• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کراچی میں صدر جناب آصف علی زرداری کے چیف سیکورٹی آفیسر معروف پاکستان پیپلز اسٹوڈنٹ کے اہم عہدیدار بلال شیخ کو دن دہاڑے نیو ٹاؤن کے علاقے میں خودکش حملے میں قتل کر دیا گیا جبکہ ان کی حفاظت کیلئے 3موبائلیں درجن بھر کلاشنکوف بردار محافظ ان کے اردگرد موجود تھے۔ کیسے خودکش حملہ آور ان کے درمیان آیا اور صرف ان کو نشانہ بنا کر اپنا کام کر کے خود کو بھی اڑا لیا ۔ اب اس کی انکوائری ہو گی، خاکے بنیں گے ، وزیروں کے بیانات ، وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کا تویہی بیان میڈیا پہ آئے گا کہ ہم دہشت گردوں کے گرد گھیرا تنگ کر کے ان کو گرفتار کر کے کیفر کردار تک پہنچائیں گے ۔ کیا ماضی کے دیگر سیکورٹی آفیسرز خالد شہنشاہ ، منور سہروردی، ٹیپو کے قاتل آج تک گرفتار ہو سکے ۔ اس شہر کراچی میں پولیس ، رینجرز ، فوج ، سی آئی اے ، ایف آئی اے ، خفیہ ایجنسیاں سب ہی تعینات ہیں ۔ ان سب کی موجودگی میں بھی قاتل اتنی آسانی سے فرار ہو جاتے ہیں ۔ خصوصاً اگر عوام کی نگاہ سے تجزیہ کیا جائے تو چیف سیکورٹی آفیسر جس کی حفاظت پر اتنے محافظوں کی موجودگی میں دہشت گرد اتنے بے لگام ہو سکتے ہیں تو ایک صنعت کار ، تاجر ، ڈاکٹر ، انجینئر ، دکاندار کیسے محفوظ ہو سکتا ہے جو عام طور پر ایک آدھ گارڈ ساتھ اور جان ہتھیلی پر رکھ کر اپنے کام سے نکلتا ہے جس کے بچے اسکولوں اور کالجوں میں آتے جاتے ہیں ۔ اغوا کار ان کو اپنا جال بچھا کر اغوا کرنے کے درپے ہوتے ہیں ۔ کیسے مائیں اپنے بچوں کو اسکول بھیج کر بے سکون ہوتی ہیں جب تک ان کا بچہ واپس گھر نہیں لوٹتا ۔ نئی حکومت کو بھی اب ایک مہینہ ہو چلا ہے ۔ کراچی میں کچھ فرق نہیں پڑا بلکہ اب تو پی پی پی کے مضبوط گڑھ لیاری کے مکین اندرونِ سندھ نقل مکانی کر رہے ہیں ۔ جہاں سے ان کا امیدوار کامیاب ہوا تھا وہاں کے حالات اتنے سنگین کیوں ہو چکے ہیں جبکہ پولیس اور رینجرز وہاں متعدد چھاپے مار کر چکی ہیں مگر ان گنجان گلیوں کی بدولت دہشت گردوں کی پناہ گاہوں تک رسائی نہیں ہو سکتی اور ہر بار دہشت گرد ان کا گھیرا توڑ کر فرار ہو جاتے ہیں ۔ سوچنے کا مقام ہے بلال شیخ پر حملہ کراچی کے شہریوں کو کیا پیغام دے رہا ہے جبکہ پولیس کا دعویٰ ہے کہ یہ حملہ ایک کالعدم مذہبی تنظیم کے دہشت گردوں نے کیا ۔ پولیس نے ماضی کی طرح میڈیا پر چھ 7/افراد کے نام گنوا کر منہ پر کپڑا ڈال کر ان سے 25وارداتوں کو قبول کروا کر عوام کے غصے کو کم کرنے کی کوشش کی ہے مگر چند ہی دنوں بعد یہ سب عدالتوں سے رہا ہو کر پھر اپنے اپنے کاموں میں لگ جائیں گے جبکہ وزیر اعلیٰ صاحب میڈیا پر پر جوش خطاب میں کہتے ہیں کہ کراچی کل بھی ذوالفقار علی بھٹو کا شہر تھا اور آج بھی بھٹو کا شہر ہے تو پھر شہریوں کے ساتھ یہ دہشت گردی ، اغواء برائے تاوان ، گھر گھر ، دکان در دکان بھتہ کی پرچیاں ، موبائل اور گاڑیوں کو دن دہاڑے کون گن پوائنٹ پر چھین رہا ہے۔ مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والوں کا روزمرہ کا کاروبار بن چکا ہے ۔ پرچیاں دیتے وقت دھمکیاں بھی ساتھ ساتھ دی جاتی ہیں کہ اگر بھتہ نہ ملا تو اپنی اور گھر والوں کی خیر منانا۔ اگر پولیس تھانہ میں جا کر پرچی کی بات کریں تو خود ایس ایچ او کہتا ہے کہ بابا ہم مجبور ہیں آپ خود ہی مُک مُکا کر لو۔کیا فائدہ ہوا ان سیاسی تبدیلیوں کا؟ کراچی کے باشندے تو اسی طرح کرب ناک زندگی گزار رہے ہیں ۔ ایک بین الاقوامی سروے کے مطابق گزشتہ ماہ جون میں صرف کراچی میں 484/افراد قتل ہو چکے ہیں جن میں102ایم کیو ایم کے ہمدرد اور عہدیداران، 106سنی تحریک اور دیگر مذہبی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اور 276/افراد موقع واردات پر ناگہانی نشانہ بنے ۔ ان کی تو نہ کوئی سیاسی وابستگی تھی نہ کوئی قصور تھا یا تو وہ راہ گیر تھے یا موقع واردات پر رہائش پذیر ہونے کے سبب موجود تھے ۔ سیکڑوں زخمیوں کی تعداد اب ہزاروں میں جا چکی ہے ۔ پولیس نے صرف چند معروف وابستگی رکھنے والوں کی ایف آئی آر درج کیں بقایا گمنامی کے کھاتے کی نذر ہو گئے پھر کہا جاتا ہے کہ بیرون ممالک میں رہنے والے اپنے ملک پاکستان میں آ کر سرمایہ کاری کریں۔ اربوں ڈالرز کے ایم او یوز غیر ملکی صنعت کاروں نے ماضی میں دستخط کئے تھے موجودہ وزیر اعظم نواز شریف صاحب کے پہلے دورہ چین کے موقع پر وہاں کے چوٹی کے صنعت کاروں نے مختلف جگہوں پر سرمایہ کاری کی دوبارہ یقین دہانیاں پھر کرا دی ہیں۔ کاشغر سے گوادر تک، کراچی سے پشاور تک بلٹ ٹرین چلانے کی خوشخبری سنانے والوں سے کراچی کے عوام کی استدعا ہے کہ بلٹ ٹرین چلانے سے پہلے خدارا ان کو بلٹ سے نجات دلا دیں۔ وہ اسے بلٹ ٹرین کا صدقہ سمجھ کر خوش ہو لیں گے کیونکہ ان کو ہر طرح کی بلٹ سے خوف آتا ہے۔
تازہ ترین