• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد عالمی طاقتوں کی نئی صف بندی ہونے جا رہی ہے۔ روس، ایران، ترکی، چین، پاکستان اور بھارت سب افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد کسی نہ کسی انداز میں متاثر ہو رہے ہیں لیکن افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے دنوں میں عوامی جمہوریہ چین کے صدر کی اس تقریر نے مجھے چونکا کے رکھ دیا۔ چینی کمیونسٹ پارٹی کی سویں سالگرہ کے موقع پر چینی صدر شی پنگ نے دھیمے لہجے میں ایک بھرپور خطاب کیا جس میں انہوں نے عالمی طاقتوں کو یہ باور کروایا کہ چین کو ماضی کی طرح غیراہم ملک نہ سمجھا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’اگر کسی طاقت نے دھونس جمانے کی کوشش کی تو اِس کا سر دیوارِ چین پر مار کر پاش پاش کر دیں گے‘‘۔ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ چینی صدر کے یہ الفاظ برصغیر کے سیاستدانوں کی طرح محض شعلہ نوائی نہیں بلکہ اس کے پیچھے سو سالہ جدوجہد کی ایک طاقت ہے۔ چینی قوم جس کو ایسٹ انڈیا کمپنی نے افیون بیچ کر نشے کا عادی بنا دیا تھا، اس کے سربراہ کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب دنیا کی سب سے بڑی طاقت امریکہ نے رات کے اندھیرے میں اپنے اتحادیوں کو اعتماد میں لئے بغیر افغانستان چھوڑ دیا۔ جس جماعت کی سالگرہ سے چینی صدر نے خطاب کیا اس کی بنیاد ماؤزے تنگ نے 1921میں رکھی تھی۔ماؤ کے دوسرے ساتھی چو این لائی تھے جو ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شخصیت تھے۔ ان دونوں رہنماؤں کی قیادت میں چینی کمیونسٹ پارٹی نے 1927میں ایک لانگ مارچ کیا جس میں انہوں نے چینی قوم کو بیدار کیا۔ جبکہ یکم اکتوبر 1949کو چیئرمین ماؤ کی قیادت میں عوامی جمہوریہ چین کا قیام عمل میں آیا۔ عوامی جمہوریہ چین نے طویل عرصہ خاموشی کے ساتھ عالمی سیاست میں اپنا کردار مضبوط کیا۔ خلائی سائنس، مصنوعی ذہانت، جدید ٹیکنالوجی کے میدان میں اپنی مہارت کا لوہا منوایا۔ موجودہ چینی صدر شی پنگ چار دہائیوں کی مسلسل محنت اور پارٹی کے مشکل طریقہ انتخاب سے گزر کر منصبِ صدارت پر فائز ہوئے ہیں۔ چینی کمیونسٹ پارٹی کی یہ انفرادیت ہے کہ وہ تعلیمی اداروں سے باصلاحیت لوگوں کا انتخاب کرکے ان کو سیاسی اور تربیتی عمل سے گزار کر قیادت کیلئے تیار کرتے ہیں۔ موجودہ چینی قیادت اِسی نظام تربیت سے تیار کردہ ہے جب کہ پاکستان کے سیاسی کلچر میں یہ تصور ہی موجود نہیں اور 70سال سے ہمارا سیاسی نظام جمود کا شکار ہے۔ کسی بھی سیاسی جماعت میں غریب کارکن صلاحیت کی بنا پر قائدین کی صف میں جگہ حاصل نہیں کر سکتا۔ اِس وقت پاکستان کے علاوہ بھارت، ایران اور بنگلہ دیش میں بھی چینی سرمایہ کاری کے اثرات واضح نظر آ رہے ہیں۔ پاکستان سے گزرنے والے سی پیک کے ذریعے وسط ایشیائی ریاستوں تک زمینی راستے سے رسائی چینی پالیسی کا ایک اہم حصہ ہے۔ چین نے سی پیک کے ساتھ ساتھ ایٹمی بجلی گھر، جے ایف تھنڈر اور فضائی سرحدوں کی حفاظت کیلئے آلات فراہم کرکے پاکستان کے ساتھ اپنا تعلق خوب نبھایا ہے۔ ان بڑے منصوبوں کے باعث چین کو افغانستان کے حالات سے علیحدہ کرکے نہیں دیکھا جا سکتا۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ کے بعد والے افغانستان میں چین کا ایک موثر اور جاندار کردار دیکھا جا رہا ہے۔افغانستان کی سرحد کے ساتھ جڑا ایک اور اہم ملک ایران ہے جہاں پر بڑی سیاسی تبدیلی آئی ہے۔ نومنتخب صدر جناب ابراہیم رئیسی ایرانی انقلاب کے رہنما آیت اللہ خمینی کے نظریات پر کما حقہ یقین رکھنے والے سیاستدان ہیں۔ موجودہ ایرانی رہبر جناب خامنہ ای کے سب سے قریبی ساتھی ہیں۔ اگست میں جب نئے صدر، ایران کی عنانِ اقتدار سنبھالیں گے تب تک افغانستان میں رسہ کشی کا کھیل عروج پر ہوگا۔ ایران کو بھی اپنے اہداف نئے سرے سے متعین کرنا ہوں گے۔ ترکی نے امریکہ کی ایما پر پہلی دفعہ کھلے عام افغانستان میں اپنی دلچسپی ظاہر کی ہے لیکن افغان حکومت نے اس پیشکش کو قبول نہیں کیا۔ ترکی ہمارا برادر اسلامی ملک ہے لیکن اگر افغانستان میں جاری رسہ کشی کے کھیل میں ترکی نے حصہ ڈالا تو پورے خطے میں تعلقات کا توازن متاثر ہو سکتا ہے۔ بھارت بھی افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء کے بعد شدید مایوسی کا شکار ہے۔ افغانستان میں اربوں روپے کی اس کی سرمایہ کاری برباد ہوتی نظر آ رہی ہے لیکن ابھی تک وہ کوئی بھی رد عمل دینے سے قاصر دکھائی دے رہا ہے۔ پاکستان شاید واحد ملک ہے جس نے امریکی فوج کے انخلاکے بعد کے اثرات کی تیاری سب سے پہلے شروع کر دی تھی۔ پاکستان نے روس کے ساتھ تعلقات کی سرد مہری کو ختم کیا اور نئے تعلقات کی بنیاد رکھی ۔ 2017میں پاک افغان بارڈر پر باڑ لگانے کا عمل شروع کر دیا تھا۔ افغان حکومت نے باڑ لگانے کے عمل پر مامور مسلح افواج کے افسروں اور جوانوں پر حملے کرائے لیکن پاک فوج نے جانوں کی قربانی دے کر اس عمل کو مکمل کیا۔ گزشتہ دنوں آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل، جنرل بابر افتخار نے ایک ٹی وی انٹرویو میں یہ واضح طور پر کہا کہ ریاستِ پاکستان اسی فیصلے کے ساتھ ہوگی جو افغان عوام کا فیصلہ ہوگا۔ افغانستان کے بدلتے حالات میں پاکستان کا سیاسی منظرنامہ بھی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ مسلم لیگ ن میں دو دھڑے واضح طور پر دکھائی دے رہے ہیں۔ خاندانی اختلافات کی باتیں ڈرائنگ روم سے نکل کرچوک چوراہوں میں ہونے لگی ہیں۔ پی ٹی آئی نے بھی بطور سیاسی جماعت قابلِ رشک طرزِ عمل کا مظاہرہ نہیں کیا۔ نظریاتی لوگ نظر نہیں آرہے۔ بلاول کی امریکہ یاترا سے اس کے کارکنان پُرجوش نظر آتے ہیں لیکن عوامی مقبولیت کا دعویٰ تو سراب لگتا ہے۔ ہمسایہ ملک میں ہونے والی تبدیلیوں کے پیشِ نظر تمام سیاسی جماعتوں کو ایک قومی ایجنڈے کے تحت اکٹھا ہونا ہوگا اور درپیش چیلنجز کا مل کر مقابلہ کرنا ہوگا۔

تازہ ترین