• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
احمد ندیم قاسمی کی ساتویں برسی کے موقع پر میری 36 سال پہلے کی ایک تحریر کی دوسری اور آخری قسط: قاسمی
یہ محبت خاصی گنجلک اور پیچیدہ چیز ہے کبھی تو سمٹ کر ایک نقطے پر مرتکز ہو جاتی ہے اور کبھی پھیل کر کائنات کی وسعتوں پر حاوی ہوتی دکھائی ہے۔ ندیم صاحب کی محبت خاص توسیع پسندانہ ہے اور وہ محبت کرتے کرتے ان ملک کے کروڑوں بھوکے ننگے عوام سے محبت کرنے لگتے ہیں، جب انہیں اس کے باوجود سیری نہیں ہوتی تو پاکستان سے باہر دنیا بھر کے پسے ہوئے طبقوں پر اپنی محبت کا سایہ کر دیتے ہیں۔ ندیم وہ بلند و بالا مینار ہے جہاں سے محبت کی اذان بلند ہوتی ہے اور دکھی دلوں میں اترتی چلی جاتی ہے لیکن میں نے ندیم صاحب کو کئی مواقع پر محبت تو چھوڑ، مروت سے بھی دستبردار ہوتے دیکھا ہے اور خاصا حیران ہوا ہوں۔ مثالیں تو اور بھی بہت سی ہیں لیکن مجھے ایک حالیہ واقعہ یاد آ گیا ہے۔ پہلے وہ بیان کر لوں۔ گزشتہ دنوں ادیبوں کا ایک وفد غیر ملکی دورے کے لئے ترتیب دیا گیا ہے جس کے لیڈر ایک متنازعہ شخصیت تھے اور قومی حلقوں میں متنازع سمجھے جاتے تھے۔ ندیم صاحب کو بھی اس وفد میں شمولیت کی دعوت دی گئی، مگر ندیم صاحب نے انکار کر دیا، وجہ اس کی انہوں نے یہ بیان کی کہ ایک پاکستانی کی حیثیت سے مجھے ان کے نظریات سے اختلاف ہے۔ چنانچہ وفد کے سربراہ کی حیثیت سے وہ روس میں جو کچھ کہیں گے اگر میں وہاں ان کی تردید کرتا ہوں تو یہ ضوابط کی خلاف ورزی ہو گی اور اگر میں خاموش رہوں تو اپنے نظریات کے ساتھ غداری کروں گا۔ ندیم صاحب کی اس حرکت پر میں خاصا حیران ہوا تھا کیونکہ ایک تو وہ یہاں اپنی محبت کے رویے سے دستکش ہو گئے تھے اور دوسرے انہوں نے بیٹھے بٹھائے مفت کی سیر کا زریں موقع گنوا دیا، حالانکہ ہمارے ہاں اگر کسی کو غیر ملکی دورے کی پیشکش کی جائے اور اس کے ساتھ یہ شرط عائد کی جائے کہ اس کو ایک گھنٹے تک بکری بن کر کان پکڑنا ہوں گے تو وہ ہنسی خوشی یہ شرط قبول کر لے گا بلکہ ہم نے تو یہ بھی دیکھا ہے کہ وہ دانشور اگرچہ مقررہ مدت کے بعد کان چھوڑ دیتا ہے مگر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بکری بن جاتا ہے۔
لیکن ندیم صاحب ایسی ترغیبات سے ایک دفعہ نہیں بے شمار دفعہ گزرے ہیں اور ایسے مواقع پر انہوں نے محبت سے اعلان لاتعلقی کر کے آنکھیں ماتھے پر رکھ لی ہیں۔ ایسا ہی ایک موقع اس وقت بھی آیا تھا جب ایک بھارتی ادیب جن کی تمام عمر پاکستان دشمنی میں بسر ہوئی تھی وہ فوت ہوئے اور مجھے یاد ہے۔ ”فنون“ میں ان کے بارے میں جو کچھ چھپا وہ پڑھ کر میں ایک بار پھر حیران ہوا تھا لیکن اس کے بعد میں نے حیران ہونا چھوڑ دیا۔ میں نے یہ جان لیا کہ ندیم کا عہد وفا، مظلوموں سے ہے، ظالموں سے نہیں۔ ندیم صاحب کو میں نے وزراء اور حکام کے ساتھ بھی بڑا عجیب طرز عمل اختیار کرتے دیکھا ہے، کئی تقریبات میں ایسے ہوا ہے کہ ایک سے ایک بڑا دانشور محفل میں موجود وزیر صاحب کے ہاتھ چومنے کیلئے بے تاب نظر آ رہا ہے لیکن ندیم صاحب اس کی طرف ”کنڈ“ کئے بیٹھے ہیں حتیٰ کہ میں نے دیکھا کہ وہ اپنی جگہ سے اٹھ کرخود ان کے پاس آیا ہے اور بڑی گرم جوشی سے مصافحہ کیا ہے اور پھر ان کے برابر میں بیٹھ گیا۔ ندیم صاحب کے چہرے پر ان کی دل موہ لینے والی مسکراہٹ نمودار ہوتی ہے۔ وہ پوچھتے ہیں: ”کیا حال ہے؟“ اور اس کے ایک جملے کے بعد اس کی طرف سے یکسر غافل ہو کر قریب بیٹھے ہوئے کسی ”تھن ٹٹے“ ادیب سے مصروف گفتگو ہو جاتے ہیں، یہ منظر میں نے ایک دفعہ نہیں کئی دفعہ دیکھا ہے اور ہر بال دل میں کہا ہے کہ ”ہدایت اللہ! تیں ترقی نیں کر سکدا“۔ سو میری عمر اس وقت چونتیس برس تھی اور محبت کے ضمن میں میرا ”تیس سالہ“ تجربہ یہ ہے کہ محبت کرنا آسان ہے، محبت کی ادا کاری مشکل ہے۔ وزیروں کی طرف کنڈکر کے بیٹھنے والے ندیم صاحب بہت مصروف آدمی ہیں ان کے پاس واقعی اداکاری کیلئے وقت نہیں ہے۔
جہاں تک اداکاری کا تعلق ہے میں نے جاگیردار شاعروں کو شاعر انقلاب کہلاتے، بیورو کریٹس شاعروں کو عوام کی باتیں کرتے اور مزدوروں، کسانوں کی حالت زار پر تسوے بہاتے دیکھا ہے اور کچھ نہیں دیکھا تو وہ خلوص ہے جو ان کے عمل میں نظر آنا چاہئے تھا۔ خدا کا شکر ہے کہ میں نے ندیم صاحب کو صرف پڑھا ہی نہیں، قریب سے دیکھا بھی ہے، ورنہ میں انہیں بھی اس گروہ میں شامل سمجھتا جو رات کو غرق مئے تاب ہوتے ہیں اور دن کو مزدوروں کے غم میں غلطاں نظر آتے ہیں۔ میں نے اگر کچھ دیکھا تو یہ کہ ندیم صاحب کے پاس ایک مفلوک الحال ادیب آتا ہے اور انہیں مفلوک الحال کر کے چلا جاتا ہے۔ پھر اگلے روز وہ ٹی ہاؤس میں بیٹھا انہیں گالیاں دے رہا ہوتا ہے، جیسا کہ میں نے ابھی کہا کہ ندیم صاحب کے احباب اور نیازمندوں میں بڑے بڑے وزیر سفیر بھی شامل ہیں، مگر ندیم صاحب انہیں کبھی اس گرمجوشی سے نہیں ملے جس گرمجوشی سے وہ لکھاری دوستوں کو ملتے ہیں جن سے انہیں ”فنون“ کیلئے نظموں، غزلوں اور افسانوں کے انبار کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔ صرف یہی نہیں بلکہ ہم لوگوں نے برصغیر کی اس عظیم ادبی شخصیت کے ساتھ اسٹیشن کے ٹی سٹال پر کھڑے ہو کر بیس پیسے کپ والی چائے پی ہے۔ ایک تنگ و تاریک گلی کے ایک غلیظ ہوٹل میں تنگ دامانی کے شکار بنچ کے کونے پر بیٹھ کر انہوں نے ہمارے ساتھ سموسے بھی کھائے ہیں۔ لوگوں نے انہیں مزدوروں کے جلوس میں فلک شگاف نعرے لگاتے بھی دیکھا ہے اور تحریک پاکستان میں عوام کے ہجوم کے مابین ا نہیں نظمیں سناتے بلکہ گاتے بھی پایا ہے۔ عوام کے ساتھ ان کا اتنا گہرا رابطہ دیکھ کر ہی مجھے یہ بات سمجھ میں آئی کہ وہ خود کو ”سکہ بند“ انقلابی کہلانے پر ضد کیوں نہیں کرتے، شاید اس لئے کہ ان میں سے بیشتر کا منہ ”سکوں“ سے بالآخر ”بند“ ہو جاتا ہے اور پھر عوام کے ساتھ ان کا وہی تعلق باقی رہ جاتا ہے جسے عرف عام میں ناجائز تعلق کہا جاتا ہے!
