• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جولائی 2012ء میں ہلیری کے دورے کے مخالف احتجاج کرنے والے نوجوانوں نے کتبے اٹھا رکھے تھے جن پر تحریر تھا (مصر نہیں بنے گا پاکستان)۔ان الفاظ پر اپنا کتھارسس دینے سے قبل میں صحرائے عرب میں 2011ء سے آنے والی تبدیلیوں سے اپنی کالم کی ابتدا کرنا چاہتا ہوں۔ تیونس سے اٹھنے والی لہر کے رو میں زین العابدین کے ساتھ حسنی مبارک، ابوصالح اور قذافی تو بہہ ہی چکے، بشرالاسد بھی اسی انجام کے قریب ہیں مگر اس لہر کے دوش پر سوار ہو کر اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہونیوالے جمہوریت کے دعویدار صدر مرسی کو بھی بہا دیا گیا ۔صدر مرسی جن کا دور اقتدار ایک سال پر محیط ہے کو میں شک کا فائدہ ضرور دوں گا ان کی راہ میں کھڈے کھودے گئے ۔صدر حسنی مبارک کے وزیر دفاع اور آرمی چیف مارشل محمدحسین نے اقتدار پر گرفت مضبوط ہوتے ہی اپنی دونوں آنکھیں اخوان المسلمین پر فوکس کر دیں مگر عوامی ریلے کو نہ روک پائے۔ اپنے ہی زیرانتظام انتخابات پر شک کا اظہار کیا۔منتخب اسمبلی کو کام سے روکے رکھا۔جوڈیشری جو مارشل لا کی ہمنوا تھی نے اسمبلی کو کالعدم قرار دے دیا۔ جب کوئی راستہ نہ ملا تو صدر مرسی کو ایوان صدارت میں داخل ہونے دیا مگر نیت صاف نہیں تھی ۔30جون 2012ء کو مرسی نے عہدہ صدارت سنبھالا تو اسمبلی کالعدم تھی۔ صدر نے آئین کے تحت حاصل شدہ اسپیشل اختیارات استعمال کرکے اسمبلی بحال کی اپوزیشن نے مخالفت کی اور اپیل دائر کر دی ۔ صدر کو یقین تھا Boisedجوڈیشری اسمبلی کے تحلیل کردہ فیصلے کو برقرار رکھے گی لہٰذا صدر نے 22 نومبر کو نئے آئین کے نفاذ تک صدارتی فرمان کے ذریعے بالاتر اختیارات حاصل کرکے جوڈیشری کو نظرثانی کے فیصلے سے روک دیا اور نئے آئین کی منظوری کیلئے 15 دسمبر کو ریفرنڈم کا اعلان کر دیا۔ اپوزیشن نے ریفرنڈم کا بائیکاٹ کیا ۔ پہلے مرحلے میں قاہرہ اور سکندریہ سمیت بڑے شہروں سے 33فیصد نے آئین کو سپورٹ کیا جبکہ دوسرے مرحلے میں37 فیصد نے حمایت کی۔ قاہرہ کے سینئر وکلاء کا تبصرہ تھاآئین میں کوئی خاص تبدیلی نہیں۔ ری پبلک کے بجائے اسلامی جمہوریہ مصر کا اضافہ محض پوائنٹ اسکورنگ ہے ، ہم سب مسلمان ہیں اور الحمدللہ پہلے بھی تھے ۔اخوان نے اپنا 80سالہ وعدہ آئین میں ایک جملے کا اضافہ کرکے پورا کرنے اور اپنے پیروکاروں کو مطمئن کرنے کی کوشش کی ہے ۔صاحب جو بھی ہے صدر مرسی اور اسمبلی جوڈیشری کے مہلک وار سے بچ گئے اور کچھ وقت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ۔صدر نے ملٹری کونسل کو فارغ کر کے اپنے مضبوط ہونے کا تاثر دیا۔ 19جولائی کوسابق امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے مصر کا دورہ کیا ۔دورے کے مخالفین نے پُرزوراحتجاج کیا۔ بہت سے احتجاج کرنیوالے نوجوانوں نے کتبے اٹھا رکھے تھے(مصر نہیں بنے گاپاکستان) میڈیا نے ان کتبوں کو نمایاں کوریج دی۔ یہ سب کچھ پڑھ کر شدید دکھ ہوا ۔ مصریوں نے 60سال تین صدور کے جبر کے سائے میں گزار دیئے ،ان کیلئے احتجاج اور آواز سب کچھ نیا ہے ،وہ جذباتی ہو رہے ہیں ۔ہم پاکستانی ان گم گشتہ راہوں سے گزر چکے ۔ متنازع آئین کا نفاذ، طاقتور قوتوں کی مداخلت، قبائلی عصبیت، مذہبی منافرت اور فرقہ پرستی جیسے شواہد ہماری تمہاری مماثلتوں کی گواہی دیتے ہیں۔ پاکستان کی طرح مصر نے بھی نئے آئین میں اسلامی جمہوریہ کا اضافہ کر لیا ہے ۔ان عناصر سے میں ہی نہیں وہ بھی آگاہ ہیں جو ہماری قسمتوں کے فیصلے کرتے ہیں ۔