• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں وسائل کی کمی نہیں۔ زمین ہے، پانی ہے، دھوپ چھاوٴں ہیں، چاروں موسم ہیں یعنی سردی، گرمی، بہار، خزاں۔ افراد کی کمی ہے نہ زراعت اور معدنیاتی وسائل کی۔ محل وقوع مترجح ہے۔ گزشتہ سالوں میں بین الاقوامی حالات بھی سازگار ہی رہے ہیں۔ ملک کی سیاسی، معاشی اور سماجی حالت پر بحث و تمحیص بھی ہوتی رہی ہے لیکن اتنے عرصے بعد بھی پاکستان اپنے پاوٴں پر کھڑا نہیں ہوا۔ ملک کا سیاسی اور معاشی ڈھانچہ آج بھی کمزور ہے لہٰذا اصلاح کیلئے ماضی کا جائزہ، مسائل کی توجیہ اور ان کا حل ضروری ہے۔ پاکستان جب وجود میں آیا تو ایک زرعی ملک تھا۔کچھ صنعتیں بھی قائم ہوگئی تھیں پھر ان صنعتوں کو قومی تحویل میں لے لیا گیا۔ یہ تجربہ کامیاب نہ ہوسکا تو صنعتوں کو واپس نجی شعبہ میں دینے کا عمل شروع ہوا جو کہ اب بھی جاری ہے۔
طرہ یہ بھی کہ قومی تحویل میں مقامی ادارے ہی لئے گئے غیر ملکی ادارے محفوظ رہے۔ ڈی نیشنلائزیشن کا آغاز ہوا تو ملکی ادارے غیر ملکی سرمایہ کاروں کے حوالے کئے گئے۔ اس زمرے میں ہر قسم کے ادارے شامل تھے یعنی بینک، انشورنس، ذرائع ترسیل و رسالت اور نقل وحرکت وغیرہ۔ ملکی سرمایہ کاروں کو پس پشت ڈال دیا گیا۔ ایک طرف معیشت کو آزاد کرنے کا دعویٰ ہے تو دوسری طرف عملی طور پر اسے غیر ملکی تسلط میں دیا گیا۔ غیر ملکی سرمایہ کار ترجیح دیتا ہے کہ مقامی شرکت کی صورت میں زیادہ سے زیادہ اکاون فیصد حصص کی ملکیت تو خود حاصل کرلے اور بقیہ حصص کی ملکیت مقامی شریک کار اور دیگر حصہ داروں میں تقسیم کر دے جبکہ قومی مفاد اس کے برعکس ہے۔ ٹیکنیکل فیس اور رائلٹی پر بھی پابندی ہے نہ غیر ملکیوں کی ملازمت اور ان کے مشاہرے پر کوئی ضابطہ، جیسا کہ متعدد دیگر ممالک میں ہے۔ مقامی صنعت وحرفت میں باہمی اشتراک کی بہرصورت ٹیکنیکل فیس اور رائلٹی کی بھی حد مقرر نہیں۔ اس کے نتیجہ میں مقامی صنعتوں کی لاگت پر بوجھ پڑتا ہے۔ منافع بٹ جاتاہے اور مقامی سرمایہ کاری خود انحصاری سے محروم رہتی ہے لہٰذا ایک طرف تو غیر ملکی سرمایہ کار کو دعوت دی جارہی ہے اور دوسری طرف قومی سرمایہ کار کو غیر ممالک میں جہاں یہ پابندیاں نہیں ہیں، دھکیلا جا رہا ہے،کسی اور ملک میں یہ نہیں ہوتا۔
