے انگریزی لفظ ”مینگو“ استعمال کرنے کو ترجیح دے رہا ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لفظ ”آم“ ترکی زبان میں نہایت ہی ناشائستہ اور غیر مناسب لفظ ہے۔اس لئے ترکی میں بسنے والے پاکستانیوں یا پھر ترکی تشریف لانے والے پاکستانیوں کو لفظ ”آم“ کے استعمال سے گریز کرنے کی ضرورت ہے،اس کی جگہ لفظ ”مینگو“ہی استعمال کرنا زیادہ بہتر اور مناسب ہے۔ اس وضاحت کو پیش کرنے کے بعد اپنے موضوع کی جانب آتا ہوں۔ گزشتہ سنیچر کی شام ترکی میں پاکستان کے سفیر جناب محمد ہارون شوکت کی جانب سے مینگو فیسٹیول کا اہتمام کیا گیا۔ اس مینگو فیسٹیول کو منعقد کرنے کا مقصد ترک عوام کو پاکستانی مینگوز کے ذائقے سے متعارف کرانا تھا۔ ترکی کی مارکیٹوں میں اگرچہ آپ کو مینگوز تو نظر آئیں گے لیکن یہ مینگوز ہمارے پاکستانی مینگوز سے بالکل مختلف ، بے ڈھنگے اور بدذائقہ ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی شخص اگر ایک بار پاکستانی مینگوز کھا لے تو وہ کبھی بھی لاطینی امریکہ اور دنیا کے دوسرے گوشے سے آئے ہوئے مینگوز کو کھانے کی جرأت اور خواہش کرے گا۔
پاکستان سے دور ترکی میں رہ کر اگر کسی پاکستانی کو جو چیز حاصل نہیں ہے تو وہ بلاشبہ یہی مینگوز ہیں۔ دنیا کے تقریباً تمام ہی ممالک میں پاکستانی مینگوز دستیاب ہیں لیکن بدقسمتی سے ترکی پھلوں کے اس بادشاہ کی مٹھاس سے ہمیشہ ہی محروم رہا ہے۔ مینگوز سے محروم رہنے کی بنا پر ترکوں میں مینگوز کا ٹیسٹ ہی develop نہیں ہوسکا ہے۔ اب سفیر پاکستان نے پاکستانی مینگوز کو ترکی میں متعارف کرانے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ ترکی زبان کا محاورہ ہے ”میٹھا کھاوٴ میٹھا بولو“ سفیر پاکستان جناب محمد ہارون شوکت نے ترکی زبان کے اسی محاورے کو مدِنظر رکھتے ہوئے اپنی رہائش گاہ کے لان میں مینگو فیسٹیول کا اہتمام کیا۔ یہ مینگو فیسٹیول ترکی میں پاکستان ثقافتی سال کی سرگرمیوں کے دائرہ کار میں منعقد کیا گیا ہے۔ اس فیسٹیول میں بڑی تعداد میں سیاستدانوں سے لے کر سرکاری حکام، تاجروں سے لے کر سفارت کاروں تک مختلف افراد کو مدعو کیا گیا۔ اس فیسٹیول میں سندھڑی، چونسہ، انور راٹول اور دسہری کی طرح کے مختلف اقسام کے مینگوز کو بڑے خوبصورت انداز میں سجا کر پیش کیا گیا۔
مینگوز کی ان اقسام سے مختلف اقسام کی ڈشز بڑی مقدار میں تیار کی گئیں۔ مینگوز سے بنی ہوئی ڈشز میں سلاد سے لے کر آئس کریم تک، souffle سے لے کر پڈنگ اور ملک شیک سے لے کر مینگو کیک تک شامل تھا کو دیکھ کر سب ورطہ حیرت میں مبتلا ہو گئے۔مینگوز اور مینگوز ڈشز کو کچھ اس طریقے سے سجایا گیا تھا جیسے ہمارے ہاں لڑکیوں کی شادی پر جہیز کی نمائش کے وقت کپڑوں کے ایک سو ایک جوڑوں کو بڑے سلیقے سے سجایا جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح یہاں بھی ایسے لگ رہا تھا جیسے سفیر پاکستان اور ان کی اہلیہ دونوں (لازمی طور پرسفارتخانہ پاکستان کے دیگر سفارت کاروں اور اسٹاف نے بھی ان کا ہاتھ بٹایا ہوگا۔ سفیر پاکستان، ان کی اہلیہ اور دیگر تمام سفارت کاروں اور اسٹاف کو اتنا اچھا فیسٹیول منعقد کرنے پر مبارکباد)نے مل کر مینگوز کی بھی ایک سو ایک اقسام کی نمائش کا اہتمام کررکھاہے۔مینگوز ڈشز کی اس نمائش کو دیکھ کر کسی کو بھی اپنے آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔ ان ترک باشندوں نے اپنی زندگی میں کبھی بھی مینگوز کی اتنی بڑی اقسام اور ڈشز کو ایک ساتھ اکٹھا نہ دیکھا تھا۔
اس فیسٹیول کے موقع پر سفیر پاکستان جناب محمد ہارون شوکت نے ترکی زبان میں خطاب کرتے ہوئے شرکاء کے دل جیت لئے۔ یہ پاکستان اور ترکی میں مقیم پاکستانیوں کیلئے باعث ِ اعزاز ہے کہ سفیر پاکستان ترکی زبان پر دسترس رکھتے ہیں ورنہ اس سے قبل اس بات کو ہمیشہ ہی محسوس کیا جاتا رہا کہ پاکستان کے سفیر عام طور پر ترکی زبان سے نابلد ہوتے ہیں اور وہ انگریزی زبان ہی میں ترک حکام سے بات چیت کرنے کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ ترک حکام پر ان کی انگریزی کا رعب قائم رہے لیکن ایسا کرتے وقت وہ بہت سا وقت ضائع کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں کر پاتے جبکہ ترکی آنے والے دیگر ممالک جن میں امریکہ ، روس، برطانیہ اور دیگر بڑے بڑے ممالک شامل ہیں کے سفیر ترکی زبان پر مہارت حاصل کرنے کے بعد ہی ترکی تشریف لاتے ہیں تاکہ ان کو ترکی میں کسی قسم کی زبان کی پرابلم نہ ہو اور ترک حکام سے براہ راست طور پر ترجمان کا سہارا لئے بغیر رابط قائم کرسکیں۔ترکی میں مقیم پاکستان کے موجودہ سفیر جو کہ اس سے قبل بھی ترکی میں سفارت کار کے طور پر اپنی خدمات فراہم کرچکے ہیں براہ راست طور پر ترک حکام اور ترک باشندوں کے ساتھ رابطہ قائم کرنے کی وجہ سے ترکوں میں بے حد پسند کئے جاتے ہیں۔ سفیر پاکستان اپنی اس خصوصیت سے آگاہ ہونے کے باعث ہمیشہ ہی ترکی زبان میں خطاب کرنے کو ترجیح دیتے ہیں اسی وجہ سے انہوں نے مینگو فیسٹیول کے موقع پر ترکی زبان میں ہی خطاب کیا۔ انہوں نے اپنے اس خطاب میں شرکاء ہی کو نہیں بلکہ ترک باشندوں کو یہ مژدہ سنایا کہ آئندہ سال سے پاکستان سے ترکی کو مینگوز ایکسپورٹ کئے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں دونوں ممالک کے درمیان تجارتی سمجھوتہ طے پاچکا ہے جس کے نتیجے میں ترکی کی مارکیٹوں میں پہلی بار پاکستانی مینگوز موجود ہوں گے اور ترک باشندے ان سے لطف اندوز ہو سکیں گے۔ سفیر پاکستان نے مزید کہا کہ پاکستان مینگو پیدا کرنے والا پانچواں بڑا ملک ہے لیکن پاکستان کا مینگو اپنی لذت اور ذائقے کے لحاظ سے نمبرون ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس فیسٹیول کو منعقد کرنے کا اصل مقصد براہ راست طور پر پاکستانی مینگوز کو ترک عوام میں متعارف کرانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اس وقت امریکہ،کینیڈا، یورپی ممالک اور مشرق وسطیٰ کے ممالک سمیت چالیس سے زائد ممالک کو مینگوز برآمد کرتا ہے اور اب ترکی بھی ان ممالک میں شامل ہوگیا ہے۔مینگوز کا ٹیسٹ develop کرنے میں اگرچہ ابھی تھوڑا وقت لگے گا لیکن کنگ آف دی فروٹ خود ہی ترکوں کے معدوں میں اپنی جگہ بنالے گا اور لاطینی امریکی ممالک کے مینگوز شاید اس سال کے بعد پھر ترکی میں نظر نہ آئیں تاہم اس حقیقت کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ ان مینگوز کی ترکی برآمدات سے سب سے زیادہ پاکستانی ہی فائدہ اٹھائیں گے اور مینگوز سے متعلق ان کی حسرت ختم ہو کر رہ جائے گی اور میٹھے مینگوز کھائیں گے اور میٹھے بول بولیں گے۔
تازہ ترین