• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دنیا میں جمہوریت کسی مخصوص طرز زندگی اور اسے اختیارکئے ہوئے گروہ کے غلبے سے مشروط نہیں ہوتی جارہی؟ جمہوریت کا مطلب آج بھی ''عوام کی حکومت، عوام کے لیے ،عوام ذریعے '' ہی ہے ، یا غلامی کی بیخ کنی کر نے والے مقتول امریکی صدر ابراہام لنکن کی یہ تعریف تیزی سے بد ل رہی ہے ؟ یہ درست نہیں کہ جمہوریت ، بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ اور آزاد ی اظہار کی بین الاقوامی قبولیت، کسی اصول اور فلسفے کی بجائے جغرافیہ اور طرز زندگی کے حوالے سے ہوتی جارہی ہے؟ جیسے انڈونیشیا اور سوڈان کی مین لینڈ سے الگ ہو کر مذہب کی بنیاد پر قائم ہو نے والی آزاد ریاستیں ایسٹ ٹیمور اور ڈارفن میں جمہوریت اور حق خود ارادیت کا مطلب و مفہوم وہی ہے جو کتابوں میں لکھا اور انسانی حقوق کے چمپئن ممالک میں رائج ہے ؟ لیکن کشمیر ، چیچنیا ، برما اور مورو کے مسلمانوں کے لیے حق خود ارادیت اور بنیادی انسانی حقوق کا مطلب وہ نہیں جو ایسٹ ٹیموراور ڈارفن کی عیسائی اکثریت کے لیے ہے ۔
تیزی سے اقتصادی ترقی کرتے ترکی میں تحفظ قدرتی ماحول کی آڑ میں جمہوریت کو پلٹنے کے لیے سیاسی طرز کی ناکام ''عوامی '' کو شش اور اب آمریت پسند لبرل کے مظاہروں کی معاونت سے مصر میں فوج کے ہاتھوں بحالی جمہوریت کے مظاہرے کر نے والے جمہور کے قتل عام نے عالمی سطح پر ''جمہوریت کی حقیقت'' کے نئے سوال پید اکر دیے ہیں ۔ اٹھتے سوال زور دار نہ ہوتے ، اگر جمہوریت اور بنیادی انسانی حقوق کے چمپئن میانمار ( برما) ، بنگلہ دیش اور اب مصر میں ہونے والے جمہور کے قتال پر مجرمانہ چپ نہ سادھتے ۔نومولود مصری جمہوریت پر شب خون پر اختیار کی گئی خاموشی نے ہی اٹھتے سوالات کو جاندار بنا دیا ۔
ترکی تو جمہور کی طاقت سے ہی سیکولرازم اورلبرل ازم کو مذہب سے بھی زیادہ شدت سے اختیار کر نے والے بے قابو جرنیلو ں کو بڑی تگ ودو کے بعد قابو کر نے میں کامیاب ہوگیا ۔ شدید مشکلات میں گھرے پاکستانیوں نے بھی لبرل پیپلز پارٹی کی بے مثال کرپشن اور بد ترین بد نظمی سے ملک کو تباہی کنارے پہنچانے کے اذیت ناک مناظر دیکھتے دیکھتے اقتدار کی باری پوری کرا ہی دی ۔ ہماری فوج نے حالات کے پیش نظر اپنے روایتی رویے میں جو تبدیلی کی اس کے خوشگوار نتائج آنا شروع ہو گئے ہیں۔ پاکستانیوں کو بھی اپنے ایمان کا یہ حصہ بنانا پڑا کہ ''ہر حالت میں باری پوری ہو گی تو جمہوریت بچے گی '' جو بچ گئی۔ جن عام انتخابات کے نتائج سے اب دوسری پاپولر جماعت کی باری شروع ہوئی ہے ، ان پر ہر سیاسی جماعت کی طرف سے فیئر اور آزاد نہ ہو نے کے دسیوں سوال اٹھنے اوراحتجاج کے باوجود جمہوری عمل جاری وساری ہے ۔ پاکستانی 1977ء ( جب الیکشن میں ملک گیر سطح پر دھاندلیاں ہو ئیں ) جیسی کسی احتجاجی تحریک پر آمادہ نہ ہوئے ۔ انہوں نے ا ب اقتدار کی نئی باری کے شروع میں ہی مہنگائی بم پھٹنے کے تکلیف دہ اثرات پر بھی چپ سادھ (دڑ وٹ ) لی ہے ۔ نتیجتاً جمہوریت کی گاڑی کو پہلا گیئر تو لگ ہی گیا ، گاڑی بہر حال چل رہی ہے ۔ پٹرول ملتا رہا ، کرنٹ کی سپلائی ہوتی رہے تو یہ چلتی رہی گی۔ ان کے دام بڑھتے رہیں گے تو دوسرے گیئر میں تو آجائے گی ، دھکے بھی لگتے رہیں گے ۔
