• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

باتیں تو درویش کی زنبیل میں بھی وہی ہیں جو ن م راشد کا ’اندھا کباڑی‘ لئے پھرتا تھا۔ افسوس کہ ڈاکٹر خورشید رضوی سے کبھی نیاز نہ رہے ورنہ ان سے عربی زبان میں تثنیہ کا قاعدہ ٹھیک سے سمجھ لیتا۔ ایک خیال سا ہے کہ فارسی کے نامعلوم شاعر اور نجد کے قیس بن الملوح میں ’مائو و مجنوں ہم سبق بودیم در دیوان عشق‘ کی یکجائی سے ’او بہ صحرا رفت و ما در کوچہ ہا رسوا شدیم‘ کے افتراق کی کہانی محض دو افراد کی اسطورہ نہیں، قوموں کے ساتھ بھی بارہا ایسا ہوتا ہے۔ کوریا اور پاکستان کا مغربی دنیا سے اشتراک قریب قریب ایک ساتھ شروع ہوا۔ اس برس جنوبی کوریا میں فی کس آمدنی 27500 ڈالر ہونے کا امکان ہے۔ پاکستان میں فی کس آمدنی 1550 ڈالر کے آس پاس زلیخائی کر رہی ہے۔ راہ شوق میں کوئی قدم تو غلط اٹھا ہو گا۔

ایک قصہ بھارت کا بھی سن لیجیے۔مئی 1991 میں راجیو گاندھی کے قتل کے بعد کانگریس کو پی وی نرسیما رائو کی صورت میں ایک غیرمتوقع وزیر اعظم چننا پڑا۔ تجربہ کار سیاستدان ہونے کے باوجود نرسیما رائو نے کبھی وزارتِ خزانہ نہیں چلائی تھی۔ اس پر قیامت یہ کہ جون کے تیسرے ہفتے میں جب وہ اپنی معاشی ٹیم کے ساتھ بیٹھے تو بدترین خبریں ان کا انتظار کر رہی تھیں۔خلیج کی جنگ سے تیل مہنگا ہونے اور کویت سے ترسیلاتِ زر ختم ہونے کے باعث جنوری 1991 میں بھارت کے زرمبادلہ کے ذخائر محض 896 ملین ڈالر رہ گئے تھے۔افراطِ زر 10.3 فیصد تھا۔منڈل کمیشن کی سفارشات کے نتیجے میں سرمایہ اڑنچھو ہو رہا تھا۔ بھارت کا دیوالیہ ہاتھ بھر کے فاصلے پر تھا۔حواس باختہ نرسیما رائو نے کابینہ سیکرٹری نریش چندر سے معاشی رپورٹ سن کر پوچھا، کیا حالات اتنے خراب ہیں؟ سر حقیقت تو اس سے بھی بدتر ہے۔نریش چندر نے جواب دیا۔ کچھ مشاورت کے بعد نرسیما رائو نے من موہن سنگھ کو وزارت خزانہ سونپ دی۔جولائی کے پہلے ہفتے میں 21 ٹن خالص سونا جہازوں کے ذریعے بینک آف لندن بھجوا دیا گیا تاکہ ملک چلانے کے لئے ضروری سرمایہ حاصل کیا جا سکے۔من موہن سنگھ نے ایک زبردست پالیسی شفٹ کے ذریعے نہرو کا 40 سالہ معاشی ماڈل جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ آج بھارت کا جی ڈی پی 2.72 کھرب (ٹریلین) ڈالر ہے اور ہمارا 286 ارب ڈالر۔ بھارت کے زرمبادلہ کے ذخائر 612 ارب ڈالر اور ہمارے 17 ارب ڈالر ہیں۔

اس وقت یہ قصہ بیان کرنے کی وجہ افغان صورت حال ہے۔ امریکی افواج کاانخلا افغانستان میں امن کی ضمانت نہیں۔درجن بھر طاقتیں افغان زمین پر اپنے مفادات کا کھیل کھیلنا چاہ رہی ہیں۔ ہمارا قصہ یہ ہے کہ ’گو مشت خاک ہیں مگر آندھی کے ساتھ ہیں‘۔ امریکا کابل میں تھا تو ہم اسے قابض فوج قرار دیتے تھے۔ امریکہ نے واپسی کا فیصلہ کیا تو ہمیں عجلت پسندی کا گلہ ہے۔اصل قضیہ وہی ہے جو 70 برس قبل سیٹو اور سینٹو تک جاتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ عالمی برادری ہمارے خواب اور ضروریات بطور خیرات پوری کرے لیکن ہمیں کرہ ارض پر خصوصی درجہ بھی دے یعنی بین الاقوامی تعلقات کی مبادیات سے ہمیں نفور ہے۔امریکی کہتے ہیں کہ صاحب، آپ نے پیسے لئے اور کام کیا۔ایک تجارتی رشتہ تھا۔ آپ اسے قرابت داری کی مفت خوری بنانا چاہتے ہیں تو کوئی دوسرا دروازہ دیکھئے۔ حالیہ تاریخ میں پہلی مرتبہ پاکستانی مقتدرہ ملک کا دوررس مفاد دیکھ رہی ہے۔ اڑچن یہ ہے کہ ہم نے 40 برس پہلے افغان جنگ کو جہاد کا مذہبی لبادہ پہنایا جو زمانے کے سرد گرم میں اب ایک کمبل بن چکا ہے۔جولائی 2018 میں ہم نے ایک ایسی حکومت تشکیل دی جس کے بظاہر فہمیدہ ارکان بھی سفارتی نزاکتوں سے نابلد ہیں۔دراصل تو اندرون ملک اصحاب زہد و وریٰ کی دل آسائی مقصود ہے۔طالبان کے کھلے پروردہ اور درپردہ حامی فتح مبین کے نقارے بجا رہے ہیں۔لکھ رکھیے کہ موجودہ سیاسی بندوبست افغان بیانیے کی چٹان سے ٹکرا کر پاش پاش ہو گا۔

یہ صورت حال دوسری جنگ کے بعد جرمنی میں بھی پیش آئی تھی۔جنگ کے دوران تو جرمنوں کی اکثریت نازی فلسفے اور افعال سے متفق تھی۔جنگ کے بعد مشرقی جرمنی میں سوویت یونین آ بیٹھا اور مغربی جرمنی سرمایہ دار بلاک میں چلا گیا۔ مغربی جرمنی نے De.Nazification کی مدد سے جمہوری اقدار کی آبیاری کر لی۔مشرقی جرمنی کے نظربند سیاسی بندوبست میں نازی ماضی کی شفاف مذمت کیسے ہوتی۔ 1953 میں روس نے مشرقی جرمنی میں ایسا کیا نہیں کیا جو نازی نہیں کر چکے تھے۔نازی فسطائیت اور اشتراکی استبداد میں فرق کیسے بیان کیا جاتا۔ معروف مورخ جیفری ہرف (Jeffrey Herf) نے 1997میں ایک کتاب لکھی تھی۔Divided Memory: The Nazi Past in the Two Germanys۔ یہ کتاب پیوستہ سوچ، سماجی رویوں، نظریاتی مفروضات اور مقتدر مفادات کے المیے بیان کرتی ہے۔ آج ہم بھی اسی تضاد کا شکار ہیں۔جہاد کے حدی خواں پھر سے زخم زخم الباکستان کا خونچکاں خواب دیکھ رہے ہیں۔ریاست کے ذمہ دار جانتے ہیں کہ اگر افغان قیادت میں اشتراک اقتدار پر اتفاق رائے نہ ہوا تو خانہ جنگی کا حقیقی نقصان ہمیں ہو گا۔عالمی رائے عامہ پہلے سے بدظن ہے، ماضی کی لوح داغدار ہے اور اپنا کیسہ وسائل سے خالی ہے۔تاریخ کا جبر ہے کہ جنہوں نے اپنے ملک میں انتقال اقتدار کی ہر تجویز کو غداری قرار دیتے ہوئے اشتراک اقتدار کا نقشہ سجائے رکھا، اب انہیں ایک خود مختار ہمسایہ ملک میں انتقال اقتدار کی بھول بھلیوں سے واسطہ ہے۔

تازہ ترین