• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میاں اشرف کو اللہ جنت نصیب کرے۔ لاکھوں میں ایک آدمی تھا۔ عمر میں ہم سے چند سال بڑا اور سبجیکٹ بھی اس کا مختلف تھا لیکن ہاسٹل فیلو ہونے کی وجہ سے دوستی ہوگئی اور خوب ہوگئی۔ پڑھائی کے علاوہ دن رات اکٹھے۔ جب ہم ملے تو وہ غالباً دوسرا یا تیسرا ایم اے کررہا تھا۔ لوگ ”ایم اے در ایم اے“ کی وجہ پوچھتے تو کہتا … ”کھاتے پیتے گھر کا” بچہ“ ہوں۔ میں نے کون سی نوکریاں کرنی ہیں۔“ پھر یکدم بہت ہی سنجیدہ سا ہو کر کہتا … ”سچ یہ ہے کہ میرا یہ نیو کیمپس چھوڑنے کو دل نہیں کرتا، میں یہاں سے کبھی گیا بھی تومیری روح یہیں کہیں نہر کے کنارے بھٹکتی پھرے گی۔“ میاں اشرف کی اک اور عجیب سی عادت تھی کہ ہر دوست کے والد کے ساتھ مودبانہ قسم کا دوستانہ بنا کر دوستوں کو یہ کہہ کر ”بلیک میل“ کرتا کہ ”تم میرے دوست ہی نہیں بھتیجے بھی ہو۔“ میاں نے زندگی بھر کف لنکس کے بغیر والی قمیض نہیں پہنی۔ اس کے پاس بیسیوں جوڑے کف لنکس کے تھے اور پتلون پر تو دوسری کریز کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میاں کا تعلق ساہیوال سے تھا اور ”میاں“ ہونے پر بہت ہی متفخر بلکہ اکثر کہتا ”ہم چودہ اگست 1947ء کے بعد والے میاں نہیں، جینوئن میاں ہیں“۔
میاں اشرف کو بالآخر کیمپس چھوڑ کر واپس ساہیوال جانا پڑا۔ کبھی کبھی ملنے آجاتا تو پوری پوری رات نہر کنارے جاگتے اور گپیں لگاتے۔ ایک ایسے ہی ”دورے“ کے دوران میاں نے ایک دلچسپ واقعہ سنایا۔ میاں کاکوئی دوست ساہیوال میں ڈپٹی کمشنر بن کر آیا تو اس نے فرمائش کی کہ ”یار میاں کوئی اچھا سا باورچی تو ڈھونڈ دے“ تیری بھابھی کو انڈہ ابالنے کے علاوہ اور کچھ نہیں آتا “… ”نوپرابلم“ میاں نے اپنے مخصوص تکیہ کلام کے بعد کہا کہ ”ہمارے پاس دو، تین خانسامے ہیں جو سب سے اچھا ہے وہ تمہیں بھیج دوں گا لیکن شرط یہ ہے کہ تنخواہ اسے بدستور میرے گھر سے ہی ملے گی۔“
اگلے روز شام گئے ڈئی سی صاحب اور ان کی بیگم لان میں بیٹھے چائے پی رہے تھے کہ باورچی پیش ہوگیا۔ پہلے بیگم صاحب نے ”انٹرویو“ کیا پھر ڈی سی صاحب نے سوال داغنے شروع کردیئے۔ باورچی مختلف سوالوں کے جواب میں مختلف کھانوں کے حوالہ سے اپنی مہارت بتاتا چلا گیا لیکن مغلئی کھانوں سے کشمیری کھانوں اور چائینیز تک کا ذکر کرتے ہوئے وہ آخر پر یہ پخ ضرور لگا تاکہ … ”حضور! میرے جیسا آلو گوشت تو دنیا میں کوئی نہیں بنا سکتا“۔
ڈی سی صاحب نے آلو گوشت کی تکرار پر تھوڑا بور ہو کر کہا … ”یار یہ کیا تم ہر تان آلو گوشت پر ہی توڑ رہے ہو“۔ باورچی نے باادب ہاتھ جوڑ کر عرض کیا ”صاحب! اگر برا نہ منائیں تو جواب دوں؟ “”ہاں ہاں کہو، کھل کر بولو“ تو میاں اشرف کے باورچی نے کہا۔
