• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
الطاف حسین شدید دباؤ میں ہیں ۔ پاکستانی میڈیا میں وہ لوگ بھی متحدہ قومی موومنٹ پر تنقید کرتے نظر آ رہے ہیں جو کچھ عرصہ پہلے تک میڈیا میں ایم کیو ایم کی نمائندگی کیلئے مشہور تھے ۔ عمومی تاثر یہ ہے کہ ڈاکٹر عمران فاروق کے مقدمہ قتل میں لندن پولیس نے الطاف حسین کے گرد گھیرا تنگ کر دیا ہے اور بہت جلد الطاف حسین کو گرفتار کر لیا جائیگا جسکے بعد ایم کیو ایم کی کہانی ختم ہو جائیگی ۔ 8جولائی 2013ء کو بی بی سی پر الطاف حسین کے بارے میں ایک دستاویزی فلم دکھائی گئی ۔ اس فلم نے اس تاثر کو مزید تقویت دی کہ الطاف حسین پر دباؤ بڑھ رہا ہے لیکن اگر غور کے ساتھ اس فلم کا تجزیہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ابھی تک لندن پولیس کے پاس ڈاکٹر عمران فاروق کے مقدمہ قتل میں الطاف حسین کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے البتہ ان کے خلاف منی لانڈرنگ کا الزام بہت مضبوط ہے۔ اس سلسلے میں فی الحال مقدمہ درج نہیں ہوا لیکن تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے ۔
اندر کی خبر یہ ہے کہ برطانوی پولیس کو ڈاکٹر عمران فاروق کے مقدمہ قتل میں دو ایسے ملزمان کی تلاش ہے جو پچھلے دور حکومت میں کراچی سے گرفتار کئے گئے اور غائب کر دیئے گئے ۔ اطلاعات کے مطابق یہ دونوں ملزمان ایک حساس ادارے کی تحویل میں رہے ۔ سابق وزیر داخلہ رحمان ملک نے برطانوی حکومت کو ان دونوں ملزمان کے بارے میں کچھ نہیں بتایا کیونکہ الطاف حسین ان کے اتحادی تھے تاہم نئی حکومت کے وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے اس معاملے کو برطانوی حکومت سے چھپانے کی کوئی کوشش نہیں کی ۔ نئی حکومت ان دونوں ملزمان کو برطانیہ کے حوالے کرنے کے سلسلے میں خاصی محتاط ہے ۔ ملزمان پر الزامات سنگین ہیں لیکن انہیں برطانیہ کے حوالے کرنے کے معاملے میں کئی قانونی پیچیدگیاں ہیں جنہیں سلجھانا ضروری ہے ۔ اس پہلو کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ دو پاکستانیوں کو برطانیہ کے حوالے کرنے کے بعد بھی الطاف حسین کیخلاف الزامات ثابت نہیں ہوتے تو سیاسی نقصان اور فائدہ کس کو ہو گا ؟ واقفان حال کا کہنا ہے کہ اگر الطاف حسین پر برطانیہ میں قتل کا مقدمہ قائم ہو گیا تو لندن میں کوئی قیامت نہیں آئے گی کیونکہ وہاں قانون کی بالادستی ہے۔ اصل قیامتیں پاکستان میں آئیں گی۔ ایم کیو ایم اپنے صنم کو اکیلے نہیں ڈوبنے دیگی بلکہ اپنے ساتھ ساتھ انہیں بھی ڈبونے کی کوشش کریگی ۔جو ماضی میں ایم کیو ایم کو استعمال کرتے رہے یا ایم کیو ایم کے سیاسی اتحادی بنے رہے ۔ ایم کیو ایم کے اکثر ناقدین ہمیشہ تصویر کا ایک رخ دیکھتے ہیں۔ ایم کیو ایم پر الزامات اپنی جگہ لیکن ایم کیو ایم کراچی اور حیدر آباد کی ایک سیاسی حقیقت ہے ۔ ایم کیو ایم پر سیاست میں تشدد کے فروغ کا الزام لگایا جاتا ہے لیکن کیا یہ درست نہیں کہ 1988ء کے بعد سے ایم کیو ایم پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سمیت مسلم لیگ (ق) اور مسلم لیگ فنکشنل کی اتحادی رہی ۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں ایم کیو ایم ببانگ دھل خود کو پاکستانی فوج کا اتحادی کہتی تھی ۔لال مسجد اسلام آباد میں آپریشن ہوا تو ایم کیو ایم پاکستان کی واحد سیاسی جماعت تھی جو اس آپریشن کے حق میں جلوس نکالتی رہی ۔ آج الطاف حسین اور پرویز مشرف دباؤ میں ہیں۔ دونوں پر قتل کے الزامات ہیں کیا یہ مکافات عمل ہے ؟
