• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں دو ہفتوں کیلئے کراچی گیا تھا۔ زندگی کو دو ٹکڑے ہوتے دیکھا۔ قدرت نے ہمیں دو آنکھیں دی ہیں مگر ایک خوبی بھی دی ہے۔ ان دو آنکھوں سے ہم منظر ایک ہی دیکھتے ہیں۔ یہ بات حکمرانوں پر صادق نہیں آتی۔ عجب مخلوق ہیں کہ دو آنکھوں سے دو منظر دیکھتے ہیں۔ ایک وہ جو ہم سب کو نظر آتا ہے اور ایک وہ جو ان کے خوشامدی انہیں دکھاتے ہیں، یہی کہ سب ٹھیک ہے ۔ میرے ساتھ عجب معاملہ ہوا۔ میری دو آنکھوں نے بیک وقت دو منظر دیکھے۔ہوا یہ کہ میں لندن سے کراچی پہنچا۔ دوستوں کو منع کردیا کہ مجھے لینے ہوائی اڈے نہ آئیں۔ راہ میں لُٹا تو میں تنہا ہی لٹوں گا۔ بہت سویرا تھا، لوٹنے والے شاید پہلے ہی سیر ہو چکے تھے۔ اپنے بہت ہی عزیز دوست کے گھر پہنچا۔ خوب گلے ملے گئے، جی بھر کر باتیں ہوئیں۔ راہ کے لطیفے سنائے گئے ، پرانی باتیں یاد کی گئیں، بہت عمدہ کھانا کھایا گیا، مثلاً شب دیگ اور خمیری نان۔ مٹکے کی قلفی اور ٹھنڈا یخ فالودہ۔ دن یوں ہی گزر گیا اور پتہ بھی نہ چلا کہ اس دوران شہر پر کیا قیامت گزر گئی۔ جگہ جگہ گولی چلی،نامعلوم افراد نے نا معلوم افراد کو مار ڈالا۔ جہاں مارنے کیلئے گولی دستیاب نہ تھی، مظلوموں کو مار مار کر مار ڈالا ، اخباری زبان میں تشدد کا نشانہ بنایا۔ چودہ افراد ہلاک ہوئے جن میں تین پولیس والے بھی تھے جو وردی پہن کر گھر سے نکلے ہوں گے تو بیویوں نے خدا جانے کون کون سی دعائیں پڑھ کر ان پر دم کیا ہو گا۔
اگلے روز یوم سعید یعنی جمعہ تھا۔ نہانے دھونے ، بال ترشوانے اور نیا لباس پہن کر نماز کو جانے کا دن۔یہ اہتمام کی گھڑیا ں تھیں۔ رونق تھی۔ چہل پہل تھی اور صاف لگتا تھا کہ مبارک ساعتیں ہیں۔ کسی نے کہا’ آج جمعہ ہے‘ ۔ کسی اور نے کہ’ الله رحم کرے‘۔ لوگ ہر روز کے معمول سے کیسے واقف ہو گئے ہیں، میں پردیسی حیران رہ گیا۔ کچھ دیر بعد ہی ہر طرف ایک خبر پھیلنے لگی۔ نارتھ ناظم آباد کی ایک مسجد سے لوگ نماز پڑھ کر نکل رہے تھے کہ تاک میں بیٹھے ہوئے قاتلوں نے سندھ اسمبلی کے ایک رکن اور ان کے جواں سال بیٹے کو مار ڈالا۔ تین روز کے سوگ کا اعلان کردیاگیا۔ شہر والوں نے خاموشی سے شہر بند کر دیا، نہ کرتے تو سانسوں اور دھڑکنوں سمیت بہت کچھ بند ہو جاتا۔اگلا روز سوگ کا دن تھا۔ پٹرول پمپ بند تھے۔ ہمارے ایک دوست ملنے کے لئے بے چین تھے لیکن ان کی موٹر سائیکل میں پٹرول نہیں تھا۔کسی جاننے والے کی پٹرول کی ٹنکی میں ربڑ کا پائپ ڈال کر اتنا پٹرول نکالا کہ میرے پاس آکر واپس جاسکیں۔ میں نے فون پر لاکھ سمجھایا کہ پھر کسی دن ملا قات ہوجائے گی، کہنے لگے کہ آپ نہیں سمجھیں گے۔ وہ آگئے اور دیر تک دنیا زمانے کی باتیں ہوتی رہیں، قہقہے لگتے رہے اور کہیں سے کوئی دل کو دہلانے والی خبر نہیں آئی۔ سونے سے ذرا پہلے ٹیلی وژن کھولا تو ایک خبر چل رہی تھی۔ کراچی کی سینٹرل جیل پر نامعلوم افراد نے حملہ کردیا ہے۔ ہر طرف گولیاں چل رہی ہیں اور اندر بند قیدیوں کے بیوی بچّے باہربے چین کھڑے ہیں کہ اندر سے کوئی خیریت کی خبر آئے۔ اگلا روز اچھا بھلا خیریت سے گزر رہا تھا۔ جن لوگوں کی کاروں یا موٹر سائیکلوں میں ایندھن موجود تھا وہ جیسے بھی بنا ملنے آگئے اور گھر میں محفل آراستہ ہوئی۔ ایسے موقع پر خدا جانے کیوں لوگ پرانے دنوں کو بہت یاد کرتے ہیں۔ سکھ چین کے دن رہ رہ کر یاد آئے۔ گزرے وقتوں کے کھانوں کی یاد تازہ کی گئی۔ فالسے کا شربت، جو کا ستّو، گُڑامبا، رساول، گرم چپاتی کے ساتھ گُڑ اور اصلی گھی، بتھوے کی روٹی اور لہسن کی چٹنی۔ اچانک ٹیلی وژن پر ایک پٹّی چلی۔ نانگا پربت کے بیس کیمپ میں نہ جانے کون سی حرارت والوں نے مہمان آئے ہوئے دس غیر ملکی کوہ پیماؤں سمیت گیارہ افراد کو مار ڈالا۔ چلئے چھٹّی ہوئی۔ اب کوئی اُس طرف آنے سے رہا۔ فخر سے سر اٹھائے ہماری ان عرش کو چھونے والی چوٹیوں کو اب ارمان ہی رہے گا کہ کوئی جرأت مند آکر ان پر پاؤں بھی دھرے۔
اگلے روز ملک بھر سے احباب کے فون آتے رہے۔ ہر ایک کا اصرار تھا کہ دو روز کے لئے ہی، ان کے پاس آؤں۔ یہ نوید بھی تھی کہ ان کے علاقے میں سکون ہے۔ تحقیق پر پتہ چلا کہ ان کے علاقے میں روز بس دو یا تین قتل ہوتے ہیں، اس سے زیادہ نہیں۔ سارا دن انہیں یہ سمجھاتے ہوئے گزرا کہ اگلی مرتبہ بہتر حالات ہوں گے تو ضرور آؤں گا۔ خام خیالی ہو، ضرور ہو، مگر ایسی بھی نہ ہو۔ انسان کتنی سادگی سے خود اپنی ہی باتوں میں آ جاتا ہے۔ کسی نے کہا کہ آج تو کراچی میں امن ہے اور اس سے پہلے کہ میں شکر ادا کروں، پتہ چلا کہ کراچی میں فائرنگ کے اکّا دُکّا واقعات ہوئے ہیں اور صرف چھ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ لفظ ہلاک لاکھ بار لکھتے ہوئے اخبار والے بھی اکتا گئے ہیں، کبھی جاں بحق لکھتے ہیں اور کبھی جان سے گئے ۔ کبھی مارے گئے اور اکثر شہید ہوئے۔اگلے روز ہمدرد یونیورسٹی سے فون آگیا۔ یہ پہلے سے طے تھا کہ وہاں حکیم سعید میموریل لیکچر مجھے دینا ہے۔ میرے لئے بڑی سعادت کی بات تھی۔ حکیم صاحب مجھ پر بہت مہربان تھے اور اپنی عنایات میں کمی نہیں آنے دیتے تھے۔ تفصیل سے طے ہوا کہ کیونکر کار مجھے لینے آئے گی اور کراچی کے کون کون سے علاقے پہلی بار دیکھوں گا۔جامعہ ہمدرد کا کتب خانہ ایک بار دیکھا تھا اور دوبارہ دیکھنے کی آرزو تھی۔ شام سے پہلے خبر آئی کہ شہر میں ٹارگٹ کلنگ زوروں پر جاری ہے۔ یہ زبان انگریزی کے ان لفظوں میں سے ایک ہے جن کا لاکھ کوششوں کے باوجود اردو متباد ل نہیں مل سکا ہے۔ معلوم ہوا کہ ایک خاتون سمیت پانچ افراد ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے۔ میں ہوتا تو لکھتا کہ ’ تاک کر مارے گئے‘۔ کچھ روز بعد سب لکھنے لگتے۔ اس کے علاوہ نئی سبزی منڈی میں دو گروہوں میں تصادم ہوا۔ میری کراچی میں تو دو گدھا گاڑیوں یا زیادہ سے زیادہ موٹر گاڑیوں میں تصادم ہوا کرتا تھا۔ ایسے اچھے شہر کو بسانے اور سنوارنے والے ہندوؤں اور پارسیوں کی ہائے لگ گئی ہے شایداس بستی کو۔
