• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس مال کی دھن میں پھرتے تھے
تاجر بھی بہت، رہزن بھی کئی
ہے چور نگر، یاں مفلس کی
گرجان بچی تو آن گئی
آج فیض احمد فیض کی نظم ”شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں“ پڑھ رہا تھا تو مندرجہ بالا اشعار کراچی کے حالات کے تناظر میں دل کو لگے۔ سوچا قارئین کی نذر کردوں گزشتہ کئی روز سے اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا پر دن رات لیاری میں پھیلی ہوئی بدامنی سے متعلق خبروں نے دل کو پریشان کر دیا ہے، لگتا ہے کہ یہاں کسی کی حکومت ہی نہیں۔ ہر روز موت کا کھیل کھیلا جاتا ہے، راکٹ لانچر اور دستی بموں تک نوبت پہنچ گئی ہے۔ اب ٹی ٹی پسٹل اور کلاشنکوف تو عہد ماضی کا کلچر لگتا ہے، قوم جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کون کس کے ساتھ لڑ رہا ہے اور کون لڑوا رہا ہے۔ میں نے کچھ تجزیہ نگاروں سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے مجھے بین الاقوامی سیاست کے لمبے لمبے راگ سنا دیئے اور بتایا کہ اس تمام بدامنی کے تانے بانے افغانستان سے 2014 میں امریکی فوجوں کے انخلاء سے ملتے ہیں پھر کسی اور زیادہ پڑھے لکھے آدمی سے بات سمجھنے کی کوشش کی تو اس نے کہا کہ نہیں یہ لیاری میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کے تانے بانے کوئٹہ میں لبریشن آرمی نامی تنظیم کی سرگرمیوں سے ملتے ہیں اور یہ جدید اسلحہ بھی پاکستان کے دشمن ممالک ان لوگوں کو پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچانے کیلئے دے رہے ہیں۔ اور چونکہ ہم نے گوادر پورٹ چائنا کو دیدی ہے اور گیس پائپ لائن کا معاہدہ ایران سے کرلیا ہے اس لئے یہ تمام غیر یقینی صورتحال پیدا کی جا رہی ہے تاکہ بدامنی ہو اور ایسے حالات میں دشمن اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہو جائے۔ میری پھر بھی تسلی نہیں ہوئی تو میں نے ایک اور ذی شعور سے پوچھااور اسے بتایا کہ پہلے والے لوگوں نے مجھے مندرجہ بالا دو باتیں بتائی ہیں۔ اس نے کہا کہ یہ دونوں باتیں کسی حد تک درست ہو سکتی ہیں مگر ایسا بھی نہیں ہے۔ یہ دراصل کچھی قوم کے لوگوں کا بلوچوں کے ساتھ بہت پرانا جھگڑا ہے اور اب ایک تنظیم کچھیوں کی مدد کر رہی ہے اور اس طرح یہ جھگڑا ختم نہیں ہو رہا۔
میں نے پوچھا کہ کچھی اور بلوچ تو صدیوں سے اس علاقے میں ساتھ ساتھ رہتے ہیں اور لیاری جو ایک زمانے میں کراچی کی پہچان تھا اور امن کا گہوارہ تھا وہاں اچانک یہ سب کچھ کیسے ہوگیا کہ ساتھ ساتھ رہنے والے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے اور خون کی ہولی روزمرہ کی بنیادوں پر کھیلنے لگ گئے۔ ذی شعور کے پاس کوئی مضبوط جواب نہیں تھا اور وہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگا اور کہا کہ اصل میں یہ لیاری کے عوام کو فوج سے لڑوانے کی سازش ہے اور اس میں امریکہ کا ہاتھ ہے کیونکہ امریکہ گوادر اور پائپ لائن سے خوش نہیں اس لئے یہ سب کچھ ہو رہا ہے، میری سمجھ میں بات پھر بھی نہیں آئی۔ میں نے پوچھا کہ بھائی لیاری کے غریب اور ان پڑھ لوگوں کا امریکہ کی سیاست سے کیا تعلق، یہاں تو اکثریت ان غریب لوگوں کی ہے جو کہ محنت مزدوری کر کے ہر روز تازہ روزی کماتے ہیں یعنی کہ دھاڑی پر کام کرتے ہیں۔ کوئی گدھا گاڑی چلاتا ہے تو کوئی پورٹ پر کام کرتا ہے۔ آبادی کا ایک بڑا حصہ منشیات وغیرہ کے کاروبار میں ملوث ہے اور وہ بھی اپنے کارندوں کے ذریعے گلیوں میں نشے کی چیزیں بیچ کر گزارا کرتے ہیں اور اپنے کارندوں اور پولیس کا پیٹ پالتے ہیں۔ ان غریبوں کا امریکہ کی بین الاقوامی سیاست سے کیا تعلق؟ کوئی بھی شخص مجھے سمجھا نہ سکا کہ بات کیا ہے۔ آخر میں، میں نے ایک محنت کش سے پوچھا کہ بھائی یہ جھگڑا کیا ہے اس نے بڑے تعجب سے میری طرف دیکھا اور کہا بابو آپ تو مجھے شکل سے پڑھے لکھے لگتے ہیں۔ آپ اتنی سی بات نہیں سمجھ سکتے یہ سارا جھگڑا بھتے کا ہے، پرچی کا ہے، اکنامکس ہے، معاشیات ہے۔ جن لوگوں کو بغیر کچھ کئے لاکھوں روپے کمانے ہیں یہ ان کا کاروبار ہے۔ وہ اس طرح کے حالات پیدا کرتے ہیں کہ لوگوں کے دلوں میں ان کا خوف مسلسل بیٹھا رہے لوگوں کو احساس ہو کہ یہ لوگ قانون سے بالاتر ہیں اور پولیس اور رینجرز مل کر بھی ان کا کچھ نہیں لگاڑ سکتی، ہر روز اٹھنے والے جنازے ان کے کاروبار کو مزید وسعت دیتے ہیں اور یہ روزمرہ کی اموات ان کی سیل پروموشن اسکیم کا حصہ ہیں۔ جتنا خوف و ہراس اور لاقانونیت بڑھے گی اتنا ہی بھتہ لینا آسان ہوگا، لوگ اپنے جان و مال کے تحفظ کیلئے بڑھ چڑھ کر بھتہ دیں گے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ پولیس تو خود محفوظ نہیں۔
ہر روز کوئی پولیس والا قتل ہو جاتا ہے وہ ہماری جان کی کیا حفاظت کرے گا۔ پہلے خود اپنی جان تو بچالے، اب رمضان آ گیا ہے اب فطرہ کے نام پر بھی پرچی چلے گی۔ پچھلے سال ایک ہندو شکایت کرتا ہوا آیاتھا کہ مجھ سے بھی فطرہ مانگ رہے ہیں۔ ہندوؤں پر تو فطرہ لگتا ہی نہیں پھر بھی دینا پڑتا ہے بقول ابراہیم ذوق
ہم ہیں اور سایہ ترے کوچے کی دیواروں کا
کام جنت میں ہے کیا ہم سے گناہ گاروں کا
یہ قصے تو سب چلتے رہیں گے، میں اپنے قارئین کو ماہ رمضان کی مبارک باد دیتا ہوں اور اس سے بڑی مبارک اس بات کی دیتا ہوں کہ اس دفعہ مسجد قاسم میں چاند ایک روز پہلے نہیں اترا اور مفتی پوپلزئی صاحب نے بھی مفتی منیب الرحمن والا چاند دیکھ لیا ہے اور شاید تاریخ میں پہلی بار رمضان خیبر پختون خواہ اور ملک کے دوسرے صوبوں میں ایک ساتھ شروع ہوا ہے اب میری یہ دعا ہے کہ عید کا چاند بھی مسجد قاسم اور مفتی منیب الرحمن کو ایک ساتھ نظر آجائے تا کہ پہلی بار ملک میں ایک دن عید ہو سکے اور خدا کرے کہ ماہ رمضان میں کراچی اور خصوصی طور پر لیاری میں امن ہو جائے تاکہ کراچی کے لوگ بغیر کسی تازہ غم کے اپنی عید خوشی سے منا سکیں۔ آخر میں صوفی غلام مصطفی تبسم کا حسب حال شعر پیش خدمت ہے۔
دیکھ کیا کر رہے ہیں اہل زمین
آسماں کے ستم کی بات نہ کر
تازہ ترین