حقیقت یہ ہے کہ مشرف دور میں سندھ کا اصل حکمران ایک طاقتور خفیہ ادارے کا بریگیڈیئر تھا ۔ گورنر، وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ کو اسلام آباد سے آنے والے اکثر احکامات اسی بریگیڈیئر کے توسط سے ملتے تھے ۔12مئی 2007ء کو کراچی میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے حق میں ریلی کو روکنے کیلئے جو کچھ بھی کیا گیا وہ انہی صاحب کا کیا کرایا تھا ۔ ایم کیو ایم کا صرف نام استعمال ہوا تھا ۔ یہ بات میں پہلی دفعہ نہیں لکھ رہا یہ بات میں نے 12مئی 2007ء کے فوراً بعد بھی لکھی تھی کہ کراچی میں جو کچھ بھی ہوا اس کا منصوبہ راولپنڈی اسلام آباد میں بنا تھا ۔ آنے والے وقت میں جب کبھی ایم کیو ایم سے حساب کتاب ہوا تو معاملہ صرف الطاف حسین تک محدود نہیں رہے گا۔ بات نکلے گی تو دور تلک جائے گی۔ سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ نے 27مئی 2007ء کو وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں واضح طور پر کہا تھا کہ ایم کیو ایم جنرل ضیاء الحق نے بنوائی تھی تاکہ بحالی جمہوریت کی تحریک چلانے والی بڑی سیاسی جماعتوں کو کراچی میں کمزور کیا جاسکے ۔ ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر عمران فاروق نے جنرل اسلم بیگ کے اس دعوے کو جھٹلا دیا تھا لیکن سوال یہ ہے کہ جنرل اسلم بیگ نے یہ دعویٰ کیوں کیا تھا ؟ الطاف حسین خود یہ کہہ چکے ہیں کہ 1971ء میں ایک طالب علم کی حیثیت سے انہوں نے پاکستانی فوج کی بلوچ رجمنٹ کے ساتھ بطور رضاکار کام کیا تھا ۔ 1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف پاکستان قومی اتحاد کی تحریک نظام مصطفی میں الطاف حسین نے بھرپور حصہ لیا۔ جنرل ضیاء الحق کی حکومت آئی تو جماعت اسلامی مارشل لاء کی بی ٹیم کہلانے لگی اور تعلیمی اداروں میں جماعت اسلامی کے حامیوں کا کنٹرول مضبوط ہو گیا۔ اسی زمانے میں کراچی یونیورسٹی میں الطاف حسین نے اسلامی جمعیت طلباء کے مقابلے پر آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹس آرگنائزیشن بنائی ۔ 1979ء میں انہیں گرفتار کر لیا گیا ۔جنوری 1988ء میں رہائی کے بعد وہ پاکستانی سیاست کے ایک اہم پاور پلیئر بن گئے ۔1988ء میں انہوں نے بے نظیر بھٹو کی حکومت کے ساتھ شراکت اقتدار کا ایک معاہدہ کیا لیکن یہ معاہدہ تڑوا دیا گیا۔ پھر اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب نواز شریف نے الطاف حسین کو لاہور بلایا ۔ انہوں نے لاہور میں مینار پاکستان پر ایک جلسہ بھی کیا۔ 1990ء کے انتخابات کے بعد ایم کیو ایم نواز شریف حکومت کی اتحادی بن گئی ۔اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں واضح طور پر کہا کہ 1990ء کے انتخابات میں آئی ایس آئی کے کچھ افسران نے سیاست دانوں میں رقوم تقسیم کیں ۔ جن سیاست دانوں پر رقوم وصول کرنے کا الزام لگایا گیا ان میں نواز شریف اور الطاف حسین کا نام بھی آیا ۔ دونوں نے اس الزام کی تردید کی لیکن اگر الطاف حسین کا حساب کتاب شروع ہوا تو وہ یہ بھی بتائیں گے کہ جنرل اسلم بیگ بطور آرمی چیف ان سے کیا باتیں کرتے تھے ؟