بیرونِ ملک یہ تاثر عام ہے کہ ہر کاروباری جو پاکستان میں قدرے باثروت واقتدار ہے کسی نہ کسی طور پر بیرون ملک سرمایہ کاری کرتا ہے اور خوش وخرم رہتا ہے جو یہاں نہیں! ایک اندازے کے مطابق بہتر وسائل رکھنے والے ہزاروں تاجر اور صنعت کار ایسے ہیں جو وطن چھوڑ کر غیر ممالک میں رہائش پذیر ہیں، دوسری شہریت حاصل کرچکے ہیں لہٰذا ان کی وفاداریاں پاکستان کے حق میں کلی طور پر نہیں۔ بعض اوقات تو یہ بھی ہوتاہے کہ اندرون ملک قرضے لئے جاتے ہیں اور اس رقم کو بیرون ملک منتقل کر دیا جاتا ہے۔ یہاں عدم ادائیگی ہو جاتی ہے۔ ادارے کو بیمار قرار دے دیا جاتا ہے یا پھر دیوالیہ۔ بیرونی ممالک کی ایڈوائزری وغیرہ کا رواج بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ غیر ملکی القاب و ترجیحات کا رواج پھر سے عام ہو گیا ہے جو آزادی کے وقت ترک کر دیئے گئے تھے۔اب پھر ملک میں یہ عزت و احترام سے دیکھے جاتے ہیں،کاروبار میں معاون ہوتے ہیں۔ ایسے حالات میں بیرون ملک موجود پاکستانی سرمایہ کا اندازہ بقول جناب ڈگلس آرچرڈ، ایک امریکی قونصل جنرل اربوں امریکی ڈالر لگاتا ہے جبکہ پاکستان کی کلی دولت سو ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے لہٰذا وہ رقوم ملک کو غیر ملکی قرضوں سے نجات دلانے کیلئے کافی ہے۔ باہر سے پاکستان میں سرمایہ کی مد میں جو رقم لائی جارہی ہے اس میں سے کثیر رقم ان پاکستانی سرمایہ کاروں کی ملکیت ہے جو غیر ممالک میں مقیم ہیں۔ یہی صورتحال غیر ملکی کرنسی کی بھی ہے جو پاکستانی بینکوں میں جمع کرائی گئی تھی۔ ”قرض چکاوٴ ملک بچاوٴ“ اسکیم میں بھی اس قسم کی رقم شامل تھی جو بالخصوص اس قسم کا نفع کمانے کی وجہ سے منتقل ہوئی تھی۔ کسی بھی طور پر غیر ملکی اور مقامی سرمایہ کار کو مساوی حیثیت دینا قومی مفاد میں نہیں ہے۔ بیرون ملک تیار کی ہوئی اشیاء پیکنگ یا کسی بھی قسم کی محض اسمبلی یا سادہ سازی پر کوئی فیس یا رائلٹی نہیں ہونی چاہئے۔ یہ اخراجات صرف اعلیٰ تکنیکی صنعت کیلئے ہی جائز قرار دیئے جانا چاہئیں جیسا کہ دیگر ممالک میں رائج ہے۔ غیر ملکیوں کے مشاہرے اور ملازمت کے بارے میں بھی مناسب ضابطہ ہونا چاہئے۔ جیسا کہ ملائیشیا جیسے ملک میں ہے۔ اس کے باوجود نہ سرمایہ کاری بڑھی ہے نہ ٹیکنالوجی ٹرانسفر ہوئی ہے۔ملکی دولت بڑھی ہے نہ روزگار!
بینک نہ صرف معاشی اور سماجی نظام کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں بلکہ سیاسی استحکام بھی پیدا کرتے ہیں۔ قومی تحویل سے بینک اپنا کردار صحیح طور پر ادا کرنے کے قابل نہیں رہے۔ درحقیقت یہ بدنظمی، غیر معیاری قرضے اور شاہ خرچی کے شکار ہیں۔ نادہندگان کو قرضوں کی فراہمی اس بات کا ثبوت ہے۔ بیمار صنعتیں ہمیشہ بیمار ہی رہتی ہیں۔ آئے دن ان کیلئے کمیٹیاں بنتی رہتی ہیں ان کو مزید سرمایہ مہیا کر دیا جاتا ہے۔ اکثر و بیشتر آسان شرائط پر جو صحت مند صنعتوں کو میسر نہیں لیکن یہ صنعتیں بیمار ہی رہتی ہیں، ان پر مزید سرمایہ لگانا رائیگاں جاتاہے۔ ملکی اور غیر ملکی بینکوں کی کارکردگی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ مثلاً گزشتہ ایک سال میں نیشنل بینک آف پاکستان جو بینکوں میں بہترین بینک شمار ہوتا ہے کے منافع کی شرح اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک سے کم تھی۔ پاکستان میں غیر ملکی بینک ترقی کرتے کرتے اب قومی بینکوں کے ہم پلہ آچکے ہیں اور قومی بینک بتدریج تنزلی کا شکار ہیں۔ اس حقیقت کے پیش نظر بقیہ بینکوں کو قومی تحویل سے نکالنا ضروری ہے لیکن نجکاری کا یہ عمل پاکستانی سرمایہ کاروں کے حق میں ہونا چاہئے نہ کہ غیرملکی سرمائے کے۔ آخر غیرملکی سرمایہ کار کا مفاد قومی مفاد سے کس طرح وابستہ ہوسکتاہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتا ہے کہ غیر ملکی اشتراک قبول کر لیا جائے لیکن وہ اکثریت کی بنیاد پر ہرگز نہیں ہونا چاہئے۔ بالعموم بینکوں کے طریقہ کار کو بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ ان کے وسائل کے استعمال اور سیاسی، معاشی ضروریات میں ہم آہنگی لازمی ہے چونکہ قومی اور سیاسی آزادی کا دارومدار معاشی آزادی پر ہے اس لئے پاکستانی بینکوں کو غیرملکی سرمایہ کاروں کے حوالے کر دینا کسی بھی طرح مناسب نہیں۔ ملائیشیا جیسے ملک میں جہاں غیر ملکی سرمایہ کاری بدرجہ اتم موجود ہے وہاں کوئی غیر ملکی بینک کے حصص نہیں خرید سکتا۔ سوشو فزیکل انفرااسٹرکچر بھی اسی مد میں آتا ہے۔ یہ اس لئے بھی کہ جنگ یا دیگر غیر معمولی حالات میں یہ ادارے ملک کے پاس ہوں گے تو حفاظتی تدابیر میں ممد ثابت ہوں گے۔
اس وقت سیکڑوں کمپنیاں کراچی اسٹاک ایکسچینج کی فہرست میں شامل ہیں۔ ان میں سے تقریباً ایک تہائی کمپنیاں ہی مسلسل منافع کماتی ہیں اور حصص یافتگان میں ڈیویڈنڈ تقسیم کرتی ہیں۔ کئی ایسی کمپنیاں ہیں جو سادہ سازی درآمد کرکے غیر ملکی زرمبادلہ کمانے کے بجائے، بیرون ملک سرمایہ کے فرارکا باعث بنتی ہیں کیونکہ اس سے مالی اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے اور خام مال سے سادہ سازی وغیرہ سے فائدہ نہیں بلکہ اصلاً نقصان ہوتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ سیکڑوں ایسے ادارے ہمیشہ بیمار رہتے ہیں جو حکومت کی پالیسیوں کی بیساکھی کے بغیر ایک قدم بھی نہیں چل سکتے۔ ان اداروں سے تعلق رکھنے والے افراد نادہندگان میں سرفہرست ہوتے ہیں۔ کبھی یہ صنعتیں منافع بخش ضرور رہی ہوں گی۔ اس لئے ہر کسی نے اس طرف رخ کرکے انہیں اس حال کو پہنچا دیا ہے کہ اب اس پر قابو رکھنا بس سے باہر ہے۔ برآمدات کا تقریباً پچاس ساٹھ فیصد سادہ ساخت صنعتوں پر مشتمل ہے اس صنعت کا دارومدار مقامی عناصر کے بجائے غیر مقامی صورتحال پر زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر کوریا میں جنگ کے نتیجے میں ان صنعتوں کی تیارکردہ اشیاء کی مانگ میں اضافہ ہو گیا تھا لیکن ان بیمار صنعتوں پر غیرضروری طور پر انحصار کرنے کی وجہ سے آج ہمارے روپے کی مالیت میں مسلسل کمی ہوئی ہے۔ نوّے کے عشرے میں ہی چھپن فیصد کمی ہوئی پھر یہ عمل بار بار ہوتا رہا۔ حتیٰ کہ روپے کی قیمت ڈالر کے مقابلے میں سو روپے تک پہنچ چکی ہے۔ اس میں مسلسل کمی، پاکستانی معیشت کی کمزوری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کیا اب بھی اس پر نظرثانی کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی؟ بہتر یہ ہے کہ اس قسم کی صنعتوں کو مارکیٹ کے قدرتی عوامل پر چھوڑ دیا جائے تاکہ یہ اپنے قدموں پر خود کھڑی ہو سکیں اور اپنی راہ آپ تلاش کر سکیں۔ ایک وزیر مالیات کے مطابق ایک وقت پاکستان کی سب سے بڑی صنعت سے مجموعی طور پر صرف ایک سو پچاس ملین روپے انکم ٹیکس کی مد میں حاصل ہوئے تھے جو کہ بعض ٹیکس گزاروں کے انفرادی انکم ٹیکس سے بھی کم تھے۔ اب بھی صورت بہتر نہیں، اس لئے بہتر ہو گا کہ انڈر انوائسنگ اور اوورانوائسنگ کے ذریعے قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کی اجازت دینے کے بجائے ان میں بعض اداروں کو اپنی موت مرنے دیا جائے تاکہ دوسرے اداروں کیلئے بھی عبرت کا مقام ہو۔
مزید برآں، ایسی صنعتوں کو ویلیو ایڈڈ صنعت بنایا جائے، سادہ سازی برآمد پر پابندی لگائی جائے کیونکہ اس کی تیاری پر جتنی لاگت آتی ہے اور اس برآمد سے جتنا زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے اس سے قومی پیداوار میں کمی آتی ہے، اضافہ نہیں ہوتا۔ ایسی مصنوعات کو اندرون ملک ہی کھپایا جائے جہاں اس کی ضرورت بھی ہے، یہ عمل ملکی مفاد میں ہوگا۔قیام پاکستان سے قبل پاکستان کا ایک حصہ بالخصوص پنجاب پورے برصغیر ہندوپاک کی غذائی ضروریات پوری کرتا تھا لیکن آج پاکستان دال، آلو، مرچ بھی درآمد کرتا ہے۔ کبھی کبھی کپاس، دھاگہ، ٹائر اور کچی یا پکی چینی وغیرہ کی درآمد بھی ہوتی ہے درآمدات کا بیشتر حصہ انہی اشیاء پر مشتمل ہے۔ کیا یہ باعث تشویش نہیں کہ بنیادی طور پر ایک زرعی معیشت کے باوجود پاکستان اپنی غذائی ضروریات اور دیگر زرعی پیداوار کیلئے بھی درآمدات کا محتاج ہو اور وہ بھی بھارت سے، اسلئے کہ یہ وہاں سستی ہیں۔ اگر صرف درآمد سستی اشیاء ہونے کی وجہ سے کرنا ہے تو اپنی معیشت کو خیرباد کہہ دینا چاہئے یہ کسی سیاسی، معاشی اور سماجی منطق میں نہیں آتا۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ ملکی اشیاء کم لاگت پر تیار کی جائیں وگرنہ صنعت و زراعت کو خیرباد کہہ دیں۔ غذائی اشیاء کی پیداوار کو دیگر فصلوں کی کاشت سے حرج نہیں ہونا چاہئے۔ غذائی اشیاء میں خود کفالت پر زیادہ سے زیادہ زور دینا چاہئے کیونکہ یہ ہمارے قومی دفاع سے بھی زیادہ اہم مسئلہ ہے۔ غذا کے معاملے میں غیر ممالک پر انحصار قومی سلامتی کیلئے خطرہ بن سکتاہے۔ ایک طرف صنعت و زراعت متاثر ہوسکتی ہے تو دوسری طرف روزگار، جس سے سیاسی اور معاشی استحکام متاثر ہو گا۔ معاشی استحکام نہ ہوا تو پھر سیاسی استحکام نہیں ہو گا۔ روس اسکی زندہ مثال ہے جو اشیاء خوردنی کیلئے اپنے دشمن ممالک کے دست نگر رہا اور اس انجام کو پہنچا کہ معیشت بچی، نہ ملکی سا لمیت۔
تازہ ترین