• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایبٹ آباد کمیشن کے ایک اہم رکن سے میری جمعہ کے روز بات ہوئی۔ اُن سے بات کرنے کا مقصد یہ جاننا تھا کہ رپورٹ میں امریکا میں پاکستان کے سابق سفیرحسین حقانی کے ”principals“ سے کمیشن کی کیا مراد ہے؟؟ اس سے کمیشن کا کن شخصیات کی طرف اشارہ تھا؟؟ مجھے جواب ملا کہ سب جانتے ہیں کہ حسین حقانی کے پاکستان میں کون ”principals“ تھے۔ رپورٹ کے مطابق حسین حقانی اور اُن کے اسلام آباد میں مقیم ”principals“ پاکستان میں سی آئی اے کے نٹ ورک کے پھیلاو اور اُس (سی آئی اے) کے مفادات کے لیے کام کر رہے تھے۔
رپوٹ میں ان ”principals“ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کمیشن کا کہنا ہے کہ یہ ”principals“ وہ ہیں جن سے اسلام آباد میں حسین حقانی کا امریکا سے براہ راست رابطہ تھا ، جو امریکی مفادات کے لیے کام کر رہے تھے اور جن سے رابطہ کرتے وقت حقانی اکثردفتر خارجہ کو بھی نظر انداز کرتے تھے۔ایبٹ آباد کمیشن نے اور بہت کچھ کہا۔ دفاع پاکستان،فوج، آئی ایس آئی کی کمزوریوں اور نااہلیوں کی تفصیل سے بات کی مگر اتنا بڑا سنگین الزام کسی پر نہیں لگایا۔ پوری رپورٹ میں اگر کسی کو امریکی مفادات اور سی آئی اے کے لیے کام کرنے کاذمہ دار ٹھرایا گیا تو وہ صرف حسین حقانی اور اُن کے ”principals“ تھے۔اتنابڑا الزام لگا دیا گیا اور اشارتاً پاکستان کے اعلیٰ ترین حکمرانوں کو بھی اس ”جرم“ میں شامل کر دیا گیا مگراس پر کوئی بات نہیں ہو رہی۔ میمو گیٹ کو غیر اہم قرار دینے والوں نے بھی اس رپورٹ کو خوب سراہا۔ مگر تعجب ہے کہ عمومی طور پر میڈیا نے کمیشن کے اس سنگین الزام پر کوئی بات نہیں کی۔ ٹی وی ٹاک شوز میں بھی اس مسئلہ پر کوئی بات نہیں ہررہی جیسے کہ کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ کسی نے سوال نہ پوچھا کہ یہ ”principals“ کون ہیں۔کوئی دوسرا ملک ہوتا تو اس معاملہ میں ہنگامہ کھڑا ہو چکا ہوتا۔ باقاعدہ تحقیقات، گرفتاریوں اور ٹرائل کی بات ہو رہی ہوتی۔ مگر پاکستان میں کچھ بھی ہو جائے سب معمول کا حصہ بن جاتا ہے۔ پاکستان کو جس انداز میں بیچا جاتا ہے، جس طرح اس میں رہنے والے اس کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں، جس طرح غداروں اور دشمنوں کے ایجنٹوں کو یہاں نوازا جاتا ہے اس کی دنیا میں کہیں مثال نہیں ملتی۔ میری اطلاعات کے مطابق امریکی ایجنسیوں کے پاکستان میں نیٹ ورک کے قیام اور پھیلاؤ میں جنرل مشرف کا بہت اہم کردار تھا۔ جنرل مشرف کے دور کے چیف آف جنرل اسٹاف لیفٹننٹ جنرل شاہد عزیز نے چند سال قبل مجھے خود بتایا تھا کہ مشرف نے اپنے دور میں امریکا کو پاکستان کے قبائلی علاقوں میں سی آئی اے ایجنٹ بھرتی کرنے کی اجازت دی تھی۔ شاہد عزیر کے مطابق ڈرون کو پاکستانی حدود میں جاسوسی کے مقاصد کے لیے اڑنے کی اجازت بھی جنرل مشرف نے دی۔ یہ بھی کوئی راز نہیں کہ ڈرون حملوں کی اجازت بھی امریکا کو مشرف نے دی جس کا حوالہ جنرل شجاع پاشا کے بیان میں بھی موجود ہے۔ ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ نے اگرچہ جنرل مشرف کے ان کارناموں پر بات نہ کی کہ کس طرح مشرف نے امریکا کو پاکستان میں اپنا جاسوسی نیٹ ورک قائم کرنے اور اسے پھیلانے کی اجازت دی مگر اس کی تمام تر ذمہ داری حسین حقانی اور اُن کے ”principals“ پر عائد کر دی۔ میمو کمشن جو تین معزز جج صاحبان پر مشتمل تھا، پہلے ہی حسین حقانی کو پاکستان کے مفادات کے خلاف کام کرتے ہوئے پاکستان دشمن میمو لکھنے کا ذمہ دار ٹھہرا چکا ہے۔ میمو گیٹ میں بھی صدر زرداری کا نام لیا جاتا رہا اور یہ کہا جاتا تھا کہ حقانی نے میمو صدر زرداری کے کہنے پر لکھا مگر میمو کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ صدر کے خلاف یہ الزام ثابت نہیں ہوا۔یہ سب کو معلوم ہے کہ میموگیٹ میں کون کون حسین حقانی کو بچانے کی سر توڑ کوشش کرتا رہا۔ کون پاکستان کے خلاف اس اقدام کو ڈرامہ گردانتا رہا۔ کس کس نے میموگیٹ کو جنرل شجاع پاشا کا سجایا ہواکھیل بنانے کی کوشش کی جس کا مقصد حسین حقانی کو سفیر کے عہدے سے ہٹانا تھا۔ حالاں کہ جناب شاہین صہبائی، محمد مالک صاحب اور میں اُن تین صحافیوں میں شامل ہیں جنہیں میموکی حقیقت کا جنرل شجاع پاشا اور آئی ایس آئی سے پہلے کا علم ہو چکا تھا۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ امریکامیں رہنے والے کس محبّ وطن پاکستانی نے اس واردات سے فوج اور آئی ایس آئی کو آگاہ کیا جس کے نتیجے میں شجاع پاشا لندن کے ایک ہوٹل میں منصور اعجاز سے ملنے گئے تا کہ منصور کے پاس موجودد ثبوتوں کی سچائی کو جانچا جا سکے۔ جنرل شجاع پاشا نے بادی النظر میں منصور اعجاز کو سچا تسلیم کیا اور بعدازاں میمو کمیشن نے بھی یہ کہا کہ منصور اعجاز نے کمیشن کے سامنے سچ بولا۔ایسے میں جب میمو گیٹ کا مسئلہ تو ابھی سپریم کورٹ کے سامنے ہے اور بار بار بلانے کے باوجود حسین حقانی عدالت کے سامنے پیش ہونے سے انکاری ہیں،ایبٹ آباد کمیشن نے ایک انتہائی سنگین الزام حسین حقانی اور اُن کے ”principals“ پر لگا دیا جس کی مکمل تحقیقات ہونی چاہیے۔ ان تحقیقات میں حقانی، حقانی کے ”principals“ اور جنرل مشرف کو شامل کیا جانا چاہیے تا کہ سچ عوام کے سامنے آ سکے۔یہاں فوج اور اسٹیبلمنٹ کو بھی چاہیے کہ وہ جنرل مشرف کا بھی حسین حقانی کی طرح اُن کے پاکستان مخالف اقدامات پراُن کا پیچھا کرے۔ یہاں ہمیں فوجی اور سویلین کی تفریق نہیں کرنی بلکہ ہمیں پاکستان دوست اور پاکستان دشمن کے درمیان فرق واضح کرنا ہے۔ اگر ہم نے پاکستان سے غداری کرنے والوں کو معاف کیا تو امریکا، ہندوستان اور دوسرے ہمارے پاکستان میں اپنا کھیل کھیلتے رہیں گے تا وقتے کہ ہم مکمل طور پر تباہ و برباد ہو جائیں۔
تازہ ترین