• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آخر وزیراعظم کیوں اتنے سیخ پا ہوئے جا رہے ہیں۔ اتنی تلخی اُن کے لہجہ میں کبھی دیکھنے کو نہیں ملی جو اُن کی سکھر کی تقریر میں نظر آئی۔ لگتا ہے جیسے کسی بھی وقت پھٹ پڑیں گے۔ ایسا تو ہم نے اُنھیں دھرنے کے اشتعال انگیز ترین دنوں میں بھی نہیں دیکھا تھا۔ جو شخص اتنا خوش قسمت ہو کہ تین بار عوام کا بھاری مینڈیٹ حاصل کر چکا ہو، آخر وہ کیا بلا ہے جو اُس کے سر پر ٹوٹ رہی ہے کہ وہ ٹھنڈے اور معتدل مزاج کے باوجود اتنا تلملا رہا ہے۔ پاناما لیکس نے یقیناً(اُن کے براہِ راست نام نہ ہونے کے باوجود) اُن کے بچوں کی آف شور کمپنیوں کے ناتے اُن کے اخلاقی جواز کو گہنا سا دیا ہے۔ اُنھوں نے خود چیف جسٹس کی سربراہی میں عدالتی کمیشن کی تشکیل کی اور خود کو اور اپنے بچوں کو سب سے پہلے کمیشن کے سامنے پیش ہونے کی پیشکش کی۔ جس طرح اُنھوں نے پہلے لچک کا مظاہرہ کیا تھا، اُس کے برعکس اپوزیشن کے پیش کردہ ضوابط کار (TORs) (Terms of Reference) پر اتنے خوفناک ردِّعمل کی کیا ضرورت آن پڑی۔ باوجویکہ اپوزیشن ایک طرح سے وزیراعظم کے استعفیٰ سے دستبردار ہو گئی تھی، تو پھر اُس کے TORs پر بجائے اس کے کہ حزبِ اختلاف کو بات چیت کی دعوت دی جاتی جو کہ دی بھی گئی لیکن اس بُری طرح سے کہ نیت بات چیت کی نہیں تنازع بڑھانے کی لگی۔ سیاسی مخالفین دہشت گردوں کے مماثل ٹھہرائے جائیں گے تو ’’دہشت گردوں‘‘ سے بات کیوں کر ہو سکے گی، جبکہ وہ حقیقی دہشت گردوں سے بات چیت کے لئے بڑے ہی سرگرم رہے تھے۔ میاں صاحب پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے کو تیار نظر آتے ہیں نہ اپوزیشن کے TORs پر اُس سے سمجھوتے کو تیار۔ TOR پر حکومت اور اپوزیشن کے مابین جاری محاذ آرائی کے باعث عدلیہ تو بیچ میں آنے سے رہی۔ پھر سیاسی محاذ آرائی یوں ہی بڑھتی چلی گئی اور اپوزیشن مایوس ہو کر وزیراعظم کے استعفیٰ کے مطالبے کو لے کر سڑکوں پر نکل آئی تو پھر کیا وہی نہیں ہوگا جو ماضی میں ہوتا رہا ہے۔ جمہوریت کا بانس ہی نہ رہا تو سیاست کی بانسری کون بجا سکے گا؟
یقیناًاپوزیشن نے ایسے ناقابلِ فرار ضوابط (TORs) بنائے ہیں کہ حکومت کے وکلائے صفائی اُن پر جھپٹ پڑے ہیں۔ وکیلوں کے حوالے سیاست کر دی جائے تو دونوں جانب کے سیاسی موکلین کی خیر نہیں۔ حکومتی ضوابط کار (TORs) پر اگر اپوزیشن کا یہ اعتراض حق بجانب تھا کہ پاناما لیکس کے معاملےکو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا جا رہا ہے۔ تو حکومتی وکلا کے جواب آں غزل میں اپوزیشن کے TORs کو وزیراعظم اور اُن کے خاندان کو ’’پھنسانے‘‘ کا جال قرار دے کر بات چیت کی کامیابی کے امکانات کو مسدود کرنے کا بندوبست کر دیا ہے۔ کیا مشرف کے سابق ساتھی وزیرِ قانون کو کسی نے یہی فریضہ سونپا ہے۔ جنھوں نے قبل از وقت انتخابات کی بے موقع تجویز بھی دی تھی۔ دیوانی مقدمات کے وکیل ایسا ہی کرتے ہیں اور مقدمہ بے نتیجہ طول پکڑتا جاتا ہے۔ قانونی موشگافیاں اپنی جگہ (اور وہ سیاست کا نعم البدل نہیں!)، اعتزاز احسن، حامد خاں اور اپوزیشن کے دیگر وکلا نے ایک عرفِ عام میں اندھے کیس کی گتھیاں سلجھانے کے لئے جو ضوابطِ کار پیش کئے ہیں وہ پانامالیکس ہی نہیں تمام طرح کی دوسری لوٹ مار کا کھوج نکالنے کے لئے بھی ایک بہترین نسخہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ آف شور کمپنیوں کے خفیہ کھاتوں تک رسائی اب تک محال رہی ہے، پاکستان میں بھی اور دُنیا بھر میں بھی۔ آصف زرداری کے سوئٹزر لینڈ میں مبینہ کھاتوں سے دو دہائیوں میں سرتوڑ کوششوں کے باوجود کیا نکل پایا، جو اَب نکل پاتا۔ اور سرمائےکو فراہم کئے گئے تحفظ کے قانون کے تحت 1992 تا 1999 کے دوران اس معاملے میں سوال کرنا بھی ممنوع ٹھہرایا گیا تھا۔ اور پاکستان کے مروجہ قوانین اور مجہول اداروں اور 1956 کے عدالتی کمیشنوں کی تشکیل سے متعلق قانون اور اُس کے تحت بننے والے کمیشنوں سے کسی نتیجے کی توقع حماقت ہی نہیں مضحکہ خیز بھی ہے۔
حکومتی ضوابط کار (TORs) پامانہ لیکس کے ساتھ ساتھ قرضہ خوروں کو بھی لپیٹتے ہیں، جبکہ اپوزیشن نے وزیراعظم کے خاندان اور پاناما لیکس میں آئے آف شور کمپنیوں کے تمام مالکوں کو ہدف بنایا ہے۔ حکومت کا تجویز کردہ کمیشن 1956 کے غیرموثر قانون کے تحت ہے، اپوزیشن نے پاناما لیکس کی تحقیق کے لئے خصوصی قانون تجویز کیا ہے۔ حکومتی ضوابط نہ صرف عمومی ہیں بلکہ بہت ڈھیلے ڈھالے ہیں۔ اپوزیشن نے آف شور کمپنیوں کے خفیہ کھاتوں تک پہنچنے کے لئے ٹھوس طریقے تجویز کئے ہیں۔ عدالتی کمیشن کے تحت جس تحقیقاتی کمیٹی کی تجویز اپوزیشن نے پیش کی ہے، وہ اس کے ضوابط کا موثر ترین ہتھیار ہے، جس کے تحت جس کی ملکیت سامنے آ چکی ہے یا تسلیم کی جا چکی ہے، اُن مدعا علیہان کو ناقابلِ تنسیخ مختارنامہ دینا ہوگا جس کی مدد سے ہر طرح کی خفیہ و دیگر دستاویزات تک رسائی ممکن ہو سکے گی۔ اُس پر طرہ یہ کہ خود وزیراعظم نواز شریف کے احتساب ایکٹ کے حوالے سے بارِ صفائی مدعا علیہان پر ڈال دیا گیا ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ جو انکاری ہوگا اپنے پرانے اثاثوں سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ (میاں شہباز شریف بھی تو پیٹ پھاڑ کر لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے دعویدار رہے ہیں)۔ حکومتی قانونی مشیروں کے شق وار ردعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کسی صورت اسے قبول نہیں کریں گے کیونکہ اُنہیں اپنے موکل کو اس دام میں ’’پھنسنے‘‘ سے بچانا ہے۔ وزیراعظم جس اعتماد کا اظہار کرتے رہے ہیں، اُس کے برعکس یوں لگتا ہے کہ کچھ نہ کچھ چھپایا جا رہا ہے۔ اگر وزیراعظم کی بکل میں چھپانے کو کچھ نہیں تو وہ اپنے وکلا کے چکر میں کیوں پھنس رہے ہیں۔ لگتا ہے بحران طویل ہونے جا رہا ہے، جیسا کہ ہم نے بھٹو صاحب کے آخری مہینوں میں دیکھا تھا۔ اس وقت قومی اتحاد (PNA) والوں کو جنرل ضیاء الحق کی اشیرباد حاصل تھی۔ ابھی تک اپوزیشن کو ویسا کوئی اشارہ تو نہیں ورنہ عمران خان عمرےپہ دُعا یا دوا کے لئے سعودیہ جانے کی بجائے کبھی کے دھرنا دے بیٹھتے۔
قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی، خصوصاً ہمسایہ ملکوں کے ساتھ تعلقات کے ناتے سول ملٹری تعلقات میں خاصی ٹھنی ہوئی لگتی ہے۔ وزیراعظم کے ہمسایوں سے اچھے تعلقات قائم کرنے اور خطے کی معاشی ترقی کے وژن پر اتنا شدید ردِّعمل ہے کہ تیسرے منتخب وزیراعظم کو بھی قومی سلامتی کے لئے خطرہ قرار دیا جا رہا ہے۔ پہلے ہی بہت قیاس آرائیاں تھیں کہ حکومت کی خارجہ اور سلامتی کے امور سے چھٹی کرائی جا چکی ہے۔ ایسے میں وزیر قانون بھی تصادم کی راہ پر ڈال دے۔ اور خاندانِ مغلیہ کی طرح شہزادے اور شہزادیاں دست و گریباں ہو جائیں اور جیتے جی بادشاہ کے ممکنہ وارث تخت کے دعویدار ہو جائیں تو ستوں خیراں نے تو رخصت ہونا ہی ہے۔ وزیراعظم اس وقت کمزور وکٹ پر ہیں۔ کریز سے نکل کر چھکے لگانے لگے تو اپنی ہی نہیں پورے میچ کی وکٹ اُڑوا بیٹھیں گے۔ خطرہ زیادہ ہی منڈلا رہا ہے تو پارٹی اور حکومت بچانے کی کوشش کریں اور جانے دیں اس جاں لیوا وراثت کے بے دل کھیل کو جس میں بھائی بھائی کا بھائی نہیں رہتا۔ کیا اس سے قبل پیپلز پارٹی کے دو زرائے اعظم شہید نہیں کر دئیے گئے اور آج کل اس کے دو وزرائے اعظم کا احتساب نہیں ہو رہا ہے اور پھر بھی پیپلز پارٹی زندہ ہے۔ PML-N بھی احتساب کے عمل سے گزر کر توانا ہو سکتی ہے۔ خاندانی وراثت کی جگہ جمہوری متبادل بہت ہیں۔ وزیراعظم کے ترجمانوں کو متانت سے پیش آنا چاہئے اور میاں صاحب اپنے اتحادیوں کو اُن لوگوں کے پاس بھیجیں جو جمہوری ڈھانچے کو گزند نہیں پہنچانا چاہتے۔ اپوزیشن کو یقیناًحکومت پر تنقید کرنے کا حق ہے اور کرپشن کے خلاف تحریک چلانے کا بھی۔ لیکن جمہوریت کے نازک درخت کی جس شاخ پہ وہ بیٹھی ہے، اُسے کاٹ کر وہ اُسی کھڈے میں جا گرے گی جہاں وہ حکومت کو دھکیلنا چاہتی ہے۔ جمہوری نظام کے استحکام کے لئے احتساب اشد ضروری ہے، اس سے اب مفر نہیں۔ لیکن حکومت اور اپوزیشن ذرا سنبھل کے چلیں، آگے خطرہ ہے۔
تازہ ترین