• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نواز شریف تیسری بار ’’تخت اسلام آباد‘‘ پر فائز ہو چکے تھے، جمعہ کا روز تھا، جاتی امرا میں ان کی زیر صدارت چیدہ چیدہ لیگی رہنماؤں کا مشاورتی اجلاس ہو رہا تھا، اجلاس میں ستمبر 2013میں صدارتی انتخاب کے لئے موزوں امیدوار کی نامزدگی کا معاملہ زیر بحث تھا، شرکائے اجلاس میں سینئر مسلم لیگی رہنما سرتاج عزیز کو آئندہ صدر بنانے پر اتفاق رائے پایا جاتا تھا لیکن نواز شریف نے ابھی تک اپنی رائے کا اظہار نہیں کیا تھا۔ جمعہ کی اذان کے ساتھ ہی اجلاس میں وقفہ کر دیا گیا۔ شرکا صدارتی امیدوار کے بارے میںکوئی بھی حتمی فیصلہ کئے بغیر نمازِ جمعہ کی ادائیگی کےلئے چلے گئے اور طے پایا کہ مزید مشاورت نمازِ جمعہ کے بعد کی جائے گی۔ نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے لئے مسجد جاتے ہوئے نواز شریف نے مشاہدﷲ خان سے کہا کہ ’’میرے خیال میں ممنون حسین صدارتی منصب کے لئے موزوں امیدوار ہیں، آپ دوبارہ اجلاس شروع ہونے پر ان کا نام تجویز کریں‘‘۔ نواز شریف اپنی کوئی بات اجلاس میں منظور کرانا چاہتے تو وہ کسی ایک رہنما کے ذریعے پیش کرا دیتے۔ نماز کے بعد دوبارہ اجلاس شروع ہوا تو مشاہدﷲ خان نے ممنون حسین کا نام صدر کے منصب کے لئے تجویز کرکے شرکائے اجلاس کو حیران کر دیا اور انہیں اپنی رائے پر نظر ثانی کی دعوت دی۔ نواز شریف، جو کہ خود ممنون حسین کو صدر بنوانا چاہتے تھے، نے اُن کے حق میں مضبوط دلائل دے کر سب کو ممنون حسین کو صدارتی امیدوار بنانے پر آمادہ کر لیا۔ ممنون حسین کو پارٹی کی طرف سے صدارتی امیدوار بنانے کا اصولی فیصلہ تو ہو گیا لیکن انہیں باضابطہ طور پر پارٹی کے فیصلے سے آگاہ نہیں کیا گیا۔ انہیں اسلام آباد بلوا کر پنجاب ہاؤس میں قیام کرنے کے لئے کہا گیا۔ اُن سے کہا گیا کہ وہ اُس وقت تک کراچی نہ جائیں جب تک وزیراعظم ہاؤس سے اُن کو کراچی جانے کے لئے نہ کہا جائے۔ درویش صفت ممنون حسین وزیراعظم ہائوس سے صدارتی امیدوار نامزد کئے جانے کے باضابطہ اعلان کے انتظار میں پنجاب ہاؤس کے عام مہمانوں کے بلاک میں پڑے رہے۔ وہ رمضان المبارک کے ایام تھے۔ اس دوران نوجوان صحافی طارق عزیز اورلیگی رہنما محمد ظریف راجا ان کے لئے ’’پُرتکلف‘‘ سحر و افطار کا بندوبست کرتے رہے۔ پھر جب ممنون حسین صدر منتخب ہو گئے تو پورے پانچ سال تک ہر ماہ ایوانِ صدر میں اُن دو نوجوانوں کی ’’مہمان نوازی‘‘ کا ادھار چکاتے رہے۔ ممنون حسین خوش لباس تو تھے ہی خوش خوراک بھی تھے۔نواز شریف پر کراچی میں انسدادِ دہشت گردی کا مقدمہ چل رہا تھا، اس دوران وہ ان کے لئے گھر سے کھانا تیار کروا کے لاتے۔ ممنون حسین کا ایوانِ صدر میں رنگ ڈھنگ ہی کچھ اور تھا۔ اُنہوں نے سرکاری تقریبات کے سوا تمام اخراجات ختم کر دیے۔ ایوانِ صدر میں سابق دور میں رات گئے سجائی جانے والی تمام محافل ختم کر دیں۔ مہینہ میں ایک بار اُن کے ہاں چیدہ چیدہ دوستوں کی محفل سجتی جس میں مشاہد ﷲ خان، محمد ظریف راجا، طارق عزیز، افتخار اعوان اور سلیمان عباسی شریک ہوتے۔ پانچ سال تک مہمانوں کی تعداد پانچ ہی رہی اس میں کمی ہوئی اور نہ ہی اضافہ۔ ساڑھے سات بجے کھانے کی میز سجتی اور ساڑھے دس بجے ختم ہو جاتی۔ ایک بار ایک شریکِ محفل کو کھانے کے وقت پر پہنچنے میں دیر ہو گئی، ممنون حسین جو کہ شوگر کے مریض تھے، انسولین لگوا چکے تھے لیکن اس کے باوجود تاخیر سے آنے والے مہمان کا انتظار کیا۔پاکستان کے سابق صدر کی تدفین سرکاری اعزاز کے ساتھ کی جانی چاہئے تھی لیکن ان کی وفات پر صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے صرف 11سطور پر مشتمل ایک ٹویٹ جاری کیا۔ وزیراعظم، گورنر سندھ سمیت کسی وزیر نے سابق صدر کی تدفین میں شریک ہونا تو دور کی بات ہے تعزیتی بیان جاری کرنے تک کی زحمت گوارہ نہیں کی البتہ آئی ایس پی آر نے آرمی چیف جنرل باجوہ کا تعزیتی بیان جاری کیا۔ ان کی نمازِ جنازہ میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ نواز شریف اور مریم نواز نے بھی ٹویٹ پر اکتفا کیا البتہ شہباز شریف نے ممنون حسین کی فیملی کے ساتھ ٹیلی فون پر تعزیت کی۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال نے ممنون حسین کے جنازے میں پارٹی کی نمائندگی کی، اگرچہ صدر مملکت کا ایئر فورس ون طیارہ ہوتا ہے لیکن وہ اکثر کمرشل فلائٹس میں سفر کرتے تھے۔ ایک صنعت کار ان کی کمرشل فلائٹ کے ذریعے سفر سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنی ٹکٹ اُن کے ساتھ بک کروا لیا کرتا تھا۔ ممنون حسین کو شک گزرا کہ اس کا اسی جہاز میں ان کے ساتھ سفر کرنا محض اتفاق ہے یا ان کی قربت حاصل کرنے کی کوشش؟ اُنہوں نے صنعت کار سے کہہ دیا کہ اُن کی اس چالاکی کا اُن کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ صدر ممنون حسین نے وزیراعظم ہاؤس کی جانب سے بھیجے گئے ایک آرڈیننس پر دو بار دستخط کرنے سے انکار کر دیا تو وزیراعظم نواز شریف نے انہیں فون کیا جس پر انہوں نے کہا کہ ’’آپ میرے قائد ہیں، میں آپ کی حکم عدولی نہیں کر سکتا لیکن میرے خیال میں یہ صدارتی آرڈیننس ملک کے لئے ٹھیک نہیں‘‘ جس پر وزیراعظم نے صدارتی آرڈیننس واپس لے لیا۔ ممنون حسین نے بتایا کہ میٹرک میں ان کو ایک اسکول ماسٹر نے امتحان لئے بغیر پاس کر دیا تو اُن کے والد محترم نےانہیں اسکول سے ہی اٹھوا لیا۔ ممنون حسین عمر بھر مسلم لیگ (ن)سے وابستہ رہے، 1999میں گورنر سندھ بنے، 12اکتوبر 1999کے مارشل لا میں انہیں بطور گورنر کام جاری رکھنے کے لئے کہا گیا تو انہوں نے یہ پیش کش مسترد کر دی۔ ممنون حسین آخری وقت تک نواز شریف کے وفادار رہے۔ ﷲ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے، آمین!

تازہ ترین