• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
محترم سید منور حسن صاحب، سلام مسنون! اخبار والوں کی مجبوری ہے کہ وہ آپ کو امیر جماعت اسلامی لکھتے ہیں، حالانکہ امیر کا لفظ صرف امیر العظیم پر جچتا ہے، آپ اگرچہ بلحاظ عہدہ امیر جماعت اسلامی ہیں لیکن میرا بس چلے تو میں آپ کو ہمیشہ ”غریب جماعت اسلامی“ لکھوں کیونکہ میں جب سے آپ کو دیکھ رہا ہوں، امارات کی حالت میں کبھی نہیں دیکھا۔ میں نے سنا ہے آپ کراچی کے کسی پوش علاقے کی بجائے غریبوں کے علاقے میں دوچار مرلے کے گھر میں رہتے ہیں۔ یہ سنی سنائی بات ہے باقی واللہ العلم! میری معلومات بہرحال یہی ہیں تو برادرم رزق حلال کے ”آفٹر افیکٹس“ تو برداشت کرنا ہی پڑتے ہیں۔ امیر ”جماعت اسلامی بننے کے بعد تو آپ کو اس لفظ کی لاج رکھنا چاہئے تھی، خیر مجھے کیا، آپ جانیں، آپ کے بچے جانیں۔ جن کا ”حق“ آپ نے مارا ہے!
دیگر احوال یہ ہے کہ آپ کسی زمانے میں بہت بذلہ سنج ہوتے تھے اور رونق محفل سمجھے جاتے تھے۔ آپ بعض واعظوں اور ذاکروں کی تقریروں کی پیروڈی کرکٹ کی کومنٹری کی طرز پر کیا کرتے تھے اور سننے والوں کے ہنستے ہنستے پیٹ میں بل پڑ جاتے تھے، مگر اب آپ بہت سنجیدہ ہو گئے ہیں، لوگ آپ سے آپ کے عہد جوانی کی بذلہ سنجی توقع تو نہیں رکھتے، البتہ عید شبرأت پر ہی سہی آپ کے پُر نور چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ دیکھنے کے تو بہرحال تمنائی ہیں، لیکن اس کے برعکس آپ کے مزاج میں چڑچڑا پن آتا اور بڑھتا چلا جا رہا ہے، آپ ٹی وی اینکر پرسنز کے عام سے سوالات پر بھی جھنجلاجاتے ہیں اور ایک آدھ دفعہ تو غالباً انٹرویو کے دوران ہی اٹھ کر چلے بھی گئے ہیں، تاہم مجھے اس کی وجہ سمجھ میں آتی ہے آپ نے عمر بھر پاکستان میں اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد کی ہے، اس کے لئے آپ نے آمروں سے بھی سمجھوتا کیا، بعض تاریخی حقائق سے انکار ہی، مگر آپ کی جدوجہد کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکی۔ آپ پاکستانی عوام کو اپنا ہم نوا نہیں بنا سکے۔ میں اس کی سیاسی وجوہ بیان نہیں کروں گا۔ یہ کام مجھ سے کہیں بہتر لوگ زیادہ بہتر انداز میں انجام دے سکتے ہیں۔ میں ذاتی طور پر جماعت اسلامی اور پاکستانی عوام میں دوری کی جو وجہ سمجھتا ہوں وہ میں بیان کئے دیتا ہوں، آپ کو اس سے اختلاف کا حق بہرحال پہنچتا ہے۔
