• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
”مولوی صاحب ! جنت میں مردوں کو تو حوریں ملیں گی جبکہ عورتوں کے لئے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ رہیں گی اور ان تمام حوروں کی ملکہ ہوں گی ۔میرا آپ سے سوال ہے کہ اگر کسی عورت نے زندگی میں دو شادیاں کی ہوں تو پھر اسے کو ن سا شوہر ملے گا ،پہلے والا یا بعد والا؟“ یہ سوال اگلے روز ڈاکٹر عامر لیاقت کی ریکارڈ توڑ رمضان ٹرانسمیشن میں کسی عورت نے لائیو کال کے دوران پوچھا۔اس قدر تخلیقی نوعیت کا سوال شاید ہی پہلے کبھی پوچھا گیا ہو ،اس لئے ڈاکٹر صاحب بھی سوال کی داد دئیے بغیر نہ رہ سکے۔رمضان میں پکوڑے کھانے اورفائیو سٹار افطاری کرنے کے علاوہ ہم لوگ جو تین کام نہایت خضوع و خشوع کے ساتھ کرتے ہیں ان میں اس نوع کے مسائل دریافت کرنا ،استغفار کرنا اور دعائیں مانگنا شامل ہیں ۔ویسے تو یہ کام سارا سال ہی ایک روٹین کی طرح جاری رہتے ہیں مگر رمضان میں جذبہ ایمانی چونکہ 100انڈیکس بیرئیر کراس کر جاتا ہے اس لئے ہم دعائیں بھی بے حساب مانگتے ہیں اور اپنے گناہوں کی توبہ بھی کرتے ہیں۔ہماری دعائیں بالکل ٹو دی پوائنٹ ہوتی ہیں یعنی اللہ سے ہم تمام آسائشیں اور آسانیاں تو مانگتے ہی ہیں مگر ساتھ ساتھ کچھ مخصو ص کام بھی خدا کے ذمے لگا دیتے ہیں جو دراصل ہمارے اپنے کرنے کے ہوتے ہیں ۔اس کے برعکس جب استغفار کا معاملہ آتا ہے تو ہم ایک ”جنرل“ قسم کی توبہ کر کے سمجھتے ہیں کہ ہم نے گناہوں کی معافی مانگ لی اور خدا نے قبول بھی کر لی۔(یہاں جنرل توبہ سے مراد فوجی جنرل نہیں ،ویسے بھی کسی فوجی جنرل نے آج تک اپنے کسی گناہ کی معافی نہیں مانگی)۔کیا ہی اچھا ہو کہ اس رمضان ہم وہ تمام گناہ ایک ایک کرکے یاد کریں اور پھر اپنے رب سے معافی کے طالب ہوں؟ یہ کام اتنا مشکل تو نہیں تاہم اپنے مسلمان بھائیوں کی آسانی کے لئے نمونے کے چند ڈرافٹ معافی نامے پیش خدمت ہیں:
1۔یا اللہ ! میرا نام جنرل پرفیکٹ ہے ،مجھے اپنا نام بتانے کی ضرورت تو نہیں کیونکہ تجھ سے تو کوئی بھی امر پوشیدہ نہیں لیکن میں نے احتیاطاً اپنا نام اس لئے بتایا ہے کہ ریکارڈنگ کرنے والے فرشتے نوٹ کرلیں او ر میری توبہ قبول ہونے کی صورت میں کوئی پیچیدگی نہ ہو۔ اے پروردگار ،جیسا کہ تو جانتا ہے میں اپنے ملک کا سچا وفادار ہوں اور جتنی محبت مجھے اپنے ملک سے ہے اتنی کسی اور کو نہیں ہو سکتی۔ایک زمانے میں یہ حب الوطنی جنون میں بدل گئی تھی ،مجھے یوں لگتا تھا جیسے میرے اور میرے ساتھیوں کے علاوہ کوئی بھی شخص ،یعنی سویلین ،محب وطن نہیں ہو سکتا ۔چنانچہ جو بندہ بھی ہمارے ادارے پر تنقید کرتا، میں یہی سمجھتا کہ وہ بھارت کی زبان بول رہا ہے ،اور بھارت چونکہ ہمارا ازلی دشمن ہے اس لئے اس شخص کی وطن دوستی میری نظر میں مشکوک ہو جاتی ۔یہ بات سیکھنے میں مجھے کئی دہائیاں لگ گئیں کہ ہر وہ شخص جو ہماری طرح نہیں سوچتا ،ملک دشمن نہیں ہوتا ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ سیکھنے کا یہ عمل ضرورت سے زیادہ طویل ثابت ہوا مگر ہمارے ادارے کے افسران کی قابلیت کو مد نظر رکھا جائے تو یہ مدت کچھ بھی نہیں۔باری تعالیٰ،میں تجھ سے اپنے اس احمقانہ طرز عمل کی معافی مانگتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ ان لوگوں کی فیملیز بھی مجھے معاف کردیں گی جن کے پیاروں کو میں نے ملک دشمن سمجھا۔اے میرے پروردگار !جس ادارے سے میرا تعلق تھا ،اس کا بنیادی کام تو بیرونی دشمنوں کی ناپاک سرگرمیوں پر نظر رکھناتھا مگریہ سرگرمیاں چونکہ ملک کے اندر بھی جار ی رہتیں اس لئے ہم نے اندرون ملک بھی ایک ایسا جال بچھا رکھا تھاجس کا ڈسا ہوا پانی نہیں مانگتا تاہم ہماری یہ حکمت عملی بھی اس دن ایکسپوز ہو گئی جب امریکی فوجیوں نے 2 مئی کی رات ہماری ناک کے عین نیچے دو گھنٹے آپریشن کیا اور دنیا کے سب سے مطلوب شخص کو مار کراس کی لاش یوں لے گئے جیسے کرکٹ ٹیم کے فاتح کھلاڑی میچ جیتنے کے بعد وکٹیں اکھاڑ کر لے جاتے ہیں اور ہاری ہوئی ٹیم ان کا منہ تکتی رہتی ہے ۔اپنی اس نا اہلی اور غفلت کی لئے میں اپنی قوم سے معافی کا خواستگار تو ہوں ہی مگر اے میرے رب میں تجھ سے بھی رحم کا طالب ہوں۔ مجھے معاف فر ما دے ۔P.S.میں نے ریٹائرمنٹ کے بعد بیرون ملک حاصل کی گئی ملازمت سے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کر لیا ہے، مجھے امید ہے عوام میرے اس عمل کو goodwill gestureکے طور پر لیں گے
2۔اے میرے رب،میں ایک بے غیرت بھائی ہوں ،چونکہ بے غیرت ہوں اس لئے اپنا نام بتانے میں بھی شرم آتی ہے۔آج میں سچ بولنے کے موڈ میں ہوں، ویسے بھی کسی کی کیا مجال جو تیرے سامنے دروغ گوئی کر سکے ۔میری دو بہنیں ہیں ،آج سے دس برس قبل ہماری والدہ کا انتقال ہو گیا تھا ،والد پہلے ہی فوت ہو چکے تھے ،ان حالات میں اپنی بہنوں کا میں واحد سہارا تھا۔میری دونوں بہنیں جوا ن تھیں اور شادی کے قابل تھیں مگر ان کی شادی سے زیادہ مجھے اپنا کیرئیر عزیز تھاچنانچہ میں نے کمال چابکدستی سے ترکے میں ملنے والا آبائی مکان جس کی مالیت اس وقت تقریباً پینتیس لاکھ روپے تھی،دونوں بہنوں سے اپنے نام لکھوا کر انہیں ان کے حصے سے دستبردار کر دیا۔اس کے علاوہ جو کیش حصے میں آیا ،اس کی مدد سے میں نے امریکہ کا ویزا لگوایا اور باہر جا بسا ۔پاکستان میں میری جوان بہنوں نے سفاک مردوں کے معاشرے میں کیسے زندگی گذاری ،اس کا علم تیرے علاوہ بھلا کس کو ہو سکتا ہے!اب امریکہ میں میرا اچھا خاصا کاروبار ہے ،میں نے یہیں شادی کر لی ہے اور میری دو بیٹیاں ہیں ۔دنیا کی ہر نعمت میرے پاس ہے مگر مجھے رہ رہ کر وہ وقت یاد آتا ہے جب میری چھوٹی بہن نے مجھے امریکہ فون کیا تھا اور میری منتیں کی تھیں کہ میں اسے کچھ پیسے بھیج دوں جنہیں فکس کروا کے وہ عزت کی زندگی گزار سکے ۔اس روز میں نے اسے بہت ڈانٹ پلائی اور یہ کہہ کر جہنم کی آگ سے ڈرایاکہ اگر وہ سود کھا کر زندگی گذارے گی تو قیامت تک اسے معافی نہیں مل سکے گی ۔وہ رات میں نے ٹیکساس کے ایک پب میں گذاری تھی ۔یا اللہ! میں اپنے کس کس فعل کی تجھ سے معافی مانگوں ،میں تو سر تا پا گناہوں میں لتھڑا ہوا شخص ہوں جو اپنی معصوم بہنوں کی جائیداد کھا گیا،مجھ سے زیادہ گناہگار بھلا اور کون ہوگا!اپنی بہنوں سے میں نے آج معافی مانگی تو ان شہزادیوں نے ایک پل میں مجھے معاف کر دیا ،تب سے آنسوؤں کی جھڑی لگی ہے ۔میں رمضا ن کے اس با برکت مہینے میں تجھ سے بھی اپنے ان گناہوں کی معافی مانگتا ہوں۔P.S. : آج میں نے ان کی جائیداد کی مالیت کے برابر رقم ان کے اکاؤنٹ میں جمع بھی کروا دی ہے ۔
3۔اے میرے خدا،میرا نام حاجی مک مکا ہے ،میں نے کتنے حج کئے مجھے خود بھی یاد نہیں ، تاہم اتنا ضرور یاد ہے کہ وہ تمام حج میں نے ان روپوں سے کئے جو میں نے اپنی فیکٹری کے ملازمین کے استحصال ،ذخیرہ اندوزی اور نا جائز منافع خوری کے نتیجے میں اکٹھی کی تھی۔آ ج تک میں نے جو نا جائز منافع کمایا، اسے اب میں ایک خیراتی ادارے میں جمع کروانے کے بعد تجھ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ یہ کام نہیں کروں گا ،مجھے معاف فرما دے ۔
یہ نمونے کے چھوٹے موٹے معافی نامے ہیں، بڑے گناہ لکھنے کی مجھ میں ہمت ہے اور نہ خدا کے ہاں ان کی معافی ہے ۔ہم ہر سال اپنے تئیں گناہوں کی معافی مانگتے ہیں اور اگلے ہی دن نئے عزم اور حوصلے کے ساتھ مزید تخلیقی گناہ کرنے میں جت جاتے ہیں ،ایسے میں گناہوں کی معافی کیوں کر ملے!جتنی فکر ہمیں رمضان ٹرانسمیشن میں روزے سے متعلق مسائل پوچھنے کی ہوتی ہے اگر اس سے آدھی فکر بھی ہمیں حقوق العباد کی ہو تو اٹھار ہ میں سے نو کروڑ مسلمانوں کی زندگی میں سکون آ جائے گا۔لیکن کیا کیجئے ،ہم روزے کے دوران انجکشن لگوانے کو تو حرام سمجھتے ہیں مگر اپنے سے کمزور کو” ٹیکہ “لگانے سے نہیں چوکتے ،چاہے رمضان ٹرانسمیشن کی خوش پوش اداکارہ ہی نیکی کی تلقین کیوں نہ کر رہی ہو!
تازہ ترین