امریکی سفارت کار اینی پیٹرسن کی 2007ء سے2010ء تک پاکستان میں اور مئی2011ء میں مصر میں تعیناتی بیّن ثبوت ہے وہ اس سے غافل نہیں ۔وہ سفارت کاری سے زیادہ قبائلی عصبیتوں اور فرقہ پرستی جیسی قباہتوں کو استعمال کر کے معاشرے میں افراتفری پھیلاکر اپنی اور اتحادی ایجنسیوں کو رسائی دلوانے میں مہارت رکھتی ہیں ۔پیٹرسن سے پہلے سی آئی اے کا انحصار پاکستان کی ایجنسیوں پر تھا ۔پیٹرسن نے اپنے تین سالوں میں سی آئی اے اور اتحادیوں ایجنسیوں کو ضروری مقامات پر رسائی دلاکر خود کفیل بنا دیا۔ ڈاکٹر شکیل کی جعلی پولیو مہم کے ذریعے اسامہ کی تلاش اور فاٹا کے اندر تک رسائی ،فرقوں کے نام پر قتل اور بلوچستان میں غدر جیسی صورتحال پیٹرسن کی مہارتوں کا کھلا ثبوت ہے۔
پاکستان میں مشن کی کامیابی کے بعد پیٹرسن کی مصر میں تعیناتی اس کی صلاحیتوں کا اعتراف ہے ۔دو سالوں میں پیٹرسن کے جلائے آلاؤ کی زد میں پاکستان کی طرح مصر بھی آچکا ہے جو ہلیری کے سامنے لہراتے کتبوں کا جواب ہے ۔سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد عالمی استعمار کا فوکس عالم اسلام ہے جس پر گرفت مضبوط رکھنا مقتدر قوتیں ضروری سمجھتی ہیں۔ پاکستان ایٹمی طاقت ہے دنیا کے اہم ترین نقشے پر واقعہ ہے، مضبوط اور منظم فوج کا حامل ہے۔ مصر عالم عرب کا اہم ترین ملک ہے ،اسرائیل کا ہمسایہ ہے مضبوط فوج ہے ،قدیم ترین تہذیبی ورثہ رکھنے والا مصر صدیوں سپر پاور رہا ہے۔ مصر پر کنٹرول حاصل کرکے مشرق وسطیٰ اور بہت سے افریقی ممالک کی نفسیات اور نبض کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے یہی وجہ ہے دنیا کی بہت سی انٹیلی جنس ایجنسیاں یہاں ہمہ وقت مصروف رہتی ہیں۔ مصر نے 1981ء سے اسرائیل کو تسلیم کر رکھا ہے، اسرائیل کے بعد وہ سب سے زیادہ امریکی امداد حاصل کرنیوالا دوسرا ملک ہے ۔مصری فوج اور پنٹاگون میں رومانس زوروں پر ہے۔ پچھلے 80سالوں سے اسلام کے نام پر سیاست کرنے والی اخوان بتدریج طاقت پکڑ رہی تھی۔ مشرق وسطیٰ میں اٹھنے والی لہر کے نتیجے میں قاہرہ کے التحریر چوک اور نوجوانوں کے احتجاجی رخ نے بین الاقوامی شہرت حاصل کی اور مصر فوجی کونسل کو شفاف الیکشن کرانا پڑے، اخوان جیت گئی اور ڈاکٹر مرسی صدر بن گئے۔ میں نے اس وقت اپنے کالم میں لکھا تھا مقتدر قوتیں کس طرح اخوان کی حکومت برداشت کرینگے جسے وہ القاعدہ کی ماں تصور کرتی ہیں۔ اسامہ اور الظواہری اخوان کے تربیت یافتہ ہیں، ان کی صفوں میں شامل عرب نوجوان اخوان کے فلسفے سے ہی متاثر ہیں وہ کس طرح القاعدہ کیلئے میدان کھلا چھوڑ دیں گے، یہ محض نظروں کا دھوکہ ہے۔ نامساعد حالات میں اخوان کو اقتدار دے کر اسے ہمیشہ سے سیاست سے باہر رکھنے کی سازش کی گئی تھی مگر اتنے مختصر عرصے میں اخوان کو اقتدار سے نکال باہر پھینکنا کسی شارٹ ٹرم پروجیکٹ کا حصہ معلوم ہوتا ہے ۔صدر مرسی کے خلاف لاکھوں کا احتجاج اور اب سنڈے کو حق میں بھی لاکھوں کا احتجاج مصریوں کی احتجاجی نفسیات کا مظہر ہے جو خارزار سیاست کی تربیت کا ایک موڑ ہے۔مصر کا یہ منظرنامہ پاکستان کے1977ء کے سیاسی حالات کا پر تو نظر آتا ہے ۔ بھٹو کے خلاف بھی لاکھوں کا احتجاج اور گرفتاری پر بھی لاکھوں کا احتجاج ،یوں نظر آتا ہے مصر پاکستانیوں کے پاؤں پر پاؤں رکھے چلا آ رہا ہے۔دعا گو ہوں جنرل ابوالفتح، جنرل ضیاء الحق سے مماثل نہ ہوں مگر میری باریک بیں نگاہیں یہاں بھی بہت سی مماثلتیں دیکھ رہی ہیں ۔ جنرل ضیاء الحق اور جنرل فتح کے کیریئر میں مماثلتیں ہیں خدا نہ کرے مرسی اور بھٹو کے انجام میں بھی مماثلت ہو۔
تازہ ترین