• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: ہارون مرزا۔۔۔راچڈیل
پاکستان میں برسر اقتدار پارٹی تحریک انصاف نے گلگت بلتستان کے بعد آزاد کشمیرقانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں بھی واضح طور پر کامیابی حاصل کر لی جو اب بغیر کسی اتحاد کے حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے، آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کی 45 میں سے 44 نشستوں کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج سامنے آ چکے ہیں جس کے مطابق تحریک انصاف نے 25 ،پیپلز پارٹی نے 11 اور مسلم لیگ ن نے 6 نشستیں حاصل کی ہیں، آزاد کشمیر الیکشن کیلئے پی ٹی آئی ، ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے امیدواروں میں بھر پور مقابلے کی توقع کی جا رہی تھی مگر تحریک انصاف کو واضح برتری مل گئی، جموں کشمیر پیپلز پارٹی اور مسلم کانفرنس نے بھی ایک، ایک نشست پر کامیابی حاصل کر کے اپنی نمائندگی یقینی بنا لی ہے ،الیکشن میں پولنگ کا ٹرن آؤٹ 58 فیصد رہا جب کہ 2016 کے عام انتخابات میں یہ شرح 65 فیصد تھی ،آزادکشمیر قانون ساز اسمبلی کے انتخابات 2021 میں پاکستان تحریک انصاف نے سب سے زیادہ 6 لاکھ 13 ہزار 590 ووٹ حاصل کئے جس کی شرح 32.5 فیصد بنتی ہے، پاکستان مسلم لیگ (ن) نے 4لاکھ 91ہزار 91 ووٹ لئے جس کی شرح 25.65 بنتی ہے، پاکستان پیپلز پارٹی نے 3لاکھ 49 ہزار895 ووٹ لئے جس کی شرح 18.28 فیصد جب کہ آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس نے ایک لاکھ 53 ہزار 861 ووٹ حاصل کئے جس کی شرح 8.4 فیصد بنتی ہے، آزاد امیدواروں نے ایک لاکھ 33 ہزار 136 ووٹ حاصل کئے اور ان کی شرح 6.95 فیصد بنتی ہے، تحریک لبیک آزاد کشمیر نے 94 ہزار 487 ووٹ حاصل کئے جس کی شرح 4.94 بنتی ہے، جہاں تحریک انصاف اپنی کامیابی کا جشن منا رہی ہے، وہیں مسلم لیگ ن کی مرکزی رہنما نائب صدر مریم نواز نے انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں نے نتائج تسلیم نہیں کیے ہیں اور نہ کروں گی میں نے تو 2018 کے الیکشن کے نتائج بھی تسلیم نہیں کیے اور نہ اس جعلی حکومت کو مانا ہے،دوسری طرف آزاد کشمیر کے انتخابی نتائج پر وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہا کہ کشمیر انتخابات میں تحریک انصاف کی شاندارکامیابی عام آدمی کا وزیراعظم عمران خان پرغیرمتزلزل اعتماد کا اظہار ہے، اپوزیشن اپنی قیادت اور سیاست دونوں پر نظرثانی کرے، آصف زرداری اور نواز شریف کو لوگ قبول کرنے کو تیار نہیں،متبادل قیادت کا وقت ہے، پاکستان مخالف قوتوں سے ملاقاتیں کرنے والوں کا کوئی مستقبل نہیں، وفاقی وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان علی امین گنڈاپور نے کہاکہ آزاد کشمیر کے عوام نے مودی کے یاروں کو مسترد کر کے بھارت کو واضح پیغام دیا ہے، کپتان کا بھرپور ساتھ دینے پر آزاد کشمیر کے عوام کا شکریہ ادا کرتے ہیں،کشمیریوں نے ثابت کر دیا کہ عمران خان ان کا سفیر اور حقیقی رہنما ہے ، آزاد کشمیر کے عوام کی جانب سے دئیے گئے مینڈیٹ کا بھرپور احترام کریں گے ۔فاروق حیدر کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے انہوں نے کہا پانچ سال وزارت عظمیٰ کا مزہ لوٹے والوں نے کشمیری عوام کی تضحیک کی ہے، وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے نتائج پر نواز شریف کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ نوازشریف ساری زندگی لگے رہیں اقتدار کا منہ نہیں دیکھ سکتے ، آزاد کشمیرمیں تنہا پی ٹی آئی حکومت بنانے جارہی ہے، پہلے کہا تھا کہ اپوزیشن الیکشن ہارنے کے بعد رونا دھونا ڈالے گی، جلسوں سے ووٹ کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا، مریم نواز پہلی بار کشمیر گئی تھیں اور جلسوں میں تقریریں کرکے اپنی فتح کا جشن منارہی تھیں، اب یہ لوگ 2023 کے الیکشن میں بھی یہی رونا دھونا کریں گے، آئندہ انتخابات میں پوری کوشش ہوگی کہ سندھ میں بھی پی ٹی آئی کی حکومت ہو،آزاد کشمیر اسمبلی کی 45 عمومی نشستوں پر انتخابات کے بعد اب سیاسی جماعتوں نے مخصوص نشستوں کے لیے صف بندی کرنا شروع کردی ہے ،آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی 53 ارکان پر مشتمل ہوتی ہے جن میں سے 45 عمومی نشستیں ہیں جن پر براہ راست پولنگ ہوتی ہے ایوان میں خواتین کے لیے 5 جب کہ علماء و مشائخ، ٹیکنو کریٹ اور اوورسیز کشمیریوں کی ایک، ایک نشست مخصوص ہے خواتین کی 5 نشستوں پر انتخاب کے لئے 9،9 ارکان اسمبلی کے پینل بنیں گے، عددی اعتبار سے پی ٹی آئی خواتین کی 3 جب کہ پیپلز پارٹی کم از کم ایک نشست پر کامیاب ہوجائے گی، خواتین کی ایک نشست پر اگر پیپلز پارٹی،ن لیگ، مسلم کانفرنس اور جے کے پی پی اتفاق کر لیں تو ایک سیٹ جیت سکتی ہیں،اسمبلی میں علما و مشائخ،ٹیکنو کریٹ اور اوورسیز کشمیریوں کی ایک ایک نشست ہے، جن پر پورا ایوان ووٹ دے گا،اس بات کا قوی امکان ہے کہ عددی اکثریت کی بنیاد پر تحریک انصاف تینوں نشستیں بھی جیت لے گی اب اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اس پر سارے سیاسی پنڈتوں کی بھر پور نظر ہے اب اپوزیشن کے خدشات کیا رنگ لاتے ہیں اور پی ٹی آئی مستقبل میں آزاد کشمیر میں بھی حکومت بنا کر کشمیریوں کے حقوق کیلئے کیا اقدامات کرتی ہے یہ تو وقت ہی طے کرے گا تاہم مخصوص نشستوں پر امیدواروں کے چنائو کیلئے دوڑ شروع ہو چکی ہے، مقدر کا سکندر کون ٹھہرتا ہے یہ آئندہ چند دنوں میں واضح ہوجائے گا۔
تازہ ترین