• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فیض صاحب نے کہا تھا #
ذکرِ دوزخ، بیانِ حور و قصور
بات گویا یہیں کہیں کی ہے
حضرت جس حال میں پاکستان کو چھوڑ کرگئے تھے، اس میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں آ سکا ہے بلکہ مزید بے حال ہو چلا ہے۔ وہ طبقاتی فرق اور غربت و امارت میں تفاوت جو فیض صاحب کی زندگی کو بے چین کئے ہوئے تھا، آج بھی کروڑوں انسانوں کو زندہ درگور کرنے کا باعث ہے۔ ایک طرف دوزخ سے بلند ہوتے وہ شعلے جس کا ایندھن غریب پاکستانی ہیں اور دوسری طرف سیم و زر، جام و حور کے نشے میں چور وہ اہل زر ہیں جنہوں نے اپنے عشرت کدے آباد رکھنے کی خاطر اس دوزخ کا اہتمام کر رکھا ہے، ہم جسے اسلام کا قلعہ کہتے ہیں، یہاں تضاد کا عالم یہ ہے کہ اس قلعے میں چور لٹیرے خائن محفوظ و مامون اور ”عزت دار“ ہیں اور شرفاء بے کس و لاچار رسوا سر بازار ہیں۔ کیا یہ لمحہ ماتم کا نہیں ہے کہ ایٹمی پاکستان میں ایک وقت کی روٹی کیلئے آنے والی مائیں، بہنیں اپنے ہی طبقے کے مجبوروں کے پاؤں تلے کچلی جائیں! ایسے عالم میں جب اقوام عالم ترقی کے زینے چڑھنے کی خاطر ایک دوسرے پر سبقت کیلئے بے قرار ہیں، 93 فیصد مسلمانوں کے اس ملک میں راشن لینے کیلئے سبقت کی کوشش میں لوگ موت پا رہے ہیں! کراچی کے علاقے گلشن اقبال میں ایک مخیر فرد کی جانب سے مستحقین میں مفت راشن کی تقسیم کے موقع پر بھگدڑ مچ جانے کے نتیجے میں دو خواتین کے جاں بحق اور متعدد کے زخمی ہونے کا واقعہ ہو سکتا ہے سرمایہ داروں، اختیار مندوں اور حکمرانوں کے من و سلویٰ سے لبریز محلات کا موضوع سخن نہ ہوں، لیکن یہ دلگداز واقعہ مملکت خداداد پاکستان میں غربت کے ستائے عوام کی مفلوک الحالی کا خوفناک اعلان ضرور ہے۔ صاحب ثروت نے تو ایک ہزار لوگوں کے راشن کا انتظام کر رکھا تھا لیکن غربت کے مارے ہزاروں پہنچ گئے اور اس طرح بچوں کیلئے ایک لقمہ حاصل کرنے کی خواہشمند خود لقمہ اجل بن گئیں… واقعے کے بعد سرکار نے روایتی ”بے مثال و تاریخی مظاہرہ“ کرتے ہوئے رپورٹ طلب کر لی ہے۔ لیاقت علی خان اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت تا امروز اور حمود الرحمن کمیشن سے ایبٹ آباد کمیشن تک نہ جانے کتنے کمیشن اور تحقیقاتی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں لیکن اس کے باوجود ہمالیہ جیسے واقعات کے سر اور پیر کا آج تک سراغ نہیں ملا… لہٰذا ان خواتین کی اموات کسی کے خندہٴ جبیں پر کیا شکن لا پائیں گی! قصور وار و مجرم سب پر عیاں اور جانے پہچانے ہیں۔ واقعہ کے ذمہ دار اثر و رسوخ نہ رکھنے والے وہ نہیں، جنہیں دھر لیا گیا بلکہ ذمہ دار وہ ہیں جو وسائل و مواقع برابری کی بنیاد پر تقسیم کرنے پر مامور ہیں لیکن خدائے بزرگ و برتر کی جانب سے 18 کروڑ بندوں کیلئے اتارے جانے والے رزق کو گزشتہ 65 برسوں سے اپنے اور اپنے حواریوں میں تقسیم کرتے رہنے کے باوجود جن کا پیٹ نہیں بھرا۔ ہمارے حکمراں جو حضرت عمر فاروق کے پیروی کے داعی ہیں، اگر درحقیقت ان دو معصوم خواتین کی موت کے ذمہ داروں کا تعین چاہتے ہیں تو بات بالکل آسان اور سادہ ہے، ہمارے آئیڈیل حکمران ہی نے فرمایا تھا کہ اگر دریائے فرات کے کنارے کتا بھی بھوک سے مر جائے تو جواب دہ میں ہوں گا! منصف خود ہی فیصلہ کر لیں کہ ان خواتین کی موت کا قصور وار کون ہے!