میرے نزدیک پاکستانی مسلمان آپ سے بعض معاملات میں اختلاف رکھتا ہے، معاف کیجئے، میں شروع میں یہ بیان کرنا بھول گیا کہ آپ کی وساطت سے میری مخاطب وہ تمام دینی جماعتیں ہیں جو گزشتہ برس ہا برس سے اسلامی نظام کے لئے جدوجہد کر رہی ہیں مگر انہیں کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ پاکستانی مسلمان نماز روزے کا بھی پابند ہے عمرے اور حج بھی ذوق و شوق سے ادا کرتا ہے اور دیگر عبادات خصوصاً ماہِ رمضانمیں اس کی دلچسپی ان عبادات میں دیدنی ہوتی ہے، لیکن پاکستان سمیت دنیا کے ہر ملک کا مسلمان صدیوں سے موسیقی کا دلدادہ رہا ہے۔ اسے رقص سے بھی دلچسپی ہے، شادی بیاہ کے مواقع پر تو گھریلو عورتیں بھی ناچتی گاتی ہیں، مگر یہ سب کچھ حرام قرار دیا جا چکا ہے، حتیٰ کہ ساکن تصویر حرام اور متحرک تصویر حلال ہے کہ ٹی وی پر اپنی آمد کو حرام کیسے قرار دیا جا سکتا ہے آپ کی ذیلی تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ نے یونیورسٹیوں خصوصاً پنجاب یونیورسٹی میں صوفیانہ کلام پر مشتمل محفل موسیقی پر بھی ڈنڈوں سے حملہ کر دیا۔ وہاں کبھی کوئی ثقافتی تقریب نہیں ہونے دی۔ مخلوط تعلیم کے باوجود اگر کوئی طالب علم کسی طالبہ سے بات کرتا پایا جاتا تھا تو اسے شدید وارننگ دی جاتی تھی۔ خود جماعت کا بھی مجموعی مزاج یہی ہے۔ آپ نے تمام تفریحات کو حرام قرار دے دیا خدا کے لئے یہ نہ کہیں کہ یہ چیزیں طے شدہ حرام ہیں کیونکہ اسی ضمن میں بہت سے علماء اور صوفیاء کی رائے مختلف ہی ہے، کاش آپ ”حرام“ تفریحات کا کوئی ”حلال“ مترادف ہی بتا دیتے۔ عید کے روز صاف ستھرے کپڑے پہننا؟ سویاں کھانا؟ ایک دوسرے سے گلے ملنا آپ کہیں گے اس کے علاوہ گھوڑ سواری، گتکہ کھیلنا، کرکٹ اور فٹ بال وغیرہ کھیلنا بھی حلال ہیں، مگر ان میں سے تو کوئی گیم بھی سب کو نہیں آتی، مذہبی جماعتوں نے تو لڈو کھیلنے کی اجازت بھی نہیں دی، محترم سید صاحب، آج دنیا ایک گلوبل ویلج ہے ایک دوسرے کے کلچر کے اثرات سے بچا نہیں جا سکتا، چنانچہ آپ دنیا کے کسی اسلامی ملک مصر اور ترکی سمیت کہیں بھی چلے جائیں وہ ”اسلام“ آپ کو کہیں نظر نہیں آئے گا، جس کے نفاذ کی کوشش پاکستان میں کی جاتی رہی ہے اور ہر دفعہ ناکام ہوتی ہے۔ آپ اگر چاہتے ہیں کہ عوام میں آپ کی پذیرائی ہو تو انہیں فاسق و فاجر سمجھنا چھوڑ دیں اور اگر ہو سکے تو الف لیلہ کی کہانیاں بھی پڑھ لیں جو اس دور کے مسلمانوں کی عمومی زندگی کی عکاس ہیں، جب آدھی دنیا میں اسلامی حکومتیں قائم تھیں اور جس کا خواب ہم آج بھی دیکھتے ہیں اور اب موسیقی حرام، مصوری حرام، مجسمہ سازی حرام اس کے بعد فنون لطیفہ میں سے بچتا کیا ہے، صرف شاعری اور شاعری بھی صرف وہ جو حمد و نعت پر مشتمل ہو؟
میرے ذاتی خیال میں مولانا مودودی کے دور میں جماعت اسلامی متذکرہ حوالے سے اتنی Rigid نہیں تھی جتنی اب ہو گئی ہے۔ خود مولانا بھی (جن کا میں آج بھی بہت مداح ہوں) ”خلافت و ملوکیت لکھنے کے بعد دفاعی پوزیشن میں آ گئے تھے۔ اس کے بعد انہوں کوئی متنازعہ بات نہیں کی۔ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ ایسے بہت سے لوگ جو ان اشقال کو حرام قرار دیتے ہیں۔ اپنے گھروں میں ان سے جی بہلاتے نظر آتے ہیں۔ اس کے لئے ٹی وی سیٹ صرف اپنے کمرے میں رکھنا پڑتا ہے اور بعض تو یہ تکلف ہی روا نہیں رکھتے۔ تو برادر مکرم میں خدانخواستہ یہ نہیں کہہ رہا کہ آپ ان چیزوں کو حلال قرار دے ڈالیں جنہیں آپ صدق دل سے حرام سمجھتے ہیں۔ میں تو صرف یہ بتانے کی کوش کر رہا ہوں کہ عوام اس گھٹن کے خوف سے آپ کے قریب نہیں آتے جس کا خدشہ انہیں آپ کے برسر اقتدار آنے کی صدارت میں محسوس ہوتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ عوام اور آپ کی جماعت بلکہ تمام دینی جماعتوں کے مابین یہ دوری سوچ کے اس بعد المشرقین ہی کی وجہ سے ہے۔
باقی جہاں تک آپ کی ذات گرامی کا تعلق ہے اور آپ کے بہت سے دوسرے ساتھیوں کا، تو ان کی دیانت کی قسم کھائی جا سکتی ہے۔ ان میں سے آپ سمیت تو کئی باقاعدہ درویش منش ہیں اور میں بنیادی اختلافات کے باوجود آپ کی اور ان سب کی بہت قدر کرتا ہوں اور میرے دل میں آپ سب کے لئے بہت احترام ہے، امید ہے آپ میرے اس خط کو اسی اسپرٹ میں لیں گے جس اسپرٹ سے میں نے یہ خط لکھا ہے… واضح رہے میں نے اس مسئلے کے صرف ایک پہلو کو صرف چھیڑا ہی ہے، کسی دوسری طرف میں نکلا ہی نہیں آپ سے باقی باتیں اگلے کالم میں ہوں گی! والسلام آپ کا مخلص
عطاء الحق قاسمی#
اور آخر میں ظفر اقبال کی ایک تازہ ”شرعی غزل:
اپنے ہونے کا بہانہ سا بنایا ہوا ہے
ہم کہیں بھی نہیں، اندازہ لگایا ہوا ہے
بات کیا ہے کہ بھرے جاتے ہیں قسطیں اب تک
ہم نے یہ قرض اگر کب کا چکایا ہوا ہے
کوئی منظر، کوئی تصویر اُبھرتی کیونکر
ہم نے یہ پردہ اگر خود ہی گرایا ہوا ہے
خود تو ہم اپنی مدد کے لئے تیار نہیں
ہاتھ بھی اس کے لئے ہم نے بڑھایا ہوا ہے
بیچ میں چھوڑ بھی رکھا ہے جسے تنگ آ کر
ہم نے اس کام کا بیڑہ بھی اٹھایا ہوا ہے
جیسے از خود ہی پہنچنا ہو کہیں منزل پر
سیدھا رستہ تبھی آگے سے ہٹایا ہوا ہے
اپنی یہ شان بغاوت کوئی دیکھے آ کر
منہ سے انکار بھی ہے، سر بھی جھکایا ہوا ہے
ان عزیزوں میں ابھی صلح بھی کروانی ہے
کچھ دنوں سے جنہیں آپ میں لڑایا ہوا ہے
مارتے ہیں ہمیں باہر سے بھی لوگ آ کے، ظفر
ہم نے خود بھی یہی بازار سجایا ہوا ہے
تازہ ترین