ادھر بیچارا مصر ہے ، جس کی ہزاروں سال کی تاریخ میں جمہوریت کی اولین باری تو کیا پوری ہوتی ، پہلی جمہوری حکومت کو آزادی سے سانس بھی نہیں لینے دیا گیا۔ جس طرح الجزائر میں فیئر الیکشن کے نتیجے میں جدید ترین علوم کے اعلی تعلیم یافتہ منتخب نمائندوں پر تشکیل پانے والی پہلی ( ہائی کوالٹی ، ہائی پوٹینشل )پارلیمنٹ نہ چلنے دی گئی اور ول کلچرڈ فرنچ نے قتل و غارت کے بازار کی بڑی چالاکی سے سر پرستی کی ۔اسی طرح حسنی مبارک کے آمرانہ دور کی ''موجاں ای موجاں '' کو شدت سے مس کر نے والو ں نے نومولود مرسی حکومت کے وجود میں آتے ہی بانس سوٹیاں پکڑ لیں تھیں ۔ وہ اس پر سارا سال انگلیاں اٹھاتی رہیں جیسے کہ یہ کوئی ناجائز ہو ، ہنگامہ بڑھا تو نئے جمہوری مصر کی صورت حال پر ''آزاد دنیا '' کی چپ کی طاقت بھی جمہوریت مخالف ہنگامہ پروروں کو مل گئی۔ اس ہنگامے اورچپ میں سے نکلی آزاد دنیا کی ڈارلنگ ، البرادی ، جسے ایٹمی اسلحے کی پہاڑوں پر چڑھی طاقتوں نے دنیا میں ایٹمی عد م پھیلاؤ پر مامور کیا تھا۔ مرسی کی سیاسی طاقت آج بھی اتنی ہی ہے جتنی الیکشن پر۔ اس طاقت کے ہی چیک کو روکنے کے لیے گزشہ روز قاہرہ میں مرسی کے جمہوریت پسند کارکنوں پر قہر نازل کیا گیا ۔ یوں یہ ڈارلنگ مصری جرنیلوں کی بغل میں نہ آئی ۔ لگتا ہے مصری فوج کے قیدی منتخب صدر مرسی کا مطالعہ کم ہے ۔ انہوں نے ترکی اور پاکستان میں عشروں تک رنگ دیکھانے والی سٹیٹس کو ء کی طاقت کو بخوبی جانچہ ہوتا تو خوب پھونگ پھونگ کر قدم رکھتے ۔ وہ اسے اپنی جماعت کی ایثار و قربانیوں سے بھر پور نو عشروں پر محیط جد و جہد کی منزل مراد سمجھ بیٹھے ۔ یہ تو منجاب منزل پہلے قدم تھے ۔ سٹیٹس کو ء کی دم توڑتی طاقتیں ٹوٹتے ٹوٹتے کیسازور دیکھاتی ہیں ؟ انتخابی سیاست پھر تشکیل حکومت کے بعد ملکی سیاست پر نظر رکھنے اور بمطابق حکومتی اقدامات کرنے کا مری صاحب کو کوئی تجربہ نہ تھا ۔ ایران نے انتخابی عمل سے کیسے طاقت پکڑی ؟ آج وہ دنیا سے اقتصادی طور پر کاٹ یے جانے کے باوجود اپنی ''پاور آ ف ون '' دیکھاتا چلا آ رہا ہے ۔ ترکی کے متوازن ذہن اور باعمل مسلمانوں نے کسی طرح دانش و حکمت سے شدت پسند جرنیلوں کو قابو کر کے قومی سیاست و حکومت پر غلبہ پایا ؟ مصر کی قومی سیاسی ضرورتیں کیا ہیں ؟ وہ کس مرحلے پر کیا کریں ؟ کیسے جرنیلوں کی آمرانہ ذہنیت کو بے نقا ب کیا جائے ؟ اور موجودہ برے وقت سے کیسے نکلیں ؟ ان سوالوں کے درست جوابات تک پہنچ میں پاکستان کی جمہوریت پرست ، باشعور اور اچھے نیٹ یوژرز مصر کے جمہوریت پرستوں کی مدد کر سکتے ہیں۔ انہیں حوصلہ دینا اور سیدھے راستوں کی نشاندہی کرنا ہر گز مداخلت نہیں ، بین الاقوامیت ، عالمی سماجیت ، جمہوریت کے فروغ اور بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کا تقاضہ ہے ۔
انسانی معاشروں کو آئین و قانون سے چلانے پر یقین رکھنے والے ہر مہذب عالمی شہری کا انسانی فرض او ر جمہوری حق ہے کہ وہ مصر میں ٹینکو ں اور بندوقوں کے سائے میں جنم لینے والی جمہوریت کے تحفظ کے لیے ، سوشل میڈیا کے ( ہتھیار نہیں ) ذریعے سے اپنا یہ فرض پورا اور حق حاصل کریں ۔ دنیا پر واضح ہو ناچاہیے کہ جمہوری عمل کے نتیجے میں جو بھی عوامی قوت بر سر اقتدار آئے وہ لبرل ہو یا ملا ، اسے عوام کے احترام میں برداشت کرو اور سیاسی عمل کو ریفائن ہونے کا موقع دو ۔ قانون و آئین کی روشنی میں ہی اس کا احتساب کرو ۔ قانون کالے ہیں تو اپنے نمائندوں پر دباؤ ڈال کر انہیں تبدیل کراؤ ۔ عوام آپس میں کتنے ہی منقسم ہوں ، جو جمہوریت میں ہوتے ہیں ، انہیں جمہوریت ، قانون اور آئین پر تو متفق ہونا ہی پڑے گا ۔ وگرنہ کسی مخصوص طرز زندگی کو ہر حالت میں غالب کر نے کی ہنگامہ خیزی اور انسانی تہذیبی عمل کو جلا ء بخشنے میں فرق ہے ، فروغ انسانیت کیلئے پورے عالمی معاشرے کو اس فرق کو سمجھنا ہے۔
تازہ ترین