جنرل اسلم بیگ کے بعد جنرل آصف نواز فوج کے سربراہ بنے تو 1992ء میں ایم کیو ایم کے خلاف ایک آپریشن شروع ہوا ۔ اسی آپریشن کے دوران ایم کیو ایم میں دراڑیں پڑیں۔ آفاق احمد اور عامر خان نے ایم کیو ایم حقیقی بنائی ۔ یہ دونوں لاہور میں روپوش تھے تو سب سے پہلے میں نے ان دونوں کو ڈھونڈ کر روزنامہ جنگ میں ان کا انٹرویو شائع کیا تھا ۔ اس دوران کراچی میں الطاف حسین پر ایک قاتلانہ حملہ ہوا اور وہ لندن چلے گئے ۔آفاق احمد اور عامر خان میں اختلافات کیسے پیدا ہوئے یہ ایک لمبی کہانی ہے لیکن اب عامر خان دوبارہ الطاف حسین کو اپنا قائد تسلیم کر چکے ہیں ۔ مجھے یاد ہے کہ کس طرح خفیہ اداروں نے الطاف حسین پر جناح پور سازش کیس بنایا اور پھر واپس لے لیا ۔2002ء میں الطاف حسین کی جماعت مکمل طور پر اسٹیبلشمنٹ کے کنٹرول میں چلی گئی لیکن اس کے باوجود 2006ء میں الطاف حسین نے نئی دہلی میں قیام پاکستان کے خلاف ایک تقریر کر ڈالی ۔ ایسی کوئی تقریر اکبر بگٹی نے نہیں کی تھی ۔ بگٹی صاحب کو شہید کر دیا گیا لیکن الطاف حسین سے کچھ نہ پوچھا گیا ۔ جب میں نے 2006ء میں اس تقریر کے کچھ حصے کیپیٹل ٹاک میں دکھائے اور عمران خان نے الطاف حسین پر تنقید کی تو حکومتی اداروں نے مجھے دھمکیاں دیں ۔ مجھے 2006ء میں یہ سمجھ آ گئی تھی کہ ایم کیو ایم کو لندن سے نہیں راولپنڈی سے کنٹرول کیا جاتا تھا ۔
آج الطاف حسین کے ناقدین مطالبہ کر رہے ہیں کہ ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں الطاف حسین کے کردار کو بے نقاب کیا جائے ۔ یہ ناقدین اکتوبر 2007ء میں کہاں تھے جب امریکہ، برطانیہ اور پرویز مشرف نے محترمہ بینظیر بھٹو کے ساتھ قومی مفاہمتی آرڈیننس کے نام پر ایک سمجھوتہ کیا اور اس سمجھوتے کا اصل فائدہ ایم کیو ایم نے اٹھایا ؟ صرف الطاف حسین پر 72مقدمات ختم کئے گئے۔ 72میں سے 31مقدمات قتل کے تھے ۔کیا یہ آرڈیننس ایک باوردی جرنیل پرویز مشرف کے دستخطوں سے جاری نہ ہوا تھا ؟ کیا پرویز مشرف نے یہ سب کام اکیلئے کئے تھے ؟ حساب کتاب شروع ہوا تو الطاف حسین کو یہ بتانا پڑے گا کہ لندن میں انہیں کون یہ کہتا تھا کہ پرویز مشرف کی حمایت کرو؟ کس نے انہیں کہا کہ آصف زرداری کے ساتھ پھڈا نہ کرو بلکہ اس کے ساتھ حکومت میں شامل رہو۔ ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی تحقیقات کو منطقی انجام تک ضرور پہنچنا چاہئے لیکن یہ بھی تو بتایا جائے کہ ولی خان بابر قتل کیس میں چھ گواہوں کو کس نے مار دیا ؟ یہ بھی بتایا جائے کہ قاتلوں کی سرپرستی کون کرتا ہے ؟ کیا کراچی میں قتل وغارت صرف ایم کیو ایم کرتی ہے ؟ کیا پیپلز پارٹی، اے این پی، سندھی قوم پرستوں اور کچھ مذہبی تنظیموں پر قتل وغارت کے الزامات نہیں ہیں ؟ اگر حساب کتاب کرنا ہے تو سب کا کیا جائے ورنہ ایم کیو ایم نقصان میں نہیں فائدے میں رہے گی۔
تازہ ترین