اگلی صبح، کراچی کی وہ مخصوص بھیگی سی صبح،حکیم سعید شہید کے مدینتہ الحکمہ کی گاڑی مجھے لینے آگئی۔ سویرا تھا۔ شہر کچھ سویا کچھ جاگا سا نظر آرہا تھا۔ دل کی گہرائیوں سے بسم الله کہہ کر گاڑی چلائی گئی۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ خدا خیر کرے گا، دہشت گرد ابھی سورہے ہوں گے۔ہم گولی مار ، ناظم آباد اور نارتھ ناظم آباد سے گزر کران بستیوں میں پہنچے جن کے نام خبروں میں اور تباہی کی اطلاعات میں سنا کرتے تھے۔ بستیاں ختم ہوئیں تو ویرانے شروع ہوئے جن میں جگہ جگہ چائے خانے اور بڑے بڑے بھاری بھرکم ٹرکوں کے ٹائر اور پہئے مرمت کرنے کی دکانیں کھلی ہوئی تھیں پھر آنکھوں نے عجب منظر دیکھا۔ کھلے ہوئے ٹرکوں پر لدی ہوئی پہاڑ جیسی چٹانیں بلوچستان سے کراچی لائی جارہی تھیں۔ یہ سنگِ مرمر اور اسی نسل کے قیمتی پتھر تھے جو شہر لے جاکر تراشے جائیں گے اور جن سے محل تعمیر ہوں گے اور یہ بات کہنے کی نہیں کہ ان سے حاصل ہونے والی بے پناہ دولت واپس وہاں نہیں جائے گی جہاں سے کاٹ کر یہ چٹانیں لائی جا رہی ہیں۔ابھی ہماری کار جامعہ ہمدرد تک بھی نہیں پہنچی تھی کہ کراچی سے فون آیا۔ برنس روڈ کے قریب بہت ہی زبردست دھماکہ کیا گیا ہے جس کا مقصد سندھ ہائی کورٹ کے جرأت مند جج جسٹس مقبول باقر کے وجود کو ریزہ ریزہ کر کے ہوا میں بکھیرنا تھا۔ان کے اہل خانہ کی دعائیں توشاید کسی نام کے طفیل مقبول ہوئیں لیکن ان کی حفاظت پر مامور چھ باوردی افراد لہو لہان ہوکر خالقِ حقیقی سے جاملے۔بے ساختہ میرے منہ سے نکلا ’ یہ دہشت گرد دن نکلتے ہی کام شروع کر دیتے ہیں‘۔اگلے روز وہ تقریب تھی جس کی خاطر میں کراچی پہنچا تھا۔ تہذیب فاؤنڈیشن نے ہر سال کے معمول کے مطابق ادب و موسیقی کے جشن کا اہتمام کیا تھا۔ شہر کے ایک جدید ہوٹل میں میلے کا سماں تھا۔
محترم اسلم فرخی کو اور مجھے ادب کا ابوالخیرکشفی ایوارڈ، پیر زادہ قاسم اور اکبر معصوم کو شاعری کا شبنم شکیل ایوارڈ اور انور مقصود کو ادب اور مصوری کا ایوارڈ دیا گیا اور جو احباب کی عنایات ملیں وہ اس کے علاوہ تھیں۔ اس فیسٹیول کے دوسرے روز دورِ حاضر کے استادوں نے گانے اور سازوں کے کمالات کا وہ مظاہرہ کیا کہ شہر کراچی عرصے تک یاد رکھے گا۔ اُس روز ہمارے خاندان میں ایک شادی تھی۔ سمندر کے کنارے ایک بڑے ہوٹل میں اتنی ہی بڑی ضیافت تھی۔ میں خاص طور پر شریک ہوا کیونکہ وسیع و عریض خاندان والوں سے ملاقات کا اس سے بہتر موقع نہیں ہو سکتا تھا۔ دیکھا کہ جو بچے تھے وہ بڑے ہوگئے تھے۔ جو بڑے تھے ان پر بڑھاپا آرہا تھا اور جو بوڑھے تھے، درجنوں اسباب کی بِنا پر شادی میں آنے سے رہ گئے۔ خاندان کے آدھے بچّے سمندر پار ملکوں کو سدھار چکے تھے اور اب ان کے والدین بھی اڑان بھرنے کو تھے۔ اُس روز شہر سے صرف لوٹ مار کی خبریں آئیں۔ لوگوں سے ان کے بٹوے، زیور، پرس، گھڑیاں اور موبائل فون چھینے جا رہے تھے۔ کوئی مقام دو دریا کے نام سے مشہور اور چھینا جھپٹی کی وجہ سے شہرت پا رہا تھا۔
