• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سوالات کی بھرمار ہے۔ جواب تو موجود ہیں لیکن جواب دینے والے خاموش ہیں۔ کوئی ان کی خاموشی کو رعونت قرار دیتا ہے۔ کسی کے خیال میں اس خاموشی کی وجہ اخلاقی جرأت کا فقدان ہے۔ ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ سامنے آچکی ہے لیکن اس رپورٹ میں کئی اہم سوالات کے جواب موجود نہیں۔ اہم ترین سوال یہ ہے کہ دسمبر 2001 میں اُسامہ بن لادن تورابورا کے بلندوبالا پہاڑوں سے امریکی فوج اور اس کے اتحادیوں کا گھیرا توڑ کر پاکستان کیسے پہنچے؟ قبائلی علاقے سے ہری پور اور پھر وہاں سے ایبٹ آباد کیسے پہنچے؟ آج بھی ہم قبائلی علاقوں کے اندر سفر کریں تو چیک پوسٹوں کی تعداد ناگوار حد تک زیادہ ہے۔اُسامہ بن لادن اپنے خاندان سمیت پیدل سفر نہیں کر رہے تھے۔ گاڑی میں سفر کر رہے تھے۔ قبائلی علاقوں میں آنے جانے والوں کے شناختی کارڈز چیک کئے جاتے ہیں لیکن اُسامہ بن لادن کے پاس کون سا شناختی کارڈ تھا؟ مجھے یقین ہے کہ اُسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں موجودگی سے افواج پاکستان کی قیادت اور خفیہ اداروں کے افسران مکمل طور پر بے خبر تھے۔ اُسامہ بن لادن جان بوجھ کر پاکستان ملٹری اکیڈمی سے کچھ فاصلے پر روپوش رہے تاکہ کسی کو گمان نہ گزرے کہ دنیا کا مطلوب ترین شخص یہاں بھی چھپ سکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ امریکی سی آئی اے نے اسے ایبٹ آباد میں ڈھونڈ نکالا، آئی ایس آئی کیا کر رہی تھی؟ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ 2مئی 2011 کو امریکی بلیک ہاک ہیلی کاپٹر افغانستان سے پاکستان میں داخل ہوئے تو رات گیارہ بجے کا وقت تھا۔ چلیں مان لیا کہ مغربی سرحدوں پر ہمارے ریڈار کام نہ کر رہے تھے لیکن یہ آپریشن ڈرون طیاروں کے ذریعے نہیں بلکہ ہیلی کاپٹروں کے ذریعے ہوا۔ امریکی فوجی ہیلی کاپٹروں سے اتر کر بلال ٹاؤن کی ایک رہائشی عمارت میں داخل ہوئے، انہوں نے گولیاں چلائیں، میگافون پر اعلانات کئے۔ ایک گھنٹے تک آپریشن جاری رہا۔ اس دوران ایک ہیلی کاپٹر خراب ہو گیا۔ اسے بارود سے اڑا دیا گیا۔ ایک اور ہیلی کاپٹر منگوایا گیا اور امریکی فوجی اطمینان سے اپنا کام مکمل کرکے واپس چلے گئے۔ اس پورے عرصے میں ایبٹ آباد پولیس، پاکستان ملٹری اکیڈمی کے اردگرد تعینات فوج، آئی ایس آئی، آئی بی اور سپیشل برانچ کدھر تھی؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ جس طرح پاکستان میں ڈرون حملے ہمارے ارباب ِ اختیار کی خاموش تائید سے ہوتے ہیں اسی طرح یہ آپریشن بھی ارباب ِ اختیار کی خاموش تائید سے ہوا؟ ابیٹ آباد کمیشن نے اپنی رپورٹ میں یہ اہم سوال اٹھایا تو ضرور لیکن اس کاجواب تلاش نہیں کیا۔
ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جب آپریشن شروع ہوا تو بلال ٹاؤن میں بجلی چلی گئی اور آپریشن کے اختتام کے قریب بجلی واپس آئی۔ میں نے بھی ذاتی طور پر بلال ٹاؤن جا کر اس معاملے کی تحقیق کی تھی اور مجھے مقامی لوگوں نے یہی بتایا تھا کہ اس دن لوڈشیڈنگ کے اوقات خلاف ِ معمول تھے۔ یہ درست ہے کہ اُسامہ بن لادن امریکہ کو مطلوب تھا اور اس کی ابیٹ آباد میں موجودگی پاکستان کی سلامتی اور خودمختاری کے تقاضوں کے خلاف تھی لیکن اس مطلوب ترین شخص کی پاکستان ملٹری اکیڈمی کے قریب موجودگی کس کی نااہلی تھی؟ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے۔ ایبٹ آباد پر ہیلی کاپٹروں میں بیٹھ کر آنے والے امریکی فوجیوں نے حملہ کیا اور واپس چلے گئے؟ ایٹمی ہتھیاروں سے مسلح فوج کہاں تھی؟ کیا ایبٹ آباد کمیشن نے ان سوالات کے جوابات کے لئے افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر اور چیف آف دی آرمی سٹاف کو طلب کیا؟ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں یہ تو لکھا ہے کہ جن ارباب ِاختیار کے پاس بہت اہم اطلاعات موجود ہوتی ہیں وہ کمیشن کو نہیں ملے لیکن کمیشن نے ان ارباب ِ اختیار کے نام لکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ ان ارباب ِ اختیار میں صدر آصف علی زرداری، وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی شاملتھے جو کمیشن کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔ میں نے 24جون 2013 کو اسی کالم میں ”قربانیوں کے پیچھے چھپنے والے“ ارباب ِ اختیار کی نااہلیوں کا ذکرکرتے ہوئے مطالبہ کیاتھا کہ نوازشریف حکومت ایبٹ آباد آپریشن کی ازسرنو تحقیقات کرائے۔ مجھے معلوم تھا کہ ایبٹ آباد کمیشن نے ایک ایٹمی طاقت کے دفاعی نظام کو پوری دنیا میں مذاق بنا دینے کے ذمہ داروں کا درست تعین کیا نہ کسی کے خلاف کارروائی کی سفارش کی۔
ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ منظرعام پر آچکی ہے۔ اس میں کوئی نئی بات نہیں۔ اس میں یہ تک نہیں بتایا گیا کہ ہمارے طاقتور خفیہ ادارے سیاستدانوں، صحافیوں اور ججوں کے ٹیلیفون توٹیپ کرتے ہیں لیکن اُسامہ بن لادن کے ساتھیوں کے فون کیوں نہ سن سکے؟ میں جانتا ہوں کہ یہ سوال اٹھانے پر مجھے ایک دفعہ پھر انڈین ایجنٹ قرار دیاجائے گا۔ ہر وہ صحافی، دانشور اور سیاستدان جو سیاست میں فوج اور خفیہ اداروں کے کردار کی مذمت کرتاہے اسے خفیہ اداروں میں قائم ”سائبر وار سیل“ کے کمانڈوز سوشل میڈیا پر انڈین ایجنٹ قرار دے ڈالتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ جس طرح کا آپریشن امریکہ نے ایبٹ آباد میں کیاخدانخواستہ ایسا آپریشن کسی دن انڈیا نے پاکستان میں کر ڈالا تو پھر یہ خفیہ ادارے کسی کو کیا منہ دکھائیں گے؟ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہماری فوج اور خفیہ ادارے اپنا شمسی ایئربیس امریکہ کے حوالے کردیں اور امریکہ کو پاکستان میں ڈرون حملوں کی اجازت دے دیں تو ٹھیک ہے لیکن اگر یہی امریکہ پاکستان کے ٹی وی چینلز پر یو ایس ایڈ کے منصوبوں کی تشہیر کے لئے رقم مختص کرے تو الزام لگایا جاتا ہے کہ امریکہ نے پاکستانی میڈیا کو خرید لیا۔ پھر اسی مفروضے کی بنیاد پر ایک اور منصوبہ بنایا جاتا ہے اور حب الوطنی کے فروغ کے نام پرایسا ٹی وی چینل شروع کرنے کا اعلان کیا جاتا ہے جو صحافیوں کو مرسڈیز گاڑیاں دے گا لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ یہ مرسڈیز گاڑیاں کہاں سے آئیں گی؟ پتہ نہیں خفیہ اداروں کوسمجھ کیوں نہیں آتی کہ حب الوطنی کا تعلق مرسڈیز گاڑی سے نہیں بلکہ انسان کے ضمیر سے ہوتاہے۔اگر کسی صحافی یا وکیل یا جج کا ضمیر اسے یہ کہے کہ لاپتہ افراد کے مسئلے نے پاکستان میں آئین و قانون کو مذاق بنا دیا ہے اور لاپتہ افراد کو عدالتوں میں پیش کیا جائے تو اسے چپ کرانے کے لئے الزام لگا دیا جاتا ہے کہ یہ انڈین ایجنٹ ہے۔ اگر ہم واقعی پاکستان سے سچی محبت کرتے ہیں اور ہم آئی ایس آئی کے ایک حال ہی میں ریٹائر ہونے والے سربراہ کی طرح پاکستان سے باہر نوکری نہیں کرنا چاہتے تو ہمیں سچ بولنا ہوگا اور انڈین ایجنٹ کے الزام سے قطعاً نہیں ڈرنا۔ ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح کی بہن محترمہ فاطمہ جناح  پر بھی انڈین ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا گیا تھا۔ یہ الزام اس وقت لگایا گیا جب انہوں نے پاکستان کے پہلے فوجی ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان کے خلاف صدارتی الیکشن لڑنے کا اعلان کیا۔ فاطمہ جناح کا خیال تھا کہ پاکستان سیاستدانوں نے بنایا اور پاکستان میں پارلیمانی ہونی چاہئے۔ انہوں نے نوابزادہ نصراللہ خان، ولی خان، مولانا مودودی، شیخ مجیب الرحمن اور مولانا بھاشانی کے ساتھ مل کر ایوب خان کے خلاف جلسے شروع کئے تو ایوب خان نے ڈھاکہ اور کراچی میں مادرِ ملت کے حامیوں پرگولیاں برسانا شروع کردیں۔ اسی زمانے میں جنرل ایوب خان نے امریکی جریدے ”ٹائم“ کو ایک انٹرویو دیا جس میں طنزیہ انداز میں کہا کہ فاطمہ جناحکو مادرِ ملت کہا جاتا ہے لیکن وہ مادرملت نہیں ہے وہ پاکستان میں انتشار پھیلا رہی ہے ۔ وہ انڈین اور امریکی ایجنڈے پر چل رہی ہے۔ مادرملت کو ایک ایسے شخص نے انڈین ایجنٹ قرار دیا جس نے اپنے وزیرقانون جسٹس منیر کے ذریعے 1962میں بنگالیوں کو پاکستان سے علیحدہ ہونے کا پیغام دیا، جس نے سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے دریاؤں کا پانی بھارت کو فروخت کردیااور جس نے تاشقند معاہدے کے ذریعے کشمیر کاسودا کرنے کی کوشش کی۔ اسی ایوب خان نے پاکستان کے خفیہ اداروں کو سیاست میں الجھایا، اسی ایوب خان نے سیاستدانوں، صحافیوں اور ججوں کو حب الوطنی کے نام پر خرید کر اپنے سیاسی مقاصد کیلئے خریدنا شروع کیا۔ جو بک گیا وہ پاکستان کا وفادار کہلایا جس نے بکنے سے انکار کیا اسے انڈین ایجنٹ قرار دے دیا گیا۔ اگر آپ محترمہ فاطمہ جناح کے راستے پر چلتے ہوئے پاکستان کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں تو سوال اٹھانا اور سچ بولنا نہ چھوڑیئے اور انڈین ایجنٹ کے الزام کے لئے بھی تیار رہئے۔
تازہ ترین