• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
محترم سید منور حسن صاحب! سلام مسنون!
آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ یہ شخص ”لیچڑ“ ہی ہو گیا ہے ہر دوسرے دن قسط لکھنے بیٹھ جاتا ہے اور اس میں الٹے سیدھے سوال اٹھاتا ہے، وجہ دراصل وہی ہے جو شاعر نے اس شعر میں بیان کی:
جی چاہتا ہے چھیڑ کے ہوں ان سے ہم کلام
کچھ تو لگے گی دیر سوال و جواب میں
یہ پھر جیسا کہ احمد ندیم قاسمی نے کہا ہے:
فقط اس شوق میں پوچھی ہیں ہزاروں باتیں
میں تیرا حسن تیرے حسن بیاں تک دیکھوں
معافی چاہتا ہوں، ان دونوں اشعار میں کچھ فاسقانہ پن موجود ہے، مگر کیا کروں۔ مولانا حسرت موہانی ایسی معتدین شخصیت سے کسی نے پوچھا تھا کہ آپ کی شاعری میں عارفانہ رنگ نمایاں ہے یا عاشقانہ؟ تو انہوں نے اپنی باریک سی آواز میں جواب دیا تھا: ”میری شاعری میں عاشقانہ اور عارفانہ رنگوں کی بجائے فاسقانہ رنگ نمایاں ہے“۔ تاہم یہ جسارت میں نے اس لئے کر لی ہے کہ کسی زمانے میں آپ ماشاء اللہ سوٹ پہنا کرتے تھے اور کچھ فاسقانہ حرکات از قسم واعظوں اور ذاکروں کی پیرو ذکاء وغیرہ کے مرتکب بھی ہوتے تھے۔ اب الحمدللہ صراط مستقیم پر چل پڑے ہیں اور صرف پاکستان نہیں بلکہ پوری مسلم امہ کو بھی اس راہ پر چلانے کے متمنی ہیں۔ میں اس ضمن میں آپ کا ہم آواز ہوں۔ کچھ تھوڑے بہت غریب قسم کے اختلافات ہیں جن پر آپ سے گفتگو کرنے کو جی چاہتا ہے۔ سیاسی اختلافات بھی آپ سے ہیں مگر ان کا احوال میں نے سیاسی تجزیہ نگاروں پر چھوڑ رکھا ہے، ایک غیر سیاسی اختلاف کا ذکر میں آپ کے نام اپنے پہلے خط میں کر چکا ہوں کہ خدا کے لئے فنون لطیفہ کے لئے بھی دل میں کوئی جگہ پیدا کریں، اورنگزیب عالمگیر نے سازندوں سے کہا تھا کہ اگر آپ اپنے ساز دفن کرنے جا رہے ہیں تو ذرا زیادہ گہرا دفن کریں، مگر یہ ساز اتنی ڈھیٹ مخلوق ہیں کہ انسان کی پیدائش سے اب تک اس کی فطرت کا تکیہ چلے آ رہے ہیں چنانچہ فطرت کو چونکہ نہ دفنایا جا سکتا ہے اور نہ دبایا جا سکتا ہے، لہٰذا یہ ہر دور میں انسان کے ساتھ چلتے نظر آتے ہیں ان دونوں فنون لطیفہ میں لفظ لطیفہ بھی آتا ہے۔ دینی موضوعات پر لکھی گئی کتابوں میں ایک ذیلی سرخی ”لطیفہ“ کے عنوان سے نظر آئی تھی تو میں بڑے شوق سے وہ پڑھتا تھا مگر پڑھنے کے بعد پتہ چلتا تھا کہ یہاں لطیفہ سے مراد کوئی ہنسنے ہنسانے والی بات نہیں بلکہ کوئی لطیف نکتہ ہے۔ اب اللہ بہتر جانتا ہے کہ آپ کی نظروں میں اس لطیفے کی دینی حیثیت کیا ہے جسے سن کر اداس چہرے بھی کھلکھلا اٹھتے ہیں، کیونکہ میں نے سنا ہے کہ جھوٹ ہر حالت میں گناہ ہے خواہ وہ لطیفے کی صورت ہی میں کیوں نہ بولا جائے؟
معافی چاہتا ہوں میں کسی اور طرف نکل گیا، آج کے خط میں مجھے آپ سے دو باتیں پوچھنا تھیں تاکہ میرا ذہنی خلجان دور ہو، ایک تو دہشت گردی کے حوالے سے ہے، ان دہشت گردوں نے اسلامی لبادے اوڑھے ہوئے ہیں مگر وہ مسجدوں میں نماز پڑھتے لوگوں پر، مزاروں میں دعا کے لئے حاضر ہونے والے زائرین، بستے گلوں پر ڈالے سکول جانے والے بچوں، پولیو کے قطرے پلانے والے اہلکاروں، ہماری فوج اور پولیس کے جوانوں، پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والے غیر ملکیوں اور پاکستان کی عالمی تنہائی دور کرنے والی کرکٹ ٹیم کے غیر ملکی کھلاڑیوں سمیت کسی کو بھی بموں سے اڑا دیں۔ آپ اس کی ذمہ داری ان دہشت گردوں پر ڈالنے کی بجائے اسے ڈرون حملوں کا نتیجہ قرار دینے لگتے ہیں جس میں بلاشبہ سینکڑوں بے گناہ پاکستانی شہید ہو چکے ہیں۔ اب جن طبقوں کا ذکر میں نے اوپر کی سطور میں کیا ہے وہ بھی گر اپنے عزیز و اقرباء کی موت کا انتقام دہشت گردوں سے لینے کی بجائے بے گناہ لوگوں سے لینا شروع کر دیں تو کیا اس صورت میں بھی ہم اس کا جواز اسی نوعیت کا پیش کریں گے جس نوعیت کا جواز ہم دہشت گردوں کی دہشت گردی کے ضمن میں پیش کرتے ہیں؟ میں یہ سوال آپ سے کرنے کی جسارت یوں کر رہا ہوں کہ آپ نے معصوم لوگوں کو ہلاک کرنے والوں کی مذمت کبھی غیر مشروط طور پر نہیں کی۔ اس میں ہمیشہ اگر مگر ہوتا ہے، امریکہ سے نفرت بچا، اس میں ساری قوم آپ کی ہم نوا ہے، لیکن نمازیوں، زائرین، بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے والوں، فوج اور پولیس کے اہلکاروں، غیر ملکی سرمایہ کاروں اور دوسرے بے گناہوں کو ہلاک کرنے والے اس نفرت کے مستحق کیوں نہیں ہیں؟ جس نفرت کا بجا طور پر مستحق وہ عالمی بدمعاش ہے جس نے پاکستان سمیت پوری دنیا میں اپنی سفاکی کی بدترین مثالیں قائم کی ہیں؟ آپ کو اندازہ نہیں کہ جن لوگوں کے عزیز و اقرباء دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہوتے ہیں ان کے دل کتنے دکھی ہوتے ہیں، جب وہ صحیح یا غلط طور پر محسوس کرتے ہیں۔ ان دہشت گردوں کے لئے جماعت اسلامی کی قیادت اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتی ہے۔
آپ سے ایک اور سوال معاشرے کا ان مجرموں کے حوالے سے ہے جو اشیائے خورد و نوش میں ملاوٹ کرتے ہیں،جعلی ادویات بناتے ہیں، جعلی پاسپورٹ، جعلی شناختی کارڈ اور جعلی ویزوں کا کاروبار کرتے ہیں، لاہور سمیت چند شہروں میں تمام غیر ملکی پروڈکس کی نقل تیار کی جاتی ہے، اسی طرح ہر شہر میