• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک سینئیر ریٹائرڈ سرکاری افسر کے ساتھ جو ہوا اُس نے مجھے میرا اپنا ہی ایک قصہ یاد کرا دیا۔چند سال قبل مجھے اپنے بچوں کے اسکول سے ایک خط موصول ہوا جس میں ہمیں یہ اطلاع دی گئی کہ ہمارے بچے کو کراچی میں منعقد ہونے والے ایک قومی مقابلہ کے سلسلے میں شارٹ لسٹ کیا گیا ہے جس کے لیے اسپانسر(sponsor) کی خواہش ہے کہ متعلقہ تمام والدین کا وڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا جائے جسے بعد ازاں کچھ ٹی وی چینلز پر چلایا جا سکتا ہے۔ میں اپنی اہلیہ کے ساتھ وقت مقررہ پر اسکول پہنچا تو اسکول انتظامیہ نے ہمیں ایک کمرہ میں بٹھا دیا۔ کچھ ہی دیر میں وہاں ویڈیو کیمرہ کے ساتھ چند افراد تشریف لائے جن کاکہنا تھا کہ وہ مقابلہ کے اسپانسرز کی طرف سے آئے ہیں۔ انٹرویوکے لیے کیمرے اور لائٹس آن ہو گئیں ۔ میں نے متعلقہ افراد سے کہا کہ بسم اللہ کریں تو جواب میں میری اہلیہ سے درخواست کی گئی کہ مہربانی کر کے اپنا حجاب ہٹا لیں۔ یہ سن کر میں نے حیرانگی میں پوچھا کہ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ جواب ملا کہ دراصل ہم(اسپانسرز) روشن خیال اورماڈرن چہرے(Modren faces)دنیا کو دکھانا چاہتے ہیں۔ یہ سنتے ہی میری زبان سے یہ الفاظ نکلے ”میں لعنت بھیجتا ہوں تم لوگوں کی روشن خیالی پر اور تمھارے اس مقابلہ پر“۔
میری بیوی (جس نے اللہ تعالیٰ کی توفیق سے قرآن پاک کو سمجھ کر پڑھا اور حجاب لینے کا خود فیصلہ کیا) بھی اس صوتحال سے حیراں و پریشان ہو گئی اور اسپانسر سے بولی کہ ہمیں اپنے بچے کو کسی ایسے مقابلہ میں شامل نہیں کرانا جو اسلامی تعلیمات کے منافی ہو۔ یہ سب سن کر اسپانسرز کے نمائندوں کی جیسے سٹی گم ہو گئی ۔جیسے ہمارے لیے صورتحال غیر متوقع تھی، ویسے ہی ہمارا جواب اُن کے لیے غیر متوقع تھا۔ ہمارا جواب سن کر انہوں نے صفائیاں پیش کرناشروع کر دیں اور کہنے لگے ہم تو ملازم ہیں فیصلہ کرنے والے تو کوئی اور ہیں۔ اس پر میں نے ان سے کہا کہ ہمیں کوئی انٹر ویو نہیں دینا نہ ہی ہمیں اپنے بچے کو اس مقابلہ میں شامل کرانا ہے چاہے اُسے پہلا انعام ہی کیوں نہ دے دیا جائے۔ میرے اصرار پر اسپانسرز کے نمائندوں نے وڈیو پر اپنے ”مالکان“ (فیصلہ کرنے والوں) کے لیے میرا ایک کھرا کھرا احتجاجی بیان ریکارڈ کیا۔ اُسی روز میں نے یہ سب کچھ دی نیوز کے لیے لکھا اور افسوس کا اظہار کیا کہ روشن خیالی کی خواہش نے ہمیں کس قدر اپنے دین سے دور کردیا۔ اب اُس سینیر افسرکا دکھڑا سنیں جس نے مجھے میرا قصہ یاد دلا دیا۔محمد سمیع اللہ نے سول سروس جائن کی اور گریڈ21 میں پہنچ کر کچھ عرصہ قبل ریٹائر ہوئے۔ انہوں نے پاکستان اور پھر امریکہ سے اکنامکس میں ماسڑز کیا۔ سول سروس کا سوچتے ہی ذہن میں دیسی انگریز یا براؤن صاحب کا خیال آتا ہے۔ مگر سمیع اللہ باقیوں سے اس لحاظ سے مختلف رہے کہ انہوں نے سنّت رسولﷺ کی پیروی کرتے ہوئے عمامہ پہنے رکھا جس کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اکثر حکمران اور اعلیٰ افسران نہیں سراہتے بلکہ اس سے شرم محسوس کر تے ہیں۔ پینٹ سوٹ اور ٹائی کے کلچر میں عمامہ پہننے والے اس افسر نے ہمیشہ فخر کے ساتھ اپنے نبیﷺ کی سنّت کو زندہ رکھا۔ اب ریٹائرمنٹ کے بعد یکم اپریل 2013 کو محترم سمیع اللہ کو اپنے شناختی کارڈ کی تجدیدکے لیے نادرا کے ہیڈ آفس جانا پڑا،جہاں تصویر کھنچاتے وقت اُن سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ عمامہ اتار دیں۔ جس پر سمیع اللہ کو حیرت بھی ہوئی اور افسوس بھی کہ اسلام کے نام پر بننے والے پاکستان میں یہ کیا ہو رہا ہے۔انہوں نے متعلقہ افراد سے کہا کہ اُنکی پرانے شناختی کارڈ پر تو عمامہ کے ساتھ تصویر موجود ہے۔ اُنہوں نے یہ بھی احتجاج کیا کہ یہ تو اسلامی شعائر کے ساتھ توہین کے مترادف ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ سرکاری ملازمت کے دوران دنیا بھر گھومے مگر کسی غیر نے بھی کبھی عمامہ پر اعتراض نہیں کیامگر نادرا کے اہلکاروں نے انہیں ٹکا سا جواب دے دیاکہ رولز اس بات کی اجازت نہیں دیتے۔ اس رویّہ پر سمیع اللہ نے نادرا چئیرمین کو 4اپریل کو ایک مراسلہ لکھا جس میں اسلامی شعائر کی بے حرمتی کی مزمّت کرتے ہوئے اس کی تلافی کا مطالبہ کیا مگر ایک سطری جواب میں سمیع اللہ کو کہا گیا کہ وہ مہربانی کر کے نادرا کے اسٹاف کے ساتھ تعاون کریں۔اس پر سمیع اللہ نے وزیر اعظم نواز شریف (جو اپنے بیرونی دوروں اور انگریزوں کے ساتھ فارمل میٹنگز میں قومی لباس کی بجائے سوٹ ٹائی پہننا پسند کرتے ہیں) کو ایک خط ارسال کیا جس میں اپنی پوری روداد لکھی۔ سمیع اللہ نے لکھا کہ بدقسمتی سے گزشتہ کچھ عرصہ سے اسلام کے نام پر بننے والے پاکستان میں اسلامی اقدار کو پامال کیا جا رہا ہے۔انہوں نے وزیر اعظم کو یہ بھی لکھا کہ آئین کے مطابق عربی کی تعلیم مڈل تک پہلے لازم تھی اسے ختم کر دیا گیا، حافظ قرآن کو پروفیشنل کالجوں میں داخلہ کے لیے اضافی 20 نمبر دیے جاتے تھے جو اب نہیں ملتے، نصاب میں جہاد کی آیات اور خلافتِ راشدہ کا تذکرہ بھی خذف کر دیا گیا، سودی نظام کی حوصلہ شکنی کی بجائے اُس کی سرپرستی کی جا رہی ہے جس کی وجہ سے اللہ کے عذاب مختلف شکلوں میں ہم پر مسلط ہیں، اسلام کے نام پر ووٹ مانگنے کو قابل سزا جرم قرار دے دیا گیا ہے، فحاشی کو بلا روک ٹوک خوب پھیلایا جا رہا ہے، الغرض اسلامی طرز حیات اور دینی اقدار کو اغیار کی کوششوں سے سبوتاژ کرنے کی منظم کوششیں کی جا رہی ہیں جس کا ادراک ضروری ہے۔سمیع اللہ نے مجھے بتایا کہ انہوں نے جب نادرا حکام سے پوچھا کہ آیا سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والوں کو بھی پگڑی اتارنے کا کہا جاتا ہے تو اس پر کہا گیا کہ نہیں، انہیں پگڑی کے ساتھ شناختی کارڈ کے لیے تصویر بنانے کی اجازت ہے جو یقیناً ایک اچھا اقدام ہے۔ مگر یہ کیاکہ اسلامی ملک میں اسلامی شعائر کے ساتھ یہ مذاق کہ کوئی مسلمان عمامہ پہن کر شناختی کارڈ کے لیے تصویر نہیں بنوا سکتا۔یہاں تو برطانیہ اور دوسرے کئی غیر اسلامی ممالک میں عمامہ، ٹوپی، پگڑی کے ساتھ تصاویر کھینچی جاتی ہیں مگر ہماری روشن خیالی کا تمام تر ٹارگٹ اسلامی تعلیمات اور اسلامی شعائر ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف، وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان، کابینہ و پارلیمنٹ کے ممبران ، سپریم کورٹ، اسلامی نظریاتی کونسل، سیاسی و مذہبی جماعتیں کیا ان معاملات (جن کا حوالہ سمیع اللہ صاحب نے وزیر اعظم کو لکھے گئے اپنے خط میں دیا)کو سدھارنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔ایک بات ہمیں سمجھ لینی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ یومِ حشر کے روز ہم میں سے ایک ایک سے یہ ضرور پوچھے گا کہ کیا ہم نے اس دنیا میں اپنی اپنی ذمہ داریاں پوری کیں یا کہ بس دنیا میں ہی گم رہے۔
حرفِ آخر: اللہ تعالیٰ کا شکر کہ اس مرتبہ رمضان کے چاند پر پورے پاکستان میں اتفاق ہوا جس پر رویتِ ہلال کمیٹی کے سر براہ محترم مفتی منیب الرحمن اور کمیٹی اراکین اور خیبر پختون خواہ کی حکومت خصوصاً مبارکبار کے مستحق ہیں جن کی کوششوں سے ایسا ممکن ہوا۔ اللہ کرے فرقہ واریت، دہشتگردی اور دوسرے سنگین مسائل کے حل کے لیے اسی رویّہ اور تدبر کا اظہار کیا جائے جس کا مظاہرہ رویتِ ہلال کمیٹی اور متعلقہ افراد و حکام نے کیا۔آمین۔ میری طرف سے دنیا بھر کے مسلمانوں کو رمضان مبارک اور یہ درخواست کہ مسلم امّہ، پاکستان اور اس ناچیز کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔
تازہ ترین