• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیر اعظم ان دنوں اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف اپنے معمول کے نرم اور شائستہ طرز عمل کے برعکس خاصے گرم لہجے میں تند وتیز زبان استعمال کررہے ہیں۔ ان کی جانب سے اس رویے کا ایک بھرپور مظاہرہ گزشتہ روز سکھر تا ملتان موٹروے کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں بھی ہوا۔پاناما لیکس معاملے کی تحقیقات کے حوالے سے اپوزیشن کی جاری مہم کے تناظر میں انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین اور دہشت گردوں کو ایک ہی مقصد کے لئے کام کرنے والا قرار دے ڈالا۔ وزیر اعظم نے سامعین سے پوچھا دہشت گردی اور دھرنوں میں کیا فرق ہے؟پھر وضاحت کی کہ دونوں ملک میں امن و امان اور خوشحالی کا راستہ روکنا چاہتے ہیں، ترقی کے سفر میں رکاوٹیں کھڑی کرنا چاہتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے رہنما اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشیدشاہ کووزیر اعظم نے ان الفاظ میں مخاطب کیا کہ ’’میرے دوست،ہم تمہارے علاقے میں پل بنارہے ہیں اور تم ہمارے استعفے کا مطالبہ کررہے ہو، ایسا کیوں ہے بھائی؟ ‘‘اپنے طویل خطاب میں وزیر اعظم نے اپنی حکومت کے تین برسوں میں ہونے والے ترقیاتی کاموں اور ان کے مثبت نتائج اور زیر تکمیل منصوبوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ بلاشبہ کوئی بھی انصاف پسند شخص اس امر سے انکار نہیں کرسکتا کہ آج امن وامان اورمعاشی استحکام کے حوالے سے ملک تین سال پہلے کی نسبت کہیں زیادہ بہتر حال میں ہے جس کا سہرا یقینی طور پر وزیر اعظم اور ان کے ساتھیوں کے سر ہے۔انتخابی دھاندلیوں کے حوالے سے دوسال پہلے کی دھرنا سیاست کو بھی قوم کی بھاری اکثریت نے مسترد کردیا ہے اور چینی وزیر اعظم کا دورہ ملتوی ہونے کے سبب اس کا جو منفی اثر ترقیاتی منصوبوں پر مرتب ہوا، وہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے۔ تاہم پاناما لیکس کے معاملے کی قابل اعتماد تحقیقات کے مطالبے کو جو پوری طرح جمہوری اور آئینی حدود میں رہتے ہوئے کیا جارہا ہے، دھرنا سیاست کے مساوی قرار دینا قرین انصاف نہیں۔پیپلز پارٹی اور بیشتر اپوزیشن جماعتیں وزیراعظم سے استعفے کے مطالبے سے عدم اتفاق کا کھلا اظہار کرچکی ہیں۔ قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے وزیر اعظم کے مذکورہ بالا خطاب پر تبصرہ کرتے ہوئے وضاحت کی ہے کہ انہوں نے وزیر اعظم سے استعفے کا مطالبہ نہیں کیا اور اس بارے میں کسی نے ان سے غلط بیانی کی ہے۔ جمعہ کے روز دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں اور سیاسی مخالفین کو ایک ٹھہرانا درست نہیں،جلسے جلوس کرنا جمہوری طریق کار ہے۔حکومت کو ہماری تنقید اور ہماری سوچ کو تعمیری نظر سے دیکھنا چاہیے،اس کا مقصد نہ تو ذاتی مفاد ہے نہ کسی کی تحقیر ۔ سید خورشید شاہ کے بقول اپوزیشن کی موجودہ تحریک کا مقصد ملک اور عوام کی ترقی اور پارلیمنٹ کی مضبوطی ہے۔قوم کے لئے آئین، جمہوریت اور پارلیمنٹ اہم ہیں نہ کہ شخصیات۔تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے بھی وزیر اعظم کے حالیہ بیانات پر گرفت کرتے ہوئے سوال کیا ہے کہ دھرنوں کا پاناما پیپرز سے کیا تعلق ہے؟انہوں نے پیش کش کی ہے کہ وزیر اعظم اپوزیشن کے ٹی او آرز کے تحت ان کا بھی احتساب کرالیں اور اپنا بھی تاکہ پتہ چل جائے کہ کون کرپشن بچاؤ تحریک کا حصہ ہے اور کون کرپشن ہٹاؤ تحریک میں شامل ہے۔بلاشبہ وزیر اعظم کو اس امر کا ادراک ہونا چاہیے کہ پاناما لیکس کا معاملہ دوسال پہلے کی دھرنا سیاست سے الگ ہے۔اس کا حل قابل اعتماد تحقیقات کے سوا کچھ نہیں جس کے نتیجے میں حقائق پوری طرح سامنے آجائیں۔ تاہم وزیر اعظم کو بھی اپنا موقف قوم کے سامنے پیش کرنے کا حق اسی طرح حاصل ہے جس طرح اپوزیشن کو لیکن جوش خطابت میں شائستگی کے تقاضوں کو کسی بھی جانب سے نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ وزیر اعظم نے تحمل و بردباری کی اپنی مستقل روایت کے برعکس حالیہ دنوں میں سیاسی مخالفین کے لئے جولب و لہجہ اپنایا ہے اس سے صورت حال میں کوئی بہتری نہیں آسکتی ۔ پاناما لیکس کی قابل اعتماد تحقیقات ایک جائز مطالبہ ہے، اس ضمن میں اپوزیشن کے مطالبات پر بات ہونی چاہیے اور کوئی متفقہ طریق کار طے کیا جانا چاہئے۔
تازہ ترین