• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج کے کالم کے مختلف موضوعات ہیں۔ بالآخر اوگرا کے سابق چیئرمین توقیر صادق پاکستان آ ہی گئے اپنی مرضی سے نہیں بلکہ زبردستی واپس لایا گیا ہے۔ قانون جیت گیا، سازشی عناصر اور توقیر صادق کی پشت پناہی کرنے والے ہار گئے۔ اگر سپریم کورٹ اس 83/ارب کے اسکینڈل میں بار بار حکم جاری نہ کرتی اور دلچسپی نہ لیتی کہ اس کے احکامات پر عملدرآمد ہو توقیر صادق کو کبھی بھی پاکستان نہ لایا جاتا ۔ ایک سال سے زیادہ عرصہ تک گزشتہ حکومت حیلے بہانوں سے کام لیتی رہی اور عدالتی احکامات کی دھجیاں اڑاتی رہی تاکہ کسی طرح توقیر صادق کو قانون کے شکنجے سے بچایا جاسکے۔ آخر حکومت نے ایسا کیوں کیا، بہت سی وجوہات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ پاکستان پیپلزپارٹی کے ایک اہم لیڈر کے قریبی رشتہ دار ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اتنے بڑے مالی فراڈ میں وہ اکیلے ہی ملوث نہیں تھے لہٰذا سرتوڑ کوشش رہی کہ توقیر صادق کو واپس پاکستان نہ لایا جائے ورنہ وہ اور ان کے سارے ساتھی عدالتی کٹہرے میں ہوں گے۔ پاکستان کی تاریخ میں اس کیس کی مثال دی جاسکتی ہے کہ کیسے وقت کی حکومت عدالتی احکامات کو ماننے سے انکار کرتی رہی باوجود اس کے کہ سپریم کورٹ بار باراس پر زور دیتی رہی کہ توقیر صادق کو بیرون ملک سے واپس پاکستان لایا جائے ۔ ایف آئی اے اور نیب لگا تار عدالت کے عتاب پر بھی ٹس سے مس نہ ہوئے اور حکومت کے گھر کی لونڈی کی طرح کام کرتے رہے ۔
عدالت کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے ایف آئی اے اور نیب کی کئی ٹیمیں توقیر صادق کو واپس پاکستان لانے کے لئے دبئی بھی گئیں مگر خالی ہاتھ ہی لوٹیں۔ وہ ایگزیکٹو کے اشارہ پر ناچتی رہیں اس وقت تک جب تک کہ نئی حکومت معرض وجود میں نہ آگئی۔اب تو ایف آئی اے کے پاس کوئی چارہ ہی نہیں رہا تھا کہ وہ توقیر صادق کو پاکستان لائے۔ ہر ملزم کی طرح توقیر صادق نے بھی احتساب عدالت کے سامنے پہلی پیشی پر ہی جرم سے انکار کیا۔ ان کے بھائی کا یہ کہنا کہ توقیر صادق ملک سے فرار اس لئے ہوئے کہ ان کی جان کو خطرہ تھا، سمجھ سے بالاتر ہے ۔ یہ بات پہلے کبھی بھی سامنے نہیں آئی بلکہ انہیں تو اتنی حکومتی سرپرستی حاصل تھی کہ باوجود اس کے ان کا نام عدالتی حکم پر ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر ڈالا گیا تھا وہ پھر بھی ملک سے باہر چلے گئے ۔یہ صرف اس لئے ممکن ہوا کہ وزارت داخلہ اور اس کے تمام ماتحت ادارے بشمول امیگریشن اور ایف آئی اے نے انہیں ہر طرح سے تحفظ فراہم کیا۔ عدالت عظمیٰ کے حکم پر ان کا پاسپورٹ بھی منسوخ کر دیا تھا ۔ یہ تو عدالت کے فیصلے سے معلوم ہو گا کہ توقیر صادق مجرم ہیں یانہیں لیکن اگر ان کے ہاتھ اتنے ہی صاف تھے جتنا وہ دعویٰ کر رہے ہیں تو پھر انہیں ملک سے بھاگنے کی کیا ضرورت تھی۔ مزید یہ کہ جب عدالت ایک سال سے زیادہ عرصہ تک بار بار حکم جاری کرتی رہی وہ کیوں اس کے سامنے پیش نہیں ہوئے اور وہ کیوں دبئی میں رہے ۔ انہیں تو چاہئے تھا کہ وہ فوراً واپس پاکستان آتے، عدالتی پراسیس کا حصہ بنتے اور اپنی بے گناہی ثابت کرتے ۔جیسے وہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے احکامات کو نظر انداز کرتے رہے ظاہر کرتاہے کہ دال میں کچھ ضرور کالا ہے۔
