• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک تقریب میں محترم مجیب الرحمن شامی نے ایسے صحافیوں کی اچھی خاصی گوشمالی کی جنہوں نے اخبار کے ورق کو گویا بدزبانی اور دشنام طرازی کی جولانگاہ بنا رکھا ہے۔ شامی صاحب کی تائید میں عطاالحق قاسمی صاحب نے بھی آوازہٴ حق بلند کیا اور کسی قدر واضح اشاروں سے ایسے اخبار نویسوں کی نشاندہی بھی کی جن کی تحریریں نہ صرف یہ کہ غیر پیشہ ورانہ اغراض کی چغلی کھاتی ہیں بلکہ عام اخلاقیات کے پیمانے پر بھی بدذوقی قرار پائیں گی۔ شامی صاحب اور قاسمی صاحب عہد حاضر میں اردو صحافت کے رہنماؤں میں شمار ہوتے ہیں اور انہوں نے ایک نہایت قابل اعتراض رجحان کی بروقت نشاندہی کی ہے۔ ان اساتذہ کے مصرعے پر گرہ لگانا بذات خود جسارت کے مترادف ہے تاہم کہنا چاہئے کہ صحافت کی زبان محض آداب مجلس کے زمرے میں نہیں آتی بلکہ اس کا گہرا تعلق تمدنی مکالمے کی سمت اور سیاسی عمل کی صورت گری سے بھی ہے کیونکہ صحافت بالخصوص کالم نویسی رائے عامہ تشکیل دینے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ ہم جن صحافتی رجحانات کو زبان و بیان کے ضمن میں محل نظر پاتے ہیں انہیں جمہوری اور تمدنی زاویوں سے بھی پرکھنا چاہئے۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ شخصی سطح پر دشنام کے لہجے میں بات کرنے والے احباب جمہوریت کی جڑیں کاٹنے اور رجعت پسندی کی آبیاری میں بھی یدطولیٰ رکھتے ہیں۔ شاید اب وقت آ گیا ہے کہ پیش پا افتادہ نظریاتی تقسیم کو فراموش کر کے صحافت میں ایسی اقدار کو فروغ دیا جائے جن سے نہ صرف صحافت کا وقار استوار ہو بلکہ جمہوریت ، علم دوستی اور رواداری جیسے رویوں کی مدد سے معاشرے کو مجموعی طور پر آگے کی سمت گامزن کیا جا سکے۔
ہمارا میڈیا، جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں، آزاد ہے بلکہ زیادہ ہی آزاد ہے۔میڈیا سرفروشوں کی جمہور دوستی ، سامراج دشمنی ، معاشی سوجھ بوجھ، پیشہ ورانہ استعداد اور تبحر علمی دیکھ کر رشک ہوتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ان کی جمہور دوستی سے جمہوریت کی نیّا ڈوب جاتی ہے۔ ان کی بگٹٹ سامراج دشمنی کا نتیجہ یہ ہے کہ قوم خود اپنی ہی سرزمین پر نوآبادی بن کر رہ گئی ہے کہ دنیا کے کونے کونے سے وارد ہونے والے سامراجی اور فسطائی ہمارے شہریوں کے خون سے ہولی کھیلتے ہیں ، ہمارے اداروں کی تضحیک کرتے ہیں، ہماری قیادت کو دھمکیاں دیتے ہیں۔ بلند بانگ معاشی نعروں کے باوجود قومی معیشت کا جہاز بے طرح ہچکولے کھا رہا ہے۔ آخر آزاد میڈیا کی اس درد مندانہ آہ و زاری کا نتیجہ معکوس کیوں برآمد ہوتا ہے؟
اس سوال کے جواب کے لئے 26/اگست 1944ء کے پیرس میں چلتے ہیں۔ ایک روز پہلے پیرس کے شہریوں نے جرمنوں کے قبضے سے اپنا شہر آزاد کرایا تھا۔ اہل یورپ کی پیرس سے شیفتگی ضرب المثل ہے۔ محرابِ فتح کے اردگرد فتح کی پریڈ جاری تھی۔ شیمپین ، وائن اور فتح کی سرخوشی میں ڈوبے ہجوم کی نظریں فرانسیسی مزاحمت کے سالار جنرل ڈیگال پر تھیں۔ تمام اچھے رہنماؤں کی طرح جنرل ڈیگال موقع محل کی مناسبت سے ڈرامائی حرکات و سکنات کی مدد سے عوام کا دل جیتنے کا گُر جانتے تھے۔ انہوں نے ایک رضا کار سپاہی کے سامنے رکتے ہوئے سرپرستانہ انداز میں پوچھا ”تو میرے دوست، تم نے جنگ مزاحمت میں کب شرکت کی“ ؟ پھٹی پرانی وردی پہنے تھکے ماندے سپاہی نے آنکھ جھپکائے بغیر جواب دیا ”جنرل صاحب، میں فسطائیت کے خلاف جنگ میں آپ سے بہت پہلے شامل ہوا تھا“۔ جنرل ڈیگال سٹپٹا کر رہ گئے۔ مذکورہ سپاہی اسپین کی خانہ جنگی میں جنرل فرانکو کی جمہوریت دشمن سپاہ کے خلاف لڑ چکا تھا جب فرانس خاموش تماشائی تھا اور ڈیگال فرانس کی فوج میں کرنل تھے۔ جمہوریت کی بالادستی اور فسطائیت کی مخالفت میں ڈیگال اس پیادہ سپاہی کا مقابلہ کیسے کر سکتے تھے جس نے جرنیلی شکوہ کے لئے نہیں بلکہ اپنے ایقان کی روشنی میں برسوں موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جنگ لڑی تھی۔
