• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغانستان سے امریکی و اتحادی افواج کی واپسی کا عمل تقریباً مکمل ہو چکا ہے جب کہ انخلا کے لئے دی گئی ڈیڈ لائن میں بھی چند ہفتے ہی باقی رہ گئے ہیں۔ امریکی فوج کا بگرام ایئر بیس سے رات کی تاریکی میں میدانِ جنگ چھوڑ جانا اس حقیقت کا مظہر ہے کہ امریکہ کی موجودہ انتظامیہ افغانستان میں مزید قیام نہیں چاہتی۔ دو دہائیوں تک جاری رہنے والی دنیا کی اِس مہنگی ترین جنگ نے صرف افغانستان کو ہی نہیں بلکہ پاکستان کو بھی لہو رنگ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اس جنگ کا پُرامن اور مستحکم حل چاہتا ہے۔ افغانستان کی سیاسی حکومت کے پاکستان مخالف عزائم ڈھکے چھپے نہیں جن کے باعث پڑوسی ملک میں خانہ جنگی اور عدم استحکام کے خدشات دوبارہ سر اٹھا رہے ہیں جب کہ طالبان کی مختلف محاذوں پر کامیابی اور افغان فورسز کی پسپائی یہ ظاہر کرتی ہے کہ امریکہ کی دلچسپی خطے میں امن قائم کرنے سے زیادہ بروقت فوجی انخلا میں ہے۔ ان حالات میں پاک فوج کے باقاعدہ دستے پاک افغان سرحد پر فرنٹ پوزیشنز پر کنٹرول سنبھال رہے ہیں جب کہ پیرا ملٹری فورسز کی سرحدوں سے واپسی شروع ہو چکی ہے۔ وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ سرحد پار غیرمستحکم صورتِ حال اور مہاجرین کی آمدورفت اور عسکریت پسندوں کو وطنِ عزیز میں داخل ہونے سے روکنے کے لئے یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔ دوسری جانب روس نے متنبہ کیا ہے کہ اگر تاجکستان اور ازبکستان کی سرحدوں پر جارحیت کی گئی تو خاموش نہیں رہا جائے گا جب کہ امریکی فورسز نے بھی قندھار میں طالبان کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے ہیں۔ یہ بجا کہ دوحہ، ماسکو، استنبول اور مذاکرات کی دیگر بہت سی نشستوں کے باوجود طالبان کے حوالے سے کوئی ایک فریق بھی مطمئن نہیں جس کے باعث یہ صورتِ حال مزید بگڑ سکتی ہے۔ ان حالات میں امریکہ کو خطے کے تمام اہم اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت سے اس معاملے کا قابلِ قبول سیاسی حل نکالنا چاہئے تاکہ جنگ زدہ افغانستان میں امن قائم ہوسکے۔

تازہ ترین