• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فیض نے کہاتھا”یہ داغ داغ اجالایہ شب گزیدہ سحر“۔ یہ مصرع پاکستان پر چسپاں ہوکر رہ گیا ہے۔کتنے عہد گزرگئے لیکن روشن صبح طلوع نہیں ہوئی۔ نئی صبح کے تعاقب میں ہر تبدیلی کو عوام نے امید بھری نظر سے دیکھا۔ روز و شب کی تلخی میں شاید کمی آجائے لیکن کچھ ہی دن بعد احساس ہوتا ہے کہ وزیراعظم کا نام تبدیل ہوا ہے، وزرائے کرام نئے آگئے ہیں مگر عوام کیلئے وہی بھوک، ننگ، افلاس، محرومی، بے بسی اور اندھیرے ہیں۔ عوام کی مشکلات میں اضافے کے باب میں نئے آنے والے پچھلوں سے بڑھ کر ہیں۔
موجودہ حکومت کی آمد پر لوگ گمان کررہے تھے کہ اب اچھا ”دور“ آگیا ہے۔اب ان کی زندگی میں بہارآئے گی لیکن آغاز ہوا اس کے برعکس۔12جون کو نئی حکومت نے بجٹ پیش کیا اور اگلے ہی دن ملک بھر میں مہنگائی کا ”طوفان“ آگیا۔ بجٹ میں سیلز ٹیکس کی شرح میں ایک فیصد اضافہ ہوا تو دکانداروں نے ہر چیز کی قیمتیں آسمان پر پہنچا دیں۔ شدید ردعمل ہوا، عوام کو ریلیف دلانے کیلئے عدالت عظمیٰ سامنے آئی۔تب کہیں حکومت نے کھانے پینے کی 30/اشیاء کو اضافی ٹیکس سے باہر قرار دیا لیکن ہمارے یہاں روایت ہے کہ ایک مرتبہ قیمت بڑھ گئی تو بڑھ گئی واپس نہیں ہوتی۔ بعد از بجٹ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں فوری اضافے کو عدالت عظمیٰ نے غیر قانونی قرار دیا اور فیصلہ سنایا کہ عوام سے وصول کی گئی زائد رقم واپس کی جائے۔ حکومت نے جواباً عدالت عظمیٰ کے حکم کو اس طرح مفلوج کردیا کہ قومی اسمبلی میں کثرت رائے سے ترمیم شدہ مالیاتی بل منظور کروالیا جس کے تحت جنرل سیلز ٹیکس کی شرح میں ایک فیصد اضافے سمیت تمام ٹیکسوں میں اضافے کو 13جون سے نافذالعمل کر دیا اور 13 جون سے21جون تک وصول کئے گئے ایک فیصد اضافی ٹیکس کو جائز قرار دیا۔ حکومت نے یہ کام عددی اکثریت سے کیا۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک بار پھر 3روپے فی لیٹر تک اضافہ کردیا گیا۔پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا تو سی این جی پر پہلے سے عائد ٹیکس میں مزید 9فیصد اضافہ کردیا گیا۔سی این جی کی قیمتوں کو پیٹرول اور ڈیزل کے برابر لانے کا فیصلہ درست ہے یا غلط عوام کیلئے اس کا نتیجہ مزید مہنگائی اور بربادی ہے۔ نقل وحمل کے تمام وسائل کرایوں میں اچھا خاصا اضافہ کرنے پر مجبور ہوں گے اور لوگوں کیلئے کہیں آنا جانا مزید مشکل ہوکر رہ جائے گا۔ بجلی کی قیمتوں میں حکومت پہلے ہی دو روپے سے زیادہ فی یونٹ اضافے کا اعلان کر چکی ہے اور خواجہ آصف یہ بھی فرمارہے ہیں کہ بجلی کی قیمت کو مزید بڑھائے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ یکم جولائی سے گھریلو صارفین کیلئے گیس کی قیمتوں میں 8روپے 27پیسے اضافے کا فیصلہ کیا گیا تھا جسے وزیراعظم نے روک دیا اور کہا کہ یہ اضافہ رمضان شریف کے بعد کیا جائے۔
یہ درست ہے کہ موجودہ مہنگائی کی اصل ذمہ دار سابق حکومت ہے، یہ بھی درست ہے کہ خزانہ خالی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ خزانہ بھرنے کیلئے سارا بوجھ عوام پر کیوں ڈالا جا رہا ہے۔ خزانہ خالی ہے تو عوام کا پیٹ بھی تو خالی ہے۔ خزانہ جنہوں نے خالی کیا ہے انہیں کیوں نہیں نچوڑا جا رہا۔ ایف بی آر جن کے نام اربوں روپے ادائیگی کے نوٹس جاری کرچکا ہے ان سے بازپرس کیوں نہیں کی جارہی۔ان بیس پچیس لاکھ تاجروں اور صنعت کاروں سے ٹیکس وصولی کیلئے ابتدائی کارروائی بھی کیوں آغاز نہیں کی گئی جو ٹیکس دینے پر تیار نہیں۔ بینکوں میں بیس ہزار کھاتے دار ایسے ہیں جن کے پاس اس ملک کے ایک لاکھ تیس ہزار تین سو اکہتر کروڑ روپے ہیں۔ یہ لوگ حکومت کو نظر کیوں نہیں آتے، سارا زور غریبوں پر کیوں۔
ایک صاحب سنگتروں کا ڈھیر لگا کر آواز لگارہے تھے”اچھے سنگترے، اچھے سنگترے“ ایک صاحب دل کا گزر ہوا آواز سنی وجد میں آگئے۔ دل میں دہرایا ”اچھے سنگ ترے، اچھے سنگ ترے“ مفہوم تو آپ سمجھ گئے ہوں گے”اچھے سنگ تیرے“ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا سنگ برے حکمرانوں کے ساتھ ہے اور اس پر مزید ظلم یہ کہ برے حکمرانوں کا سنگ ان سے بھی برے سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ ہے۔ نتیجہ عوام کا پلیتھن نکل گیا ہے۔ جن لوگوں پر سرمایہ دارانہ نظام کئی دہائیوں سے نافذ ہے وہاں لوگ اس نظام سے چھٹکارا پانے کیلئے سراپا احتجاج ہیں۔ یونان، برطانیہ، اٹلی، اسپین، برازیل ایک کے بعد ایک ملک اس نظام میں بحرانوں کا شکار ہوتا جارہا ہے۔2008ء کے زوال کے بعد ابھرتی ہوئی معیشتیں برازیل، ہندوستان، روس اور چین گزشتہ پانچ برسوں سے بحران میں مبتلا ہیں۔ چین کی شرح نمو 11 فیصد سے گر کر 7 فیصد تک آگئی ہے۔ گزشتہ مالی سال کے دوران ہندوستان کی شرح نمو نصف رہ گئی ہے۔ ہندوستانی روپیہ آج ڈالر کے مقابلے میں ساٹھ روپے کی سطح تک پہنچ گیا ہے۔ دولت اور غربت کی تفریق میں چین جنوبی افریقہ کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ ہندوستان میں دنیا کی چالیس فیصد غربت پلتی ہے جو کہ افریقہ کے غریب ممالک سے بھی بدتر ہے۔ پاکستان میں بھی یہ نظام بدترین نتائج دے رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آمریت ہو یا جمہوریت محض چہرے بدلنے سے کچھ نہیں ہوگا جب تک اس سرمایہ دارانہ نظام سے نجات حاصل نہیں کی جائے۔ انسانی ضمیر ایک متبادل کی تلاش میں ہے اور یہ متبادل صرف اور صرف اسلام ہے۔
تازہ ترین