پاکستان کی صحافت میں بھی انہی خطوط پر دو قبیلے پائے جاتے ہیں۔ فرانس کے پیادہ سپاہی کا قبیلہ وہ ہے جس نے لیاقت علی خان کے پبلک سیفٹی ایکٹ کی مخالفت میں عقوبت خانوں کا منہ دیکھا۔ جسے ایوب خانی جبروت کے دوران پریس ٹرسٹ کی ٹکٹکی پر باندھا گیا، جس نے مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی کی مخالفت کرنے پر غداری کے الزامات سہے، جس نے بھٹو عہد میں کوثر نیازی برانڈ زہد و اتقا اور اشتراکیت پسندی کے منافقانہ آمیزے کا پردہ چاک کرنے پر مصائب اٹھائے۔ جس نے ضیاء الحق کے دور سیاہ میں کوڑے کھائے، شاہی قلعوں اور چونا منڈی کی اذیت گاہوں کی سیر کی، جس نے نوّے کی دہائی میں ملّاؤں اور ان کے نادیدہ سرپرستوں کا دباؤ جھیلا، جس نے پرویز مشرف کی حکومت کو ستمبر2001ء سے قبل بھی غیر آئینی سمجھا اور لکھا۔ فصیل کے دوسری طرف صحافت کی اشرافیہ تھی جس نے آزادی کے فوراً بعد حب الوطنی اور مذہب کی آڑ میں مفادات کی فصل کاٹنے کا بیڑا اٹھایا۔ جس نے ادارئیے لکھ کر غلام محمد سے دستور ساز اسمبلی توڑنے کی درخواستیں کیں۔ جس نے ایوب خان کی بغاوت کو انقلاب سے تعبیر کیا۔ نواب زادہ شیر علی کی دریوزہ گری کی۔ مشرقی پاکستان میں بہتے لہو کے دریا کو محبت کا زم زم قرار دیا۔ نظریہٴ پاکستان ایجاد کیا۔ بھٹو کی رعونت پر چونچ پروں میں دبائے بیٹھے رہے۔ ضیاء الحق کی صر صر کو صبا لکھتے رہے۔ افغان جنگ کو جہاد اور جمہوریت کے لئے لڑنے والوں کو شرپسند لکھا۔ آدھی رات کے گیدڑوں کے ساتھ مل کر جمہوریت کے خلاف سازشیں کیں۔ ٹریڈ یونین کا جنازہ نکال کر کلب کی ثقافت کو فروغ دیا۔ امتیازی قوانین کے قصیدے لکھے۔ لفافے میں لپٹے تقاضے کو اخبار کی زینت بنایا۔ ہیئت مقتدرہ کی چھتر چھایا تلے پاکستان میں جمہوریت، رواداری، انسان دوستی اور انسانی ترقی کا جنازہ نکالا۔ صحافت کو رجعت پسندی، بنیاد پرستی، آمریت نوازی اور تفرقہ بازی کی جولاں گاہ بنا دیا۔ صحافیوں پر ذرائع ابلاغ کے دروازے بند کر کے قلم فروشوں کو آزادی صحافت کی قبا پہنا دی۔
آزادی کے بعد پہلے تیس برس ان دونوں قبیلوں میں کشمکش رہی مگر 1977ء کے بعد سے ایک ہی قبیلے کا طوطی بولتا رہا ہے۔ پیادہ صحافی کی آواز ہجوم طفلاں کے شور بے ہنگم میں دب کر رہ گئی۔ حتیٰ کہ قوم کی ایک بڑی تعداد کو یہ بھی یاد نہ رہا کہ کبھی پاکستانی صحافت قوم کے مستقبل سے وابستگی کا استعارہ ہوا کرتی تھی۔ صحافت کا وظیفہٴ منصبی تعصبات اور جہالت کو ہوا دینا نہیں، قوم کو خبر سے آگاہ کرنا اور معاشرے کو آنے والے کل کے امکانات پہچاننے کے لئے نظر فراہم کرنا ہے۔ صحافت کا وقار اقلیت کو اکثریت کے جبر اور کمزور کو طاقتور کے استبداد سے بچانے میں ہے۔ سیاسی قیادت کے بارے میں لطیفے گھڑ کر مایوسی پھیلانے والوں سے قطع نظر ایسے صحافیوں کی بھی کمی نہیں جو عوام کے حق حکمرانی کے ساتھ پوری طرح وابستہ ہیں ۔ مجیب الرحمن شامی اور عطاء الحق قاسمی نے ذرائع ابلاغ میں غلط رجحانات کی نشاندہی کر کے دراصل گواہی دی ہے کہ ہماری صحافت میں آنے والے دنوں کی بشارت بدستور موجود ہے۔ صحافت کے پیادہ سپاہی اپنے مورچوں میں بدستور ڈٹے ہوئے ہیں۔ صحافت کی جرنیلی قبا اپنے جاہ و حشم کے باوجود اس دیے کو بجھا نہیں سکی جو ضمیر کی توانائی سے روشن ہوتا ہے۔
تازہ ترین