• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغان خانہ جنگی پاکستان آنے کا خطرہ، ہمارے پشتون اس کی طرف راغب ہوجائیں گے، امریکا نے معاملہ بگاڑا، اڈے دینے سے دہشت گردی کا نشانہ بنیں گے، عمران خان

اڈے دینے سے دہشت گردی کا نشانہ بنیں گے، عمران خان


اسلام آباد(ایجنسیاں‘ٹی وی رپورٹ) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ افغانستان میں خانہ جنگی ہوئی تو پاکستان میں بھی سول وار کا خدشہ ہے۔یہاں بھی کثیر تعداد میں پشتون ہیں جو اس طرف راغب اورخانہ جنگی کا شکار ہوسکتے ہیں لیکن ہم ایسا کبھی نہیں چاہیں گے‘پاکستان مزید افغان مہاجرین کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا‘10ہزار جنگجو افغانستان بھیجنےکا الزام احمقانہ ہے، افغانستان اس کے ثبوت کیوں نہیں دیتا؟ 

پاکستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں نہیں ، افغان مہاجرین کے کیمپ ہیں‘ امریکا نے افغانستان کا معاملہ بہت بگاڑدیاہے ‘ امریکا افغان مسئلے کا حل نکالنے میں ناکام رہااور افغانستان میں برے طریقے سے پھنس چکا ہے‘اب ہم کسی تصادم کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔

امریکا اور نیٹو اب افغانستان میں سودے بازی کی پوزیشن میں نہیں رہےکیونکہ اب طالبان کو سیاسی حل کے لیے مجبور کرنا مشکل ہے، وہ خود کو فاتح سمجھ رہے ہیں ‘اشرف غنی کو الیکشن ملتوی کر کے طالبان کو سیاسی دھارے میں لانا چاہیے تھا‘اشرف غنی نے صدر بننے کے بعد طالبان کو مذاکرات کی دعوت دی، طالبان نے اسی وجہ سے مذاکرات سے انکار کر دیا تھا۔

امریکا کو اڈے دینے سے پاکستان دہشت گردی کا نشانہ بنے گا‘افغان مسئلے کے فوجی حل کی مخالفت پر مجھے طالبان خان کانام دیاگیاجبکہ آج امریکا اورنیٹو بھی اسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس معاملے کا کوئی عسکری حل نہیں ‘ پاکستان کا مؤقف بالکل واضح ہے کہ افغان جنگ سے ہمارا کوئی واسطہ نہیں۔آدھے سے زیادہ افغانستان طالبان کے کنٹرول میں ہے۔ 

امریکی نشریاتی ادارے ’’پی بی ایس ‘‘کو انٹرویو میں عمران خان کا کہنا تھا کہ افغانستان پہلے اپنے مہاجرین کو واپس لے پھر پاکستان سے جواب طلبی کرے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم اس سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتے کہ افغانستان کے سیاسی حل کے لیے دباؤ ڈالیں۔

ان کا مزیدکہناتھاکہ جب پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع کی تو ملک میں خودکش حملے ہو رہے تھے‘ ہم نے امریکا کی جنگ لڑ کر اپنی معیشت کا نقصان کیا‘امریکی امداد ہمارے نقصان سے کہیں زیادہ کم ہے، وزیر اعظم نے کہا کہ طالبان امریکا اور افغان قیادت سے بات چیت کے لئے تیار تھے اشرف غنی سے نہیں، اسی وجہ سے مذاکرات ڈیڈ لاک کا شکار ہوتے رہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ پاک امریکا تعلقات میں ہمیشہ کوئی رخنہ رہا ہے، امریکا نے ہمیشہ اس بات پر اصرار کیا ہم آپ کو امداد دے رہے ہیں، پاکستان کو اس جنگ میں استعمال کیا گیا۔

افغانستان میں ایسی حکومت ہونی چاہئے جس میں تمام فریق شامل ہوں، افغانستان میں طویل خانہ جنگی ہوئی تو پاکستان پر دوہرے اثرات کا خدشہ ہے، 30 لاکھ افغان مہاجرین پہلے سے موجود ہیں اور بھی آجائیں گے جبکہ خانہ جنگی پاکستان میں داخل ہوسکتی ہے۔

تازہ ترین