اس کے اگلے روز بہت دلچسپ تجربہ ہوا۔ اس شام زنبیل کے نام سے موسوم ایک ادارے نے پلے ریڈنگ کا اہتمام کیا تھا۔ اس میں ڈرامہ یا کہانی یوں پیش کی جاتی ہے کہ اداکار ہاتھ میں کاغذ تھام کر اپنے مکالمے پڑھتے ہیں لیکن ڈرامے کے لطف میں ذرا سی بھی کمی نہیں آتی۔ اُس شام عصمت چغتائی کا ڈرامہ دوزخ پیش کیا گیا۔ دو لفظوں میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ لطف آگیا لیکن شہر میں اس شام غضب ہو گیا۔ لیاری کی ایک سرکردہ شخصیت ثاقب باکسر کو کہتے ہیں کہ باوردی افراد نے گرفتار کرنے کے بعد گولی مار دی۔ اس کے علاوہ پرانے علاقے کھارادرمیں نامعلوم افراد نے راہ گیروں پر فائر کھول دیا۔ سب ملا کر تیرہ افراد خالقِ حقیقی سے یوں جا ملے جیسے یہ روز کا قصہ ہو ، جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ پھر ایک رات گزری۔ احباب کو معلوم ہوا کہ میں شہر میں موجود ہوں۔ وہ دن بھر ملنے کے لئے آتے رہے۔ اس روز دہشت گرد صرف چھ افراد کی رگِ جاں پر ہاتھ دھر سکے۔ اگلے روز کا آغاز خوشگوار ہوااور تہذیب فاؤنڈیشن کے بانی شریف اعوان اور شریک بانی ملاحت اعوان مجھ سے ملنے آئے اور دیر تک شکریہ ادا کرنے کی رسم نبھائی گئی اور آئندہ کے منصوبے جان کر خوشی ہوئی۔ مگر دن کے خاتمے تک اس روز پشاور، کوئٹہ اور وزیرستان میں چوّن افراد موت کے گھاٹ اتارے جا چکے تھے اور جو لوگ پوری طرح قاتلوں کی گرفت میں نہیں آئے یعنی زخمی ہوئے ان کی تعداد تین ہندسوں میں تھی۔ میری واپسی کا وقت قریب تھا۔ دن خیریت سے گزر رہا تھا کہ پرانے شہر کے علاقے لیاری سے ایک مجمع اٹھا اور ثاقب باکسر کی ہلاکت کے خلاف احتجاج کرتا ہوا رینجرز کے ہیڈ کوارٹر تک جا پہنچا۔ سارا شہر بند ہوگیا۔ کام سے واپس آنے والے لوگ ٹریفک میں پھنس گئے۔ گاڑیوں میں پٹرول ختم ہو گیا۔ ڈر تھا کہ کہیں فساد نہ پھوٹ پڑے۔ ادھر ڈیفنس کے علاقے میں برادرم راحت سعید نے میرے لئے ایک ضیا فت کا اعلان کردیا۔ اعلیٰ فوجی گھرانے کی سبوحہ خان نے اپنے گھر پر تقریر اور طعام کا انتظام کیا۔میرے احباب جیسے بھی بنا آگئے اور خوب رنگ جما۔
اگلا دن کراچی میں میرا آخری دن تھا۔ اخبار آیا تو ڈرتے ڈرتے کھولا۔ ایک کونے میں چھوٹی سے خبر تھی۔ ”کراچی میں فائرنگ کے واقعات، چھ افراد جاں بحق“
آخر میں ایک چھوٹا سا واقعہ سناتا چلوں۔ اسے کسی دن یا تاریخ یا کراچی میں قیام کے کسی روز سے مخصوص کرنا ضروری نہیں۔ ہوا یہ کہ شہر کی ایک تقریب میں ایک نوجوان اور ہونہار ڈاکٹر سے ملا قات ہوئی۔ میں نے پوچھا ’ کیسے ہو‘۔ جواب ملا ’ خدا کا شکر ہے میرا نام کچھ ایسا ہے کہ اس سے میرے مسلک کا پتہ نہیں چلتا، اس لئے آپ کے سامنے ہوں۔ میں نے کچھ کہنا چاہا لیکن زبان نے انکار کردیا۔
تازہ ترین