ہمیں مان لینا چاہئے کہ یا ہماری مجرمانہ غفلت تھی یا ناکامی یا ہم حملہ آوروں سے ملے ہوئے تھے یا ہماری صلاحیت ہی نہیں تھی کہ ہم حملے کو روک سکتے مگر ہم حسب معمول خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں تاکہ طوفان خود ہی وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہو جائے ۔ ایبٹ آباد میں چھپے اسامہ بن لادن پر امریکی نیوی سیلز نے حملہ کر کے ہلاک کیا تو پاکستان کے سیکورٹی اداروں کی نالائقی کھل کر سامنے آگئی۔
کچھ نے کہا کہ ہمارے ریڈار سو رہے تھے،کچھ نے دلیل دی کہ ہماری اہلیت ہی نہیں تھی کہ ہم حملہ آور ہیلی کاپٹر کو ٹریس کر سکتے ہیں مگر حکومتی سطح پر کسی بھی فرد یا ادارے پر ذمہ داری نہیں ڈالی گئی ۔ اگر ایسا کیا جاتا اور کچھ کو سزا دی جاتی تو قوم کافی حد تک مطمئن ہو جاتی مگر ہمارے ہاں احتساب کا رواج ہی نہیں ہے خصوصاً طاقتور اداروں اور افراد کا۔ جب سیکورٹی اداروں کی بات آتی ہے تو قومی مفاد کا سہارا لیا جاتا ہے۔
قوم کو معلوم ہی نہیں کہ او بی ایل کیسے کئی سال تک بغیر سیکورٹی اداروں کے علم کے ایبٹ آباد میں چھپا رہا جبکہ نہ صرف پرویز مشرف بلکہ ان کے تمام ساتھی دن رات یہ کہتے رہے کہ او بی ایل یا تو مر چکا ہے یا افغانستان میں روپوش ہے اور یہ کہنا کہ پاکستان کی کسی ایجنسی نے اسے پناہ دے رکھی ہے قطعی طور پر غلط ہے ۔ اب جب کہ جسٹس (ر) جاوید اقبال کی سربراہی میں بننے والے کمیشن کی رپورٹ کے کافی حصے منظر عام پر آچکے ہیں حکومت کو چاہئے کہ انہیں سرکاری طور پر جاری کر دے ۔ اس سے نہ صرف حکومت بلکہ سیکورٹی اداروں کو بھی کچھ سیکھنا چاہئے تاکہ آئندہ ایسے واقعات سے بچا جاسکے اور پاکستان کا نام مزید بدنام نہ ہو ۔ ساتھ ساتھ حکومت کو چاہئے کہ وہ ان افراد اور اداروں کا بھی محاسبہ کرے جنہیں اس رپورٹ میں ذمہ دار قرار دیا گیا ہے ورنہ یہ رپورٹ بھی گزشتہ بے شمار رپورٹوں کی طرح سرکاری ریکارڈ کا حصہ بن جائے گی اور گلتی سڑتی رہی گی ۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم بڑے زور شور سے کمیشن اور کمیٹیاں تو بنا دیتے ہیں مگر ان کی سفارشات پر عملدرآمد نہیں کرتے ۔کمیشن بنانے کا مقصد سوائے اس کے کچھ نہیں ہوتا جبکہ وقتی طور پر عوام کے جذبات کو ٹھنڈا کیا جائے۔
یہ مقصود نہیں ہوتا کہ کمیشن کی رپورٹ سے کچھ سیکھنا ہے۔ ہمارے سیاستدان امریکہ کی مثال تو بڑے شوق سے دیتے ہیں مگر وہاں نائن الیون کے واقعہ کے بعد بننے والے کمیشن کی مفصل رپورٹ پر عمل کیا گیا، سیکورٹی اداروں کو اوورہال کیا گیا اور ایک ایسا نظام وضع کیا گیا کہ امریکہ کو آئندہ ایسی دہشت گردی سے نجات مل جائے۔ بلاشبہ امریکہ اس مقصد میں کامیاب ہوا ہے۔ اگر ہم بھی کچھ اس طرح کر لیں تو امید کی جاسکتی ہے کہ ہمارے کچھ مسائل ضرور حل ہو جائیں گے۔ ورنہ ہم سوائے رونے پیٹنے کے کچھ نہیں کر سکیں گے۔
تازہ ترین