• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:محمدعمرتوحیدی۔۔۔اولڈھم
35ھ ذوالحجہ کی 18 تاریخ ، جمعہ کےدن مدینۃ الرسولﷺ میں پچھلے ایک ماہ سے کچھ شورش پسندوں نے ادھم مچا رکھا ہے،یہ غیر معمولی صورتحال معمول بنتی جارہی ہے،آج کا دن بھی پچھلے چند دنوں جیسا ہی ہے۔حالات گھمبیر اور شورش زدہ ہیں لیکن فوری طور پر کسی سنگین صورتحال کی طرف جاتے دکھائی نہیں دیتے،شورش پسندوں کی کچھ ٹولیاں مسجد نبوی میں موجود ہیں،کچھ گلیوں اور چوراہوں میں اور کچھ نے خلافت سیکریٹریٹ کا گھیرائو کر رکھا ہے،بظاہر خاموشی ہے لیکن سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کو شاید اس خاموشی کے پس منظر میں سرسراتے ہوئے کسی ہولناک طوفان کا اندازہ ہو گیاہے،اس لیے انہوں نے اپنے دوشہزادوں کو دربار خلافت کا پہرہ دار مقرر کر دیا ہے،ان کے علاوہ بھی کئی صحابہ وہاں پہرہ دے رہے ہیں۔مدینۃ النبی ﷺ کے اکثر باسی حج کےلیے مکہ جاچکے ہیں اور مدینہ تقریبا خالی ہوچکاہے،کاشانہ ٔخلافت میں 82سالہ سید عثمانؓ سب سے بے نیاز،روزے کی حالت میں قرآن مجید کی ذوق و شوق کے ساتھ تلاوت فرما رہے ہیں،ان کا دل گواہی دے رہاہے کہ آج شاید لیلائے شہادت سے ہم کنار ہونےکا دن ہے کیوں کہ آج انہیں آقائے دوجہاں ﷺ کی طرف سے افطار کی دعوت مل چکی ہے،عصر کے بعدکاشانہ خلافت کے پڑوسی عمرو بن حزم کے مکان سے چند شرپسند چھلانگ لگا کر اندرگھستے ہیں،ایک ان کی ڈارھی پکڑ کر پیشانی میں خنجر مارتا ہے،دوسرا لوہے کی لاٹ سے ضرب لگاتا ہے،تیسرا نیزے کے وار کرتاہے، چوتھا ناعاقبت اندیش تلوار مارتاہے، اور آنا فانا کئی دن کے بھوکے اور پیاسے جامع القرآن سیدنا عثمانؓ کو شہید کر کے عالم کو تیرہ وتار کردیا جاتاہے۔حلم وحیا ،صدق و صفا اور جود وسخا کے چمنستان میں خاک اڑنے لگتی ہےاور مدینہ طبیہ میں قیامت سے پہلے ہی ایک قیامت بپا ہوجاتی ہے۔ خلافت راشدہ کے تیسرے موتی،سیدنا عثمان غنی ؓ 577ء میں مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے آپ کے والد کا نام عفان تھا اورآپ قریش کی مشہور شاخ بنو امیہ سے تعلق رکھتے تھے۔پانچویں پشت میں عبد مناف پر آپ کا سلسلہ نسب رسول اللہ ﷺ سے مل جاتاہے۔حضور ﷺ کی سگی پھوپھی آپ کی نانی ہیں،اسلام قبول کرنے سےپہلےدور جاہلیت میں بھی آپ لہو و لعب سے بیزار اور باحیا انسان تھے،سیدنا ابوبکر صدیق ؓ سے گہرا دوستانہ تھا اور انہیں کی تبلیغ پر اسلام قبول فرمایا،اور السابقون الاولون کی فضیلت سے بہرہ ور ہوئے کیوں آپ ایمان لانے والے چوتھے فرد تھے۔قبول اسلام کے جرم میں آپؓ کے چچا حکم بن ابی العاص نے لوہے کی زنجیروں سے باندھ کر آپؓ کو دھوپ میں ڈال دیا اور کہا کہ جب تک تم نئے مذہب کو نہیں چھوڑو گے آزاد نہیں کروں گایہ سن کر آپؓ نے کہا خدا کی قسم میں دین اسلام کبھی نہیں چھوڑوں گا اور کبھی اس دولت سے دستبردار نہیں ہوں گا۔بالآخر مجبور ہو کر چچا نے آپؒ کو چھوڑ دیا۔بنو امیہ کے اس فرد فرید پرحضورﷺ کو اتنا اعتماد تھا کہ اپنی بیٹی سیدہ رقیہ ؓ ان کے نکاح میں دے دی۔انہی کے ساتھ حبشہ کی پہلی ہجرت فرمائی اور آقاﷺ نے فرمایا حضرت ابراہیم اور لوط علیہما السلام کے بعد عثمانؓ بیوی سمیت ہجرت کرنے والے پہلے فرد ہیں،کچھ عرصہ بعد خبر ملی کہ اہل مکہ مسلمان ہوگئے ہیں تو آپ دیگر مہاجرین حبشہ کے ہمراہ واپس ہوئے،خبراگرچہ غلط نکلی تاہم آپ پھر مکہ ہی میں مقیم رہے۔حضورﷺ نے کفار مکہ کے ظلم وستم سے تنگ آکر اللہ تعالیٰ کے حکم سے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو آپ ؓ بھی ہجرت کرکے مدینہ طیبہ میں تشریف لے آئے۔سیدہ رقیہ سے آپ کا ایک بیٹا عبد اللہ پیدا ہوا جو چھے سال کی عمر میں انتقال کر گیا،تھوڑے عرصہ بعد ہی سیدہ رقیہ بھی صاحب فراش ہوگئیں اورغزوہ بدر کے موقع پر انتقال فرمایا،جس وقت رسول اللہ ﷺ کا قاصد فتح کی خبر لے کر مدینہ آیا اس وقت سیدہ کی قبر پر مٹی ڈالی جارہی تھی،رسول اللہﷺ کے حکم پر انہی کی عیادت اور تیمار داری کی وجہ سے حضرت عثمان ؓ غزوہ بدر میں شریک نہ ہوسکے۔کچھ دن بعد حضورﷺ نے اپنی دوسری بیٹی سیدہ ام کلثومؓ ان کے ساتھ بیاہ دی۔حضورﷺ کے ساتھ دہری دامادی کے اسی شرف کی وجہ سے آپ کا لقب ذوالنورین ہے۔چند برس بعد سیدہ ام کلثومؓ بھی انتقال کرگئیں اس موقع پرحضورﷺ نے ارشاد فرمایا اگر میری کوئی اور بیٹی ہوتی تو اس کا نکاح بھی عثمان سے کردیتا۔اہل امامیہ کے شہید ثالث اور مجتہد قاضی نوراللہ شوستری "معیار المومنین" صفحہ 79 میں رقم طراز ہیں:"نبی نے بیٹی عثمان کو دی اور علی نے بیٹی عمر کو دی"۔ آپ ؓ نے غزوہ احد،غزوہ خندق،سفر حدیبیہ،غزوہ خبیر،فتح مکہ اور غزوہ تبوک میں حضورﷺ کے ساتھ شرکت فرمائی۔حدیبیہ کے موقع پر حضور ﷺ کے سفیر بن کر مکہ تشریف لے گئے اہل مکہ نے آپ کو عمرہ کرنے کی اجازت دی لیکن آپؓ نے رسول اللہ ﷺ کے بغیر عمرہ کرنا پسند نہیں کیا۔جب حضورﷺ نے فتح یا شہادت پر مسلمانوں سے وہاں بیعت لی تو حضرت عثمان ؓ کی طرف سے خود ہی بیعت فرمائی اور اپنا دایاں ہاتھ مبارک دوسرے ہاتھ مبارک پر رکھ کر فرمایا یہ عثمان کی بیعت ہےسبحان اللہ!۔اپنے داماد پر یہ آقا ﷺ کے غایت اعتماد کا مظہر ہے۔اور اس میں مزید شان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:یداللہ فوق ایدیھم،ان ہاتھوں کے اوپر اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہے۔ آپؓ ایک رئیس اور مال دار آدمی تھے،لیکن اللہ کی راہ میں دینے کےلیے آپ کے دونوں ہاتھ کھلے تھے۔مدینہ میں میٹھے پانی کا ایک ہی کنواں تھا جو یہودی کی ملکیت تھا اس خرید کر سب کے لیے وقف فرمادیا۔مسجد نبوی کی دوبارہ تعمیر کے موقع پر اضافی جگہ خرید کر اللہ تعالیٰ کے لیےوقف فرمادی۔غزوہ تبوک کے موقع پر کئی سو اونٹ گھوڑے اور اشرفیوں کی تھیلیاں حضورﷺ کو پیش فرمائیں اس پر حضورﷺ نے فرمایا آج کے بعد کوئی عمل عثمان کو ضرر نہیں دے سکتا۔خاتون جنت سیدہ فاطمہ الزہراء ؓ کی شادی کے موقع پر سیدنا علی ؓ کو مہر کےلیے چار سو درہم تحفہ میں دئیے۔ آپ اتنے باحیا انسان تھے کہ حضورﷺ بھی اور فرشتے بھی اس وجہ سے آپ سے حیا کرتے،دایاں ہاتھ جس سے حضور ﷺ کے ساتھ بیعت فرمائی پھر پوری زندگی وہ شرم گاہ سے مس نہیں کیا۔اسی لیے آقا ﷺ نے فرمایا:میری امت میں سب سے باحیا آدمی عثمانؓ ہیں۔حیا کے ساتھ حلم اور برداشت میں بھی آپ کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ایک موقع پر جب حرم کی توسیع کی گئی اور لوگوں کے مکانات خرید کر گرادیے تو بعض لوگ آپ ؓ کے پاس حاضر ہوکر بہت شور شرابہ کرنے لگے تو آپ نے فرمایا جانتے ہو تمہیں کس نے مجھ پر اتنا جری کیا؟میرے حلم نے تمہیں یہ جرأت دی ہے ورنہ یہی کام تمہارے ساتھ عمر نے کیا تھالیکن تم ان کے سامنے زبان بھی نہیں ہلاسکے۔آپ کا دل آخرت کی یاد اور خوف خدا سے لبریز رہتا،قبر کو دیکھ کر اتنا روتے کہ ڈارھی مبارک آنسوئوں سے تر ہوجاتی۔حضور ﷺ کے ساتھ محبت کا یہ عالم تھاکہ جب سیدنا امام معاویہؓ نے شورش کے موقع آپ کو شام جانے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی تو فرمایا میں میں رسول اللہ ﷺ کا پڑوس کسی قیمت پر نہیں چھوڑ سکتا خواہ میری گردن کی رگ ہی کیوں نہ کاٹ دی جائے۔انہوں نے کہا پھر میں آپ کے لیے شام سے لشکر بھیج دوں؟تو فرمایا میں مدینہ میں لشکر رکھ کر حضورﷺ کے ہمسائیوں کے رزق میں کمی کروں اور مدینہ کے رہنے والوں کو تنگ کروں؟(یعنی یہ مجھ سے نہیں ہوسکتا)۔ ایک بار وضو کرکے مسکرائے ساتھیوں نے مسکرانے کی وجہ دریافت کی تو فرمایا میں اسی طرح حضورﷺ کو وضو کرکے ہنستے دیکھا ہے۔حضورﷺ سے اسی محبت اور اپنے حلم کی بنا پر آپ نے اپنی شہادت گوارا کرلی لیکن مدینہ طیبہ میں باغیوں کے خلاف تلوار اٹھانے سے صحابہ کو سختی سے منع فرمادیا۔ورنہ ان چند سو باغیوں کو کچلنا کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھا۔ آپ علوم دینیہ میں مجتہدانہ دست گاہ رکھتےتھے۔قران مجید کے حافظ تھے۔آپ سے 146حادیث روایت کی گئی ہیں۔اپنے دور خلافت میں آپ نے دور صدیقی کے مصحف کو نئے سرے سے لکھوا کر اس کی نقلیں تیار کروائیں اور مملکت کے بڑے بڑے شہروں میں بھجوائیں۔فصیح اللسان اور قادرالکلام خطیب تھے۔میانہ قد ،گندمی رنگ کے نہایت حسین وجمیل تھے۔آپ کو شباہت میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے تشبیہ دی جاتی۔مزاج کے سادہ تھے اپنی تمام تر مالداری کے باوجود مسجد نبوی میں اینٹ کا تکیہ بنا کر لیٹ جاتے۔آپؓ کے علم و عرفان کےاعتراف میں علامہ شریف رضی "نہج البلاغہ" جلد1 صفحہ263 طبع مصر میں حضرت علیؓ سے نقل کرتے ہیں:"میں (علی) نے آپؓ(عثمان) کے سامنے کہامیں کسی بات کو نہیں جانتاجس سے آپؓ واقف نہ ہوں اور نہ کوئی ایسی بات آپؓ کو بتاسکتا ہوں،جس سے آپؓ بےخبر ہوں،میں آپؓ سے کسی بات میں سبقت نہیں رکھتا کہ آپؓ کو خبر دوں،نہ میں تنہائی میں رسول اللہﷺ سے کو ئی علم حاصل کیا ہے جو آپؓ تک پہنچائوں یقینا آپؓ نے آنحضرتﷺ کو اسی طرح دیکھا ہے جس طرح ہم نے دیکھا ہےاور اسی طرح آپؓ نےسنا جس طرح ہم نے سنا". سیدنا عمرفاروق ؓ کی شہادت کے بعد چھ رکنی کمیٹی میں سے آپ خلافت کے لیے منتخب ہوئے،آپؓ کا دور خلافت بارہ سال پر محیط تھا کابل سے لیکر مراکش تک وسیع و عریض خطہ اسلام کے سایہ عاطفت میں رہا۔زیادہ مالدار ہونے کے باوجودآپؓ کا اعلیٰ اخلاق،خدا ترسی اور حسن سلوک ضرب المثل تھا۔اسلامی حکومت کی ذمہ داریوں کی وجہ سے آپؓ تجار تی سرگرمیاں جاری نہ رکھ سکے اس طرح ذرائع آمدن مسدود ہو گئے لیکن آپ کی دریا دلی، فیاضی،جود و سخا میں کوئی فرق نہ آیا۔رفتہ،رفتہ دولت کی فراوانی کم ہو گئی آپ رضی اللہ عنہ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا:’’جس وقت میں نے منصب خلا فت قبول کیا تھا میں پورے عرب میں سب سے زیادہ اونٹوں اور بکریوں کا مالک تھا اورآج میرے پاس حج کے دو اونٹوں کے سوا ایک اونٹ اور ایک بکری بھی نہیں‘‘ عزیمت کا یہی وہ راستہ تھاجس پرچل کر آپ رضی اللہ عنہ نے 22لاکھ مربع میل سے خلافت کی حدود کو 44لاکھ مربع میل تک پہنچا دیا۔ آپ رضی اللہ عنہ کی شہادت کا منصوبہ مصر میں تیار ہوا،ساڑھے سات سو بلوائی ایک خط کا بہانہ بنا کر مدینہ پہنچے،ان کے جتنے جھوٹے الزامات تھے سب کا شافی جواب حضرت عثمان اور دیگر صحابہ نے دیا لیکن الزامات کا جواب لینا ان کا مقصد ہی نہیں تھا،ان کا مقصد امیر المومنین کو خلافت سے معزول کرنا یا پھر قتل کرنا تھا۔تاکہ رسول اللہ ﷺ کا شہر آگ اور خون سے رنگین ہو اور اسلام کی وحدت و مرکزیت پارہ پارہ ہوجائے ۔انہوں نے معزولی پر اصرار کیا اور بصورت دیگر قتل کی دھمکی دی لیکن آپ نے فرمایا جو قمیض اللہ تعالیٰ نے مجھے پہنائی ہے وہ میں کبھی نہیں اتاروں گا ۔انہوں نے پہلے دروازے سے اندر گھسنے کی کوشش کی جو ناکام بنادی گئی مگر حضرت عثمانؓ نے اکثر پہرہ داروں کو الجھنے سے روک کر انہیں گھر بھیج دیا ۔بالآخر دوسرے مکان کی کھڑکی سے اندر داخل ہو کر کئی روز کے بھوکے پیاسے سیدنا عثمانؓ کو بلوائیوں نے شہید کر دیا۔ اس مظلومانہ شہادت سے لے کر آج تک مسلمانوں کی مسلمانوں کے ہاتھوں کروڑوں گردنیں کٹ چکی ہیں لیکن جو تلوار تب میان سے نکلی تھی وہ ابھی تک میان میں نہیں گئی۔خون کے دریا بہہ گئے لیکن اس قتل ناحق کا انتقام شاید تاحال پورا نہیں ہوا۔آپ نے ان غنڈوں سے کہا تھا اگر تم نے مجھے قتل کیا تو خدا کی قسم میرے بعد تم نہ کبھی باہم محبت سے رہ سکو گے نہ کبھی مل کر نماز پڑھ سکو گے اور نہ کبھی مل کر دشمن سے لڑ سکو گے۔اسی رات کو آپ کی نماز جنازہ پڑھی گئی اور جنت البقیع کے پہلو میں خش کوکب نام کے نخلستان میں آپ کو دفنادیا گیا۔
تازہ ترین