• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج احمد ندیم قاسمی کی ساتویں برسی ہے۔ میں نے 36 برس قبل ان کی ساٹھویں سالگرہ پر منعقدہ ایک تقریب میں یہ مضمون پڑھا جو دو قسطوں میں نذرِ قارئین ہے۔ قاسمی#،
ایک خرگوش نے پہلی بار ہاتھی کو دیکھا تو اس پہاڑ جیسی مخلوق کو دیکھ کر دنگ رہ گیا، اس نے حیرت سے آنکھیں ملیں اور پھر پوچھا ”تم کون ہو؟“ ہاتھی نے جواب دیا ”میں ہاتھی ہوں“ خرگوش نے ایک بار پھر اس کے قدو قامت پر نظر ڈالی اور حیران ہو کر پوچھا ”تمہاری عمر کتنی ہے؟“ ہاتھی نے کہا ”چھ ماہ!“ خرگوش خاموش ہو گیا، ہاتھی نے اسے یوں چپ ہوتے دیکھا تو پوچھا ”تمہاری عمر کتنی ہے؟“ اس بار خرگوش نے اپنے جسم کو ٹٹولا اور پھر جھینپتے ہوئے کہا ”عمر تو میری بھی چھ ماہ ہی ہے مگر پچھلے دنوں ذرا بیمار شمار رہا ہوں“
سو معاملہ یہ ہے کہ احمد ندیم بھی قاسمی ہیں اور میں بھی قاسمی ہوں اور یہ جو ہم دونوں کے ادبی قد و قامت میں کچھ تھوڑا فرق نظر آتا ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ پچھلے دنوں میں بھی ذرا بیمار شمار رہا ہوں، دراصل اس نوع کی وضاحت کی ضرورت یوں محسوس ہوئی کہ آج کل دوسروں کی بڑائی کا کھلے بندوں اعتراف کرنے کا زیادہ رواج نہیں رہا، چنانچہ یار لوگ کسی بڑی شخصیت کو یا تو اپنے ہی جیسا کوتاہ قامت ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یا پھر خود اونچی ایڑی کے جوتے پہننے لگتے ہیں خواہ ایسا کرنے سے پاؤں میں موچ ہی کیوں نہ آ جائے، میں بھی انہی ”یار لوگوں میں سے ہوں، اور یوں میرے لئے بھی اس انسان کی بڑائی کے اعتراف میں خاصی دشواری پیش آ رہی ہے جو اپنے حریفوں تک کی عظمت کے اعتراف سے باز نہیں آتا بلکہ پیروں کے خانوادے کا فرد ہونے کی حیثیت سے تو انہیں کئی بار نیم جاں لوگوں پر بھی دم درود کرتے پایا گیا ہے جب کہ سائیں منیر نیازی کا کہنا ہے کہ مردوں کو زندہ نہیں کرنا چاہئے کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جن مردوں کو زندہ کرتے تھے بعد میں وہی ان کے بیری ہو جاتے تھے،
قاسمی صاحب اپنے کھچڑی بالوں کے باعث جتنے بزرگ نظر آتے تھے اتنے ہیں نہیں، آپ انہیں قریب سے دیکھیں تو پتا چلے گا کہ ان میں نہ صرف جوانوں جیسا حسن پایا جاتا ہے بلکہ ان میں بچپن کی معصومیت بھی ابھی تک تروتازہ ہے فرق بس اتنا ہے کہ جہاں جوان بننا ہوتا ہے جوانوں میں شامل ہو جاتے ہیں، جہاں بزرگ بننا ہوتا ہے، بزرگ بن جاتے ہیں اور جب جی چاہتا ہے اپنا بچپن واپس لے آتے ہیں مثلاً کسی دور دراز شہر میں مشاعرہ ہے تو ہم پانچ چھ ”مبینہ نوجوان بھی وہاں مدعو ہیں لیکن اسٹیشن پر پہنچ کر جب ٹکٹیں لینے کا موقع آتا ہے تو اس وقت قاسمی صاحب فوراً بزرگ بن بیٹھتے ہیں اور روکنے کے باوجود ٹکٹیں خریدنے کے لئے کھڑکی تک پہنچ جاتے ہیں۔ ٹرین میں سفر کے دوران لطیفوں کا دور شروع ہوتا ہے تو ایسے ایسے ”مقوی“ لطیفے سناتے ہیں کہ ”مایوس نوجوان بھی اپنے اندر زندگی کی نئی لہر محسوس کرنے لگتے ہیں اور جب وقت گزاری کے لئے تاش کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے تو قاسمی صاحب وہ ”روندیاں“ مارتے ہیں کہ اپنا بچپن نظروں کے سامنے گھوم جاتا ہے ان کی یہ معصومانہ حرکتیں مقام مشاعرہ پر پہنچ کر بھی جاری رہتی ہیں، چنانچہ مشاعرے کے اختتام پر وہاں رہائش کے لئے مختص کمرے میں کپڑے تبدیل کرتے وقت وہ ہمیں دکھائی نہ دینے والے ”ڈولے“ پہلوانوں کے انداز میں دکھاتے ہیں اور بچوں کی طرح معصوم ہنسی ہنستے ہیں۔