میں باتوں باتوں میں آپ کو یہ بتانا تو بھول ہی گیا کہ احمد ندیم قاسمی اور مجھ میں نسبی لحاظ سے صرف ”قاسمی“ ہونا ہی مشترک نہیں بلکہ اس کے علاوہ یہ کہ وہ بھی پیرزادے ہیں اور میں بھی پیر زادہ ہوں، وہ بھی علماء کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور میں بھی علماء کے خاندان کا آخری چشم و چراغ ہوں، میر تقی میر نے کہا تھا:
اس باغ کے ہر گل سے چپک جاتی ہیں آنکھیں
مشکل ہے پڑی آن کے صاحب نظروں کو
اور اس میں کیا شبہ ہے کہ ”قاسمیوں“ میں ایک قدر مشترک صاحب نظر ہونا بھی ہے۔ خواہ وہ احمد ندیم قاسمی ہوں یا عطاء الحق قاسمی، چنانچہ اس باغ کے ہر ”گل“ سے ان قاسمی حضرات کی آنکھیں چپک کر رہ جاتی ہیں، تاہم احمد ندیم قاسمی کا کمال یہ ہے کہ ایسے مواقع پر انہوں نے کبھی خود کو مشکل میں محسوس نہیں کیا یا پھر یہ کہ ظاہر نہیں ہونے دیا۔ اس ضمن میں تو ایک واقعہ کا عینی شاہد بھی ہوں، قاسمی صاحب ایک روز رکشہ نہ ملنے کی صورت میں میرے ساتھ سکوٹر پر بیٹھے تھے اور میں اس روز حفاظتی اقدامات کے تحت اس باغ کے ہر ”گل“ سے نظریں بچاتا ہوا سیدھا تک رہا تھا کہ اچانک قاسمی صاحب گفتگو کرتے کرتے خاموش ہو گئے اور پھر تھوڑی دیر بعد انہوں نے دھیمی دھیمی سی آواز میں سبحان اللہ کہا۔ میں نے اس پر حیران ہو کر دائیں بائیں نظر دوڑائی تو اردگرد سوائے ایک انتہائی خوبصورت چہرے کے اور کوئی چیز ”سبحان اللہ آور“ نہیں تھی۔ بس قاسمی صاحب کی ساری رنگین مزاجی خوبصورت چہروں کو دیکھ کر اس ایک ”سبحان اللہ“ تک ہی محدود ہے، چنانچہ بڑے قاسمی اور چھوٹے قاسمی میں اگر کوئی فرق ہے تو وہ یہ ہے کہ ایسے مواقع پر وہ محض ”سبحان اللہ“ کہہ کر خاموش ہو جاتے ہیں جبکہ میں ”ان شاء اللہ“ بھی کہتا ہوں۔
پس نوشت: اب میں بھی صرف سبحان اللہ ہی کہتا ہوں۔
تازہ ترین