”صاحب! سچی بات یہ کہ سالن صرف آلو گوشت ہی ہے باقی سب تو آپ جیسے صاحب لوگوں کی حرمزدگیاں ہیں“واقعی نظاموں میں نظام صرف ”جمہوریت“ ہی ہے لیکن اگر یہ ”جمہوریت“ لوگوں کو بھوکا مار کے خود کھربوں ڈالر لوٹ کر باہر لے جائے، بینکوں کو بینک کریسی تک لیجائے، عوام کے ساتھ ڈرون ڈرامے کرے، سیاسی پارٹیاں ذاتی ملکیتیں اور ورکر ذاتی ملازم سمجھے جائیں، موروثیت میرٹ کی دھجیاں بکھیرے، کشکول توڑنے کی لمبی لمبی چھوڑنے والے قرض اتارنے کیلئے قرض ملنے پر فخر کریں، پوسٹنگز، ٹرانسفرز، پروموشنز کا معیار ذاتی وفاداری ہو، ہر قسم کی نحوست سروں پر سایہ فگن ہو اور نئی سے نئی نحوست ایجاد کی جارہی ہو تو اسے کیا کہیں گے؟مان لیا آلو گوشت کے علاوہ ہر ڈش ثانوی اور جمہوریت ہی بہترین نظام ہے تو بھائی! اگر گوشت کسی مردار کا ہو اور آلوؤں میں کیڑے پڑے ہوں تو کیا پھر بھی آلو گوشت؟ زہر کی بوتل پر ”آب زم زم“ کا لیبل لگا ہے۔ یہ ”کیلے“ لکڑی کے ہیں۔ جن پر پینٹ کر کے انہیں کیلے کی "Look" دیدی گئی ہے۔ ”چک“ بھرتے ہی دانت باہر۔ اس میوزیکل چیئر کو جمہوریت کہنے اور سمجھنے کیلئے تھوڑا سا نہیں بہت زیادہ انبارمل ہونا ضروری ہے یا وہ سیانے اسے جمہوریت کہنے پر مصر ہیں جن کیلئے یہ سونے کی کان ہے ورنہ پورا پورا خاندان لیکر اس کان میں نہ گھستے۔اے طائیر ”آئی ایم ایفی“ اس ”قرضے“ سے موت اچھی جس قرضے سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی سیٹ بیلٹیں باندھ کر تختہٴ دار کی پشتیں سیدھی کرلو کیونکہ جمہوریت کا بغیر پائیلٹ و پہیوں والا جہاز کریش لینڈنگ کیلئے تیار ہے۔ جمہوری حکومت نے آئی ایم ایف کی عائد کردہ شرائط کے عین مطابق بجلی کی قیمت میں 5 روپے فی یونٹ تک اضافہ کا فیصلہ کرلیا ہے۔ جس کا اطلاق انشاء اللہ عیدالفطر کے بعد ہوگا۔اس ”جمہوری اضافہ“ کے نتیجہ میں”جمہور“ کے ساتھ وہی کچھ ہوگا جو تاتاریوں کے لشکر اپنی مفتوح آبادیوں کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ اس کشکول توڑ حکومت کے آتے ہی میں نے اپنے قارئین سے یہ فرمائش کی تھی کہ آٹے دال سے لیکر دودھ دہی تک تمام بنیادی ضروریات زندگی کے نرخ نوٹ کرلیں اور پھر 6 ماہ بعد کی قیمتوں کے ساتھ ان کا موازنہ کریں تاکہ ”جمہوری مرض“ کے علاج میں آسانی رہے۔چہرے بدلنے سے البتہ اتنا فرق ضرور پڑ سکتا ہے کہ وہ باشعور اور غیور پاکستانی جو پہلے سادہ ٹرین کے آگے کود کر خودکشیاں کیا کرتے تھے، اب بلٹ ٹرینوں کے آگے لیٹ کر زندگی کے بوجھ سے نجات حاصل کیا کرینگے۔ عیدالفطر کے فوراً بعد قربانی کی جو کہانی شروع ہوگی وہ قربانی والی عید تک عروج پر ہوگی۔ بجلی کی قیمت میں 5 روپے فی یونٹ اضافہ کا اصل مطلب جلد سمجھ آجائے گا تو پھر پوچھوں گا … مزید کتنی جمہوریت درکار ہے؟اے طائیر ”آئی ایم ایفی“ اس قرضے سے موت اچھی۔دوسرا مصرعہ آپ خود گنگنائیں کہ ووٹ دینے کے علاوہ بھی کچھ کرلینا چاہئے اور یاد رہے یہ قرضے عوام کیلئے موت ہیں … حکمرانوں کیلئے زندگی!
تازہ ترین