شاید یہی وجہ ہے کہ اگر انہیں کبھی ہم بھولے سے کہہ دیں کہ آپ ہمارے بزرگ ہیں تو وہ ہاتھ نچاکر کے کہتے ہیں بزرگ ہو گے تم، بزرگ ہوں گے، تمہارے بزرگ، اور وہ ٹھیک ہی کہتے ہیں ان کی بزرگی ہم جوانوں کے لئے قابلِ رشک ہے وہ روزانہ صبح آٹھ بجے پکی ٹھٹھی میں واقع اپنے مکان سے پتلون کے دونوں پائنچے اوپر اٹھائے نکلتے ہیں، یہ اس لئے کہ پکی ٹھٹھی کی تمام سڑکیں کچی ہیں اور اگر کمزور مثانے والا ایک گھوڑا بھی ادھر سے گزر جائے تو وہاں ہفتوں پانی جمع رہتا ہے، قاسمی صاحب چوک میں پہنچ کر تانگے کا انتظار کرتے ہیں اور پھر اس تانگے میں چوبرجی پہنچ کر مجلس ترقی ادب کے دفتر پہنچنے کے لئے رکشے کا انتظار شروع کر دیتے ہیں پھر نو بجے سے دو بجے تک وہاں کام کرتے ہیں، ڈھائی تین بجے ”فنون“ کے دفتر پہنچتے ہیں اور وہاں ڈیڑھ دو گھنٹے بیٹھتے ہیں وہاں سے اٹھ کر نیلے گنبد کے چوک میں ایک معقول عرصہ رکشے کا انتظار کرنے کے بعد جب شام کو گھر پہنچتے ہیں تو ایک بار پھر لکھنے پڑھنے کے کام میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ جس میں نظمیں، غزلیں، افسانے، ڈرامے اور تنقید نگاری کے علاوہ اخبار کا ڈیلی کالم بھی شامل ہے اور یہ سلسلہ رات گئے تک جاری رہتا ہے۔ ان سب کاموں کے ساتھ ساتھ وہ ایسے مشاعروں کی صدارت بھی کرتے ہیں جو بسا اوقات رات کے نو بجے شروع ہو کر صبح چار بجے محض اس لئے اختتام پذیر ہو جاتے ہیں کہ کوئی ادب دشمن قریبی تھانے میں امن عامہ میں خلل کی رپٹ درج کرا دیتا ہے، گھریلو ذمہ داریاں نبھانا اور احباب سے میل ملاقات اس کے علاوہ ہے، موضع انگہ تحصیل خوشاب میں اپنے قریبی یا دور کے عزیزوں کے غم اور خوشی میں شرکت کرنے کے لئے پگ (پگڑی) اور لاچا (دھوتی) پہنے آٹھ دس گھنٹے لاری کے ”پاسے توڑ“ ہچکولے کھانا بھی ان کا روز کا معمول بن چکا ہے یہ سلسلہ غالباً اس لئے چل رہا ہے کہ وہ خود پر کبھی وہ بزرگی طاری نہیں ہونے دیتے جو نوجوانوں کو بھی بھُسے ہوئے کریلے جیسا بنا کر رکھ دیتی ہے۔
احمد ندیم قاسمی کے عشق میں مبتلا ہونے کی وجہ ان کی یہ دلکش اور دلربا شخصیت ہی نہیں کچھ اور بھی ہے، وہ ایک نظریاتی فنکار ہیں، جن کی تخلیقات میں نظریہ اور فن اک مک ہو کر سامنے آتے ہیں انہیں پڑھتے وقت ذہن کو آسودگی بھی ملتی ہے، اور سوچ کے دروازے بھی وا ہوتے ہیں، وہ مالیشے شاعر یا افسانہ نگار نہیں ہیں، کہ اپنے قاری کو محض چند لمحوں کی آسودگی بخشیں اور پھر تیل کی شیشی جیب میں ڈال کر گھر کو ہو لیں، وہ اقبال کے سلسلے کی ایک انتہائی اہم کڑی ہیں، اور مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ اقبال کے بعد وہ برصغیر پاک و ہند کے سب سے بڑے نظریاتی شاعر ہیں۔ ان کی کومٹ منٹ پہلے دن سے عوام کے ساتھ ہے اور اس ضمن میں انہوں نے بڑی بڑی قربانیاں دی ہیں، خالد احمد کا کہنا ہے کہ ترقی پسندی مقصد دوستی، عوام دوستی اور وطن دوستی کی تثلیث سے وجود میں آتی ہے اس کی یہ بات یقینا درست ہے مگر میں اس میں ایک شق انسان دوستی کا اضافہ بھی کرنا چاہتا ہوں کیونکہ میرے نزدیک ترقی پسندی کی مکمل اور عملی صورت احمد ندیم قاسمی کی صورت میں ابھرتی ہے اور ندیم صاحب جہاں وطن دوست ہیں، عوام دوست ہیں اور مقصد دوست ہیں وہاں ان کی نظم اور نثر میں دنیا کے سبھی خطوں کے انسانوں کے لئے ایک غیر مشروط محبت بھی جھلکتی ہے کیونکہ وہ انسانوں کو بنیادی طور پر ایک قابل محبت مخلوق تصور کرتے ہیں۔ اور ہاں اس ذکر سے یاد آیا کہ میری عمر اس وقت چونتیس برس ہے چنانچہ محبت کے ضمن میں میرا تیس سالہ تجربہ یہ ہے کہ محبت کرنا آسان ہے، محبت کی اداکاری مشکل ہے، میں نے احمد ندیم قاسمی کو انسانوں اور شعروں کے علاوہ عام زندگی میں بھی لوگوں سے محبت کرتے دیکھا تو یہ ٹوہ لگانے کی کوشش کی کہ وہ کہیں محبت کی بجائے محبت کی اداکاری تو نہیں کرتے؟ جیسا کہ میں نے ابھی کہا کہ محبت کرنا آسان ہے اور محبت کی اداکاری مشکل ہے کیونکہ محبت میں انسان پہاڑوں کا سینہ چیر دیتا ہے اور اسے یہ کام قلمی آم کاٹنے کے برابر محسوس ہوتا ہے اور میں نے دیکھا کہ ندیم صاحب محبت کرتے ہیں، اور یہ ان کی مجبوری ہے کیونکہ ان کی مصروفیات اتنی زیادہ ہیں کہ وہ اداکاری نہیں کر سکتے۔
میں اس فیصلہ پر ایک دن میں نہیں پہنچا، بلکہ پے در پے مشاہدات نے میری انگلی پکڑ کر مجھے اس نتیجے پر پہنچا دیا، باقی باتیں چھوڑیں میں نے ندیم صاحب کی محبت کا ایک رخ اور بھی دیکھا ہے، اس کی اس محبت کا ہدف وہ نئے لکھنے والے بنتے ہیں جن کی تخلیقی جوہر کے ضمن میں ندیم صاحب کو کوئی شبہ نہیں میں نے یہاں ہدف کا لفظ اسلئے استعمال کیا ہے کہ ندیم صاحب لٹھ لے کر ان کے ”دوالے“ ہو جاتے ہیں اور ان سے ہر ماہ ”بنوک شمشیر“ کچھ نہ کچھ لکھوا لیتے ہیں اس واقعہ کی سنگینی کا مزید اندازہ آپ کو اس صورت میں ہو سکتا ہے اگر آپ کو کسی رسالے کے ایڈیٹر بلکہ ایک بڑے رسالے کے بڑے ایڈیٹر کی انا کا اندازہ ہو اور اس واقعہ کی لذت سے آپ اس صورت میں ہمکنار ہو سکتے ہیں جب یہ ایڈیٹر نہ صرف یہ کہ بقلم خود آپ سے اپنے پرچے کیلئے کوئی چیز مانگے بلکہ دس آدمیوں کی موجودگی میں کچھ اس انداز سے طلب کر کے کہ آپکی اپنی انا پھول کر غبارہ بن جائے تو معاملہ یہ ہے کہ ندیم صاحب نوجوانوں کیساتھ کچھ ایسا ہی سلوک کرتے ہیں بلکہ کئی بار تو ایسا ہوا ہے کہ ”فنون“ کی کاپیاں پریس جانے کیلئے تیار پڑی ہیں مگر پریس اسلئے نہیں بھجوائی جا رہیں کہ ایک نوجوان کی تازہ تخلیق کا انتظار ہے۔ وہ اپنی مصروفیات کی بناء پر بصد ادب معذرت کرتا ہے تو ندیم صاحب کہتے ہیں ”آپکو جب فرصت ہو لکھ بھیجئے فنون بہرحال اتنی دیر تک شائع نہ ہو گا، ”ظاہر ہے اس جواب پر اسے شرموں شرمی ہڈ حرامی چھوڑنا ہی پڑتی ہے جسکا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر سال نوجوان تخلیق کاروں کی ایک کھیپ تیار ہوتی ہے جو آگے چل کر اردو ادب کی آبرو ثابت ہوتی ہے۔ (جاری ہے)
تازہ ترین