• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فکر فردا … راجہ اکبردادخان
تمام فنکاروں کی مقبولیت جس میں سیاستدان بھی شامل ہیں کا اندازہ ان کے جلوسوں اور کنسرٹ ہال کتنے بھرے ہوئے ہوتے ہیں سے ہی کیا جاسکتا ہے کہ وہ کس حد تک اپنے ساتھ لوگوں کو جوڑے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں بھی بڑے جلسوں کے اہتمام کرنا نہ ہی اتنا آسان ہے اور نہ ہی ا تنا سستا ہے کہ انتخابات کے دوران ہر چند دن بعد ہزاروں افراد کے جلسے منعقد کرلئے جائیں۔انتخابات اور اہم ایشوز پرجہاں سیاسی اور مذہبی قائدین جو پیغامات بانٹ رہے ہوتے ہیں ان کی دلکشی سنجیدگی اور ہردل کو چھونے کی کوئی وجہ لوگوں کو ایک مقام پر اکٹھا کرنے کی اہم ترین وجہ بنتی ہے، 2013ء کے عام انتخابات کے واقعات پر عمران خان کے متعدد بڑے جلسے ماضی قریب کی مثال ہے۔ گلگت بلتستان اور آزادکشمیر کےانتخابات میں تینوں بڑی جماعتوں نے ایک دوسرے سے بڑھ کر کامیاب جلسے کئے اور ریاست کے دونوں حصوں میں اسمبلی ممبران کی تعداد میں وہ کچھ دیکھنے کو نہ نہیں مل سکا جس کی نشاندہی پی پی، ن لیگ اور پی ٹی آئی کے جلسے کر رہے تھے۔ وزیراعظم پاکستان کے کامیاب جلسوں پرزیادہ حیرت نہیں ہونی چاہئے، اقتدار کے مرکز کے اردگرد ہجوم بن جانا ایشیائی سیاست کی پہنچان ہے۔ آزاد کشمیر حالیہ انتخابات میں پیپلز پارٹی نے گیارہ نشستیں جیت کر اپنے مخالفین اور اپنے آپ کو حیرت میں ڈال دیا ہے، جلسے بھی زیادہ تر میڈیم درجہ کے تھے۔یہ جماعت ریاست کے بیشتر حصوں میں منظم بھی نہیں تھی، بلاول بھٹو کا سیاسی تجربہ بھی زیادہ نہیں، تاہم جو چیز ان کی تقاریر کو دوسروں سے منفرد بناتی رہی یہ ہے کہ ان میںبات کو لگی لپٹی کے بغیر عام فہم زبان میں لوگوں کے سامنے رکھ دینے کی اہلیت ہے، لوگوں کو ان کی یہ ادا پسند آئی ہے، انہوں نے میرپور جیسے پوش شہر میں ایک ٹاٹ کے نیچے کھڑے ہو کر تقریر کرکے جو پیغام دیا وہ بھی لوگوں کو پسند آیا۔ پی پی نے عام آدمی کی زندگی کے سمبلز کو اپنی اپروچ میں جگہ دے کریہ کہنے کی کوشش کی کہ یہ جماعت آج بھی پی پی کے پرانے فلسفہ ’’روٹی کپڑا اور مکان‘‘ پر یقین رکھتی ہے، نتائج لوگوں کی تائید کے گواہ ہیں، مریم نواز کے جلسے دوسرے دونوں قائدین سے بڑے تھے، ان کے جلسوں کو سرکاری پروٹوکول تو حاصل نہ تھا مگر عوامی حمایت اور اہم معاملات پر ان کے موقف کی تائید دیکھنے اور سننے کو ملی۔ سابق وزیراعظم کی بیٹی نے جس طرح خود کو ایک شعلہ بیان مقرر اور جماعتی قائد کے طور عوامی عدالت میں پیش کیا ہے ان کا یہ قائدانہ ڈھنگ کشمیری اور پاکستانی عوام کے ایک بڑے طبقہ کے دلوں میں جگہ کئے ہوئے ثابت ہوا ہے، یہی وجہ ہے کہ جلسے مظفرآباد کے ہوں یا پلندری کے ہزاروں کی تعداد میں لوگ ان کی تقاریر سننے آئے ۔سیاست کے طالب علموں کیلئے سوچنے کی بات یہ ہے کہ جلسے بھی دوسروں سے بڑے ہوں اور سیٹس صرف چھ ملیں، ایسا کیوں ہوا ہے معمہ حل کرنے کی ضرورت ہے،تا دم تحریر تک کسی بھی جماعت نے دھاندلی کی تحریری شکایت نہیں کی، میڈیا میں بھی حکومت مخالف بیانیہ آگے نہیں بڑھ سکا کیونکہ سسٹم میں مسلسل بہتری کے باعث دھاندلیوں کا چانس بہت کم ہوگیا ہے، الیکشن کمیشن کا عملہ اور بیورو کریسی جماعتوں کے ہاتھوں استعمال ہونے سے پیچھے ہٹ گئے ہیں اور یہ اچھی پیش رفت ہے۔ہمارے سیاسی نظام کو اس پرتوجہ دینے کی ضرورت ہے کہ جس سے جڑ کر لوگ بڑے عوامی جلسے جلوسوں کا حصہ بن جاتے ہیں، یقیناً بڑے اجتماعات بے وجہ وجود میں نہیں آجاتے مسلم لیگ (ن) نے کشمیر کے حالیہ انتخابات میں مشکل حالات میں حصہ لیا ہے، ان کے بڑے جلسے جلوسوں کی وجہ بڑے میاں صاح ب کی نااہلی کا معاملہ ہے جو حل نہیں ہو پا رہا۔درجن بھر بڑے جلسے کرنے کے بعد مسلم لیگ (ن) کو چھ سے زیادہ نشستیں ملنی چاہئےتھیں مگر ان کی پیپلز پارٹی سے نصف سیٹیں ہمارے نظام سےسوال پوچھ رہی ہیں، آزادکشمیر کے انتخابات میں بالواسطہ یا بلاواسطہ مرکزی حکومت کا عمل دخل ایک حقیقت ہے اور یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی سادہ اکثریت حاصل کرتے ہوئے حکومت سازی کی پوزیشن میں آگئی ہے۔ مخصوص نشستوں پرانتخابات کے بعد حکومت مزید مضبوط ہوجائے گی، پی ٹی آئی وزیراعظم کے جلسوں کے علاوہ زیادہ بڑے جلسے نہیں کرسکی ہے، تاہم مرکز میں حکومت میں ہونے کافیکٹر انہیں اس اسٹیج پرلے آیا ہے جہاں وہ اگلے پانچ برس تک برسراقتدار رہ پائیں گے۔ان انتخابات میں کشمیر پرکم باتیں ہوئیں اور پاکستان کی اندرونی سیاست تمام ماحول پر چھائی رہی، جو غیر مثبت عندیہ ہے، کشمیر پر وزیراعظم کا انتخابات کے آخری حصہ میں بیان مبہم اور غیر واضح ہے، ہماری قومی پوزیشن یہ ہے کہ کشمیر کے مسئلہ کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں میں پنہاں ہے، بھارت کے ساتھ باہمی گفت وشنید پہلے تو خارج ازبحث ہے اور اگر کرنے کی ضرورت بھی پڑے تو بھی تیسرے فریق کی شراکت کے بغیر بے سود ہے، آزاد کشمیر میں ریفرینڈم کرانے کی بات بالکل نئی ہے۔بھارت نے آئین کی شق 370 اور 35A ختم کرنے کے بعد مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی ہے اور اسے یونین ٹیریٹری قرار دے کر اپنا گورنر لگا دیا ہے، ریفرینڈم کے ذریعہ ا لحاق پاکستان کروا کر اگر پاکستان بھی ایسا ہی قدم اٹھا لیتا ہے تو کشمیر کا مسئلہ عملی طور پر تقسیم کی نظر ہوجائے گا۔وزیراعظم نے اپنے کسی بیان میں یہ تاثر نہیں دیا کہ پاکستان تقسیم کے کسی فارمولے کو آگے بڑھانے میں دلچسپی رکھتا ہے، تاہم اعلیٰ ترین سطح سے ایسے اہم قومی معاملات پرزیادہ واضح اور ٹھوس بیانات آنا ہی قومی مفاد میں ہے، پی ٹی آئی کنفیوژن پالیٹکس سے نہ ہی اپنی خدمت کر رہی ہے اور نہ ہی اس ملک کی ۔اور آئندہ عام انتخابات میں صرف دو سال رہ گئے، اللہ آزاد کشمیر میں صاف ستھری اور اہل حکومت بنانے میں مدد فرمائے۔
تازہ ترین