• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں ایک طبقہ اس امر پر تاسف کا اظہار کرتا ہے کہ دنیا کے 194 ملکوں میں کوئی ایسا شعبہ نہیں جس میں پاکستان سرفہرست ہونے کا دعویٰ کر سکے۔ ان اصحاب کو مبارک ہو کہ عالمی یوم مہاجرین منانے والے ادارے نے پاکستان کو پناہ گزینوں کا سب سے بڑا ملک قرار دے دیا ہے، جہاں ایک کروڑ پناہ گزین برسوں سے آباد ہیں اور ہمارے معاشی وسائل کو بے دریغ استعمال کر رہے ہیں۔ یہ ہماری آبادی کے 5 فیصد سے زائد ہیں۔ ان میں اکثریت افغانیوں کی ہے جبکہ اس ملک کے صدر ہمارے شکرگزار ہونے کے بجائے ہم پر الزام تراشی میں پیش پیش رہتے ہیں۔ اسی ہفتے ان کے قیام میں اضافہ کردیا گیا ہے۔ پاکستان کی بڑھتی ہوئی مہنگائی میں ان کے ناجائز قیام کو دخل ہے۔ اس مسئلے سے تو سب واقف ہیں کہ تعلیمی شعبے میں ہمارا ریکارڈ کچھ اچھا نہیں لیکن حالیہ ایک عالمی سروے کے مطابق پاکستان 120 ملکوں میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی درجہ بندی میں نچلی ترین سطح کے دوسرے نمبر پر ہے۔ آخری نمبر نائیجیریا کا ہے۔
اس خبر سے بے نیاز ہوکر آج اردو، انگریزی اخباروں میں تعلیم پر متعدد مضامین آ رہے ہیں۔ آیئے دیکھیں ملک میں تعلیم کی صورتحال کیا ہے اور اس پر وفاق اور صوبے کس قدر وسائل صرف کر رہے ہیں۔ ملک میں تعلیم کے مصارف کی ذمہ داری بٹی ہوئی ہے۔ اعلیٰ تعلیم کی ذمہ دار وفاقی حکومت ہے۔ پرائمری، سیکنڈری اور ہائر ایجوکیشن کی ذمہ دار صوبائی حکومتیں ہیں۔ 2013-14ء کے سالانہ بجٹ میں وفاقی حکومت نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے لئے 39 ارب روپے مختص کئے ہیں جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 7 ارب زائد ہیں۔ کمیشن اس رقم سے 69 یونیورسٹیوں اور اداروں کو مالی اعانت کرے گا۔ 10.14 ارب سے تیکنیکی اداروں کو گرانٹس دی جائیں گی۔ مخصوص اداروں کی اعانت کے لئے علیحدہ رقم ہے۔ کمیشن کا ترقیاتی بجٹ 16.41 ارب ہوگا اس طرح وفاق سے تعلیمی شعبے میں 57 ارب روپے کی رقم صرف کی جائے گی۔
دنیا میں وفاق یا مرکز کے علاوہ ریاستوں یا صوبوں کے بجٹ ایک ہی روٹین کے ہوتے ہیں جبکہ اکثر صوبوں میں مرکز کی مخالف پارٹیاں برسراقتدار ہوتی ہیں۔ اس سال ہمارے وفاق اور پنجاب میں ایک ہی سیاسی جماعت برسراقتدار ہے۔ بلوچستان میں بھی اسی کا اثر ہے۔ باقی دو صوبوں میں مخالف جماعتوں کی حکومتیں ہیں، صرف سندھ نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کے سلسلے میں مرکز سے اختلاف کیا ہے۔ صوبوں کے بجٹوں کا مقابلہ تو نہیں کیا جا سکتا کیونکہ آمدنیوں میں بڑا اختلاف ہے۔ پنجاب کا بجٹ 931.6 ارب کا ہے جس میں 25 ارب روپے تعلیم کے لئے رکھے گئے ہیں۔ سندھ کا بجٹ 6 کھرب 17 ارب کا ہے۔ اس میں 35 ارب روپے کی رقم تعلیم کے لئے مخصوص کی گئی ہے۔ یوں تو پاکستان کے تمام دیہی اور خصوصاً دور افتادہ علاقوں میں گھوسٹ اسکولوں کی کوئی کمی نہیں مگر سندھ میں حالت سب سے زیادہ خراب ہے ۔ سندھ کے وزیر تعلیم کے مطابق صوبے میں 48919 سرکاری اسکول ہیں ان میں 44500 پرائمری، 2500 سیکنڈری، 1250 ہائر سیکنڈری، 246 کالج اور 261 ٹیکنیکل ادارے ہیں۔ ان میں ایک لاکھ 45 ہزار اساتذہ کام کر ہے ہیں۔ بیشتر اسکولوں کی عمارتوں میں وڈیروں یا بڑے زمینداروں کے مہمان خانے، اوطاق، مویشی خانے یا گودام بنے ہوئے ہیں، جو اسکول کارگزار ہیں ان کی زبوں حالت کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ 27 ہزار اسکولوں میں بجلی نہیں۔ 24 ہزار اسکولوں میں پینے کا صاف پانی میسر نہیں، 20 ہزار اسکولوں میں بیت الخلا کی سہولت موجود نہیں اور 19 ہزار چاردیواری سے محروم ہیں۔ ایسی صورت میں کھیلوں کے میدانوں کا تصور کرنا محض خوش فہمی ہوگی لہٰذا جہاں نام نہاد پرائیویٹ اسکول موجود ہیں وہاں استطاعت رکھنے والے اپنے بچوں کو ان میں داخل کرا دیتے ہیں۔ سندھ میں خواندگی 59 فیصد ہے اور 2015ء تک اس کو 88 فیصد تک پہنچانے کا منصوبہ ہے۔ کے پی کا بجٹ 344 ارب کا ہے اور یہاں 24 ارب تعلیم پر خرچ کیا جائے گا۔ نیز صوبے میں تعلیم اور توانائی میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی۔ اس کی تفصیل معلوم نہ ہوسکی۔ بلوچستان میں 169.84 ارب کے بجٹ میں 34.4 ارب تعلیم کے لئے مختص کئے گئے ہیں۔ ان دونوں صوبوں میں طالبان کے بعض گروہ تعلیم نسواں کے خلاف ہیں اور وہ لڑکیوں کے اسکولوں پر حملے کرتے رہتے ہیں۔ مگر گاڑی چل چکی ہے۔ اس اس کو روکا نہیں جاسکتا البتہ اس کی رفتار کو سست کیا جا سکتا ہے۔ تعجب ہے کہ اتنی کثیر رقم تعلیمی شعبے کے لئے مخصوص کئے جانے کے بعد نہ تو خواندگی کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور نہ معیار تعلیم بلند ہو رہا ہے۔ انگریزی اور اردو میڈیم دونوں کے فارغ التحصیل طلباء کو نہ تو ڈھنگ کی انگریزی آٰتی ہے اور نہ اردو۔ یہ مسئلہ اہم توجہ کا محتاج ہے۔جہاں تک اعلیٰ تعلیم کے شعبے کا تعلق ہے تو ایسی اطلاعات ہیں کہ پاکستانی یونیورسٹیوں میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ چند سال تک ریسرچ کے موضوعات میں اردو شاعری، اردو کے شاعروں اور ادیبوں کی شخصیت اور فن جیسے موضوعات پر مقالے لکھے جاتے رہے ہیں لیکن اب دوسرے شعبوں خصوصاً سائنس کے موضوعات پر کام ہورہا ہے جو قابل تحسین ہے۔ تیسرے ہماری یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں کا معیار پست تھا اور دنیا کی سرفہرست منتخبہ یونیورسٹی میں ہماری کسی یونیورسٹی کا نام نہیں ہوتا تھا مگر اب چند یونیورسٹیوں کے نام آنے لگے۔ گو درجہ زیادہ قابل تعریف نہیں۔ اگر ان کے طلباء اور اساتذہ نے محنت و ریاضت سے اپنے تحقیقی سلسلوں کو جاری رکھا تو ان کا نام چند سالوں میں عالمی کامیاب یونیورسٹیوں میں آنے لگے گا لیکن سب سے اہم پرائمری تعلیم ہے کہ خشت اول یہاں رکھی جاتی ہے۔ پکڑ دھکڑ یا دکھاوے کی خاطر دیہات اور شہروں میں بچے پہلی، دوسری جماعتوں میں داخلے تو لے لیتے ہیں مگر جب اسکول چھوڑ دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ملک میں ناخواندہ بچوں کا تناسب بڑھ رہا ہے، خالی بیانات یا افسوس کا اظہار کرنے سے مسئلہ نہیں سلجھے گا، اس میں نیک نیتی اور خلوص سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
تازہ ترین