• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حالیہ دہشت گردی کی بربریت میں اغواء کی بات کرنا ایسے ہی ہے جیسے ”بڑامنہ چھوٹی بات“۔مگر میرے اغواء کی کہانی خاصی انوکھی اور دلچسپ واقع ہوئی ۔ چند روز قبل حسب معمول میں دفتر سے گھر کی طرف روانہ تھا کہ میرے ملٹری کالج جہلم کے آٹھویں جماعت کے دوست فرخ شہیدمرزا کاامریکہ سے ٹیلیفون آیا۔ بڑی گھبرائی ہوئی دھیمی آواز سے بولے کہ ”میاں کہاں ہو اور سب خیر ہے؟“۔ میں نے بھی دھیمی آواز میں جواب دیا کہ اصلی میاں تو چین میں ہیں البتہ میں گھر جا رہا ہوں اورخیریت گھر جا کر ہی معلوم ہوگی! اس پر وہ چِلّا کر بولے، ”یاررات مشکل سے گذاری چونکہ آدھی رات تمہاری ای میل ملی کہ تم CYPRUSمیں کسی مشکل میں پھنس گئے ہو اور تمہیں ۳ہزار ڈالر کی اشد ضرورت ہے۔ اس پریشانی میں تمہیں فون کیا کہ تم شاید اغواء ہو گئے ہو“۔اس کی تسلّی کرواتے ہوئے کہا کہ میں نے CYPRUSتو کبھی نقشے پر بھی نہیں دیکھا تو وہاں جانا کیسا۔اگر اغواء ہونا ہی تھا تو یہ شرف اپنے ملک کو ہی کیوں نہ بخشتا جہاں یہ سکہ رائج الوقت ہے۔گھر پہنچ کر ای میل کھولی تو پتا چلا کہ اغواء میں نہیں میری ای میل ہوئی تھی۔ CYPRUSکے CYBERگردوں نے میری ای میل میں موجود تمام رابطوں کو میرے اغواء کی کہانی اور ۳ہزار امریکی ڈالر کی فرمائش کر ڈالی۔ اس کے بعد میرا موبائل مسلسل بجتا رہا۔فون کرنے والا خیریت پوچھتا رہا اورمیں خیریت بتاتا رہا ۔یہ منظر دیکھنے کے بعد بیگم نے رائے دی (جوکوئی نئی بات نہیں )کہ اپنے تمام دوستوں کو اطلاع کردو تاکہ کہیں وہ پریشانی کے باعث یہ رقم ہنڈی کے ذریعے نہ بھجوا دیں؟ میں نے اپنے دوستوں کا سرسری تعارف کراتے ہوئے انہیں یہ تسلی دی کہ میرے دوست ماشاء اللہ پہلے تو ہیں ہی بہت کم اور جو ہیں ان میں سے اکثریت دانائی، دُور اندیشی ، فہم و فراست اورعقلمندی سے مالا مال ہے۔ خاص طور پر جب مسئلہ مال کا آجائے تو پھروہ اپنی فراخدلی کے باعث جان تو دے دیں گے مگر مال نہیں۔ آپ اگر یہ سمجھ رہے ہوں ”چمڑی جائے دمڑی نہ جائے“ تو یہ بھی صحیح نہ ہوگا کیونکہ میرے کئی احباب جن کے لیے میں نے کبھی کچھ نہ کیا انہوں نے مجھے اپنی پرخلوص مالی فراخدلی سے شرمندگی کی حد تک متاثر کیا۔”دہشتگردی گڑھ“ یعنی پشاور سے جاوید اقبال نِکُّو نے شہباز کریلے (دونوں میرے ملٹری کالج جہلم کے کلاس فیلو ہیں اس لیے دونوں اپنے نام کے ساتھ عرف بھی رکھتے ہیں)کو فون کرکے میری خیریت پوچھی جس نے بلاتصدیق میری خیریت کا اعلان کردیا۔ اس پرنِکُّونے کہاکہ ہوش کرو وہCYPRUSمیں اغواء ہو گیا ہے۔ جس پرکریلا یک لخت بولا کاش میں بھی اس کے ساتھ جا سکتا! غالباً اُسے CYPRUSدیکھنے کابہت شوق ہے چاہے اس کے لیے اغواء ہی کیوں نہ ہونا پڑے۔ یہاں میں اپنے دوست جنرل مختارکی زوجہ شیریں حیدر کا ذکر کرنا چاہوں گا جوتلخ و شیریں کے عنوان سے تلخ سے زیادہ شیریں کالم گذشتہ کئی سالوں سے اخبار کے لیے لکھ رہی ہیں، انہوں نے ٹیلیفون پر میری خیریت دریافت کرنے کے علاوہ ایک سُگھڑخاتون ہونے کے ناطے اپنی جمع پونجی سے رقم بھجوانے کی منصوبہ بندی بھی کرلی۔ اس لمحے پر ان کے میاں نے اپنی عقل کے پاسبان کا صحیح استعمال کرتے ہوئے بیگم کو مشورہ دیا کہ رقم بھجوانے سے پہلے احتشام بھائی سے بات کرلی ہوتی۔اس مشورے پر عمل کرنے کی وجہ سے وہ اس رقم کو ضائع کرنے سے بچیں اور میں احسان مندی سے۔ چونکہ ان کا تعلق قلم قبیلے سے ہے اس لیے انہوں نے اس سارے ماجرے پر نہایت لطیف افسانوی انداز میں ایک کالم لکھ دیا جس کے نتیجے میں میرے اغواء نہ ہونے کی خوشی میں مبارکباد ی کے پیغامات کانیا سلسلہ شروع ہو گیا۔
قارئین کرام! سمندری قزاقوں اور ہوائی جہازوں کے اغواء کا عمل تو خاصہ دیرینہ ہے لیکن اب ہوا میں بکھری ہوئی ای میلوں کے اغواء کا سلسلہ بھی خاصہ عام ہو چکا ہے۔ بد قسمتی سے ہم آج تک اپنی زمین پر لیٹی ہوئی پولیس کو تو کھڑا نہ کر سکے تو سائبر کرائم کے محکمے کو کیا خاک کھڑا کریں گے؟ ہم تو آ جا کے موبائل فونوں اور یو ٹیوب کی بندش میں ہی الجھے ہوئے ہیں ۔ البتہ اس سہولت کے استعمال کرنے والوں سے میری گزارش ہے کہ اس طرح کی ای میلز ملنے پر تھوڑی بہت تصدیق ضرورکر لیا کریں۔ اس سے آپ غیر ضروری پریشانی کے علاوہ مال کے ضیاع سے بھی بچ جائیں گے۔ آخر میں ان تمام خیرخواہوں کا شکر گزار ہوں جنہوں نے میرے ساتھ دوستی کا بھرم رکھا۔ میں ان پر نازاں ہوں خاص طور سے میرے 1964 کے ملٹری کالج جہلم کے ہم جماعتوں کا جن کی تشویش اور تڑپ نے ثابت کیا کہ بچپن کی دوستیاں سدا بہار ہوتی ہیں۔
تازہ ترین