کمیشن اور تحقیقاتی کمیٹیاں بنانے والے کیا نہیں جانتے کہ پاکستان میں خودکشیاں کرنے، اپنے لخت جگر کے ساتھ زہر کھانے اور گردے بیچنے کے پس پردہ عوامل کیا ہیں۔ کیا اختیار مندوں کو نہیں معلوم کہ کراچی، بلوچستان اور پختونخوا میں کس نے معصوم پاکستانیوں کے خون سے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں! ”سب، سب جانتے ہیں“… اسلام کے قلعے میں جب اسلام ہی مظلوم بنا اسیر ہو جائے تو پھر قاتل کا دست سفاک کیونکر رکے گا۔ فیض صاحب نے جو کل کہا تھا،آج ہوتے، تو آج بھی یہی کہتے…
جب کبھی بکتا ہے بازار میں مزدور کا گوشت
شاہراہوں پہ غریبوں کا لہو بہتا ہے
آگ سی سینے میں رہ رہ کے ابلتی ہے نہ پوچھ
اپنے دل پر مجھے قابو ہی نہیں رہتا ہے
ہم مصر،شام،افغانستان اور نہ جانے کہاں کہاں کا درد اپنے دل میں سموئے ہوئے ہیں، لیکن اپنوں اور اپنے ملک کے دکھ سے بیگانہ ہیں، ایسے تجاہل عارفانہ کی بدولت قتل و غارت گری اور خودسوزیاں اگراسلامی جمہوریہ کے ماتھے کا جھومر بن جائے تو نام نہاد غیرت و حمیت کے دعوؤں کی وقعت کیا رہ جاتی ہے!!
شاید ہماری بے حسی عرش سے بوسہ زن ہے، اس لئے ہم ایک دو خودکشیوں پر نہیں اجتماعی خودکشی پر بضد ہیں۔ رمضان المبارک میں ذخیرہ اندوزوں کے لشکارے غریب عوام کے بے جان جسم و جان پر قہقہے نہیں، تو اور کیا ہیں! ہم پاکستانی جو خود کو مدینہ جیسے نظام کا اصل وارث سمجھتے ہیں، ہمارے اختیار مندوں کا اپنے اپنے میدانوں میں یہ عالم ہے کہ جس کی دسترس میں جو پاکستانی مسلمان آ جائے وہ اسی کا کچومر نکال دیتا ہے ،ڈاکٹر مریض کے ساتھ، معلم طالب علم کے ساتھ، تاجر خریدار کے ساتھ، منصف سائل کے ساتھ اور حکمران رعایا کے ساتھ جو کچھ کر رہے ہیں، کیا اس کا مدینہ کی ریاست میں تصور بھی کیا جا سکتا تھا! دوسری طرف وہ غیر مسلم ممالک ہیں جو اپنے مذہبی تہواروں پر تو اپنے ہم مذہب شہریوں کیلئے رعایتی داموں پر اشیاء سر بازار لاتے ہی ہیں، مسلمانوں کے تہواروں پر بھی اسی طرح کا خیال رکھا جاتا ہے اور تو اور ہمارا ازلی دشمن بھارت بھی حج اور رمضان میں مسلمانوں کو خصوصی پیکیج فراہم کرتا ہے۔ صرف مسلمانوں پر کیا موقوف، بھارت اپنے ملک میں غربت کم کرنے کیلئے جو اقدامات اٹھا رہا ہے اس کا اندازہ 6جولائی کو روزنامہ جنگ میں ابرار بختیار کی شائع ہونے والی رپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے جس کے مطابق ”پاکستان نے آئی ایم ایف کے کہنے پر بجلی، پٹرولیم مصنوعات و دیگر اشیاء پر زر تلافی (سبسڈی) ختم کرنے کا وعدہ کیا ہے جس سے مہنگائی کا نیا طوفان آئے گا اور غربت میں مزید اضافہ ہو گا، تو دوسری جانب بھارت نے اپنے ملک میں غربت کے خاتمے اور 75 فیصد آبادی کو سستی خوراک کی فراہمی کیلئے کھربوں روپے کی سبسڈی دے کر فوڈ سیکورٹی پروگرام شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس پروگرام کے تحت جس کو آرڈیننس کے ذریعے قانون بنا دیا گیا ہے، 80 کروڑ سے زیادہ بھارتیوں کو ہر ماہ سستی خوراک فراہم کی جائے گی، جس پر ایک کھرب 13/ارب روپے خرچ ہوں گے۔ اس پروگرام کے تحت ہر گھرانے کو 35 کلو گرام اجناس ماہانہ دی جائیں گی۔ چاول تین روپے کلو، آٹا 2 روپے کلو اور باجرہ، جوار ایک روپے فی کلو دیا جائے گا۔ ان نرخوں پر تین سال بعد نظرثانی کی جائے گی۔ اس پروگرام کے تحت 6 ماہ سے 6 سال تک کے بچوں کو ان کی عمر کے مطابق خوراک مفت دی جائے گی۔ 6 سے 14 سال تک بچوں کو اسکولوں میں روزانہ دوپہر کا کھانا مفت دیا جائے گا۔ یہ سب کچھ راشن کارڈ پر دیا جائے گا۔ اس قانون کی خاص بات یہ ہے کہ راشن کارڈ گھر کی بزرگ ترین خاتون کو بحیثیت سربراہ خاندان جاری کیا جائے گا اسلامی جمہوریہ اور” نام نہاد“ سیکولر بھارت کا اپنے عوام سے ”سلوک“ میں فرق آپ نے ملاحظہ فرمایا،اب آئیے اپنے انقلابیوں سے یہ استفسار بھی کرتے ہیں کہ کیا صرف ڈرون گرانے جیسے نعروں ہی کا کاروبار جاری رکھنا ہے یا درحقیقت لیلائے وطن کی زلف بھی سنوارنا ہے! فیض صاحب نے کہا تھا
یا خوف سے درگزریں یا جاں سے گزر جائیں
مرنا ہے کہ جینا ہے اک بات ٹھہر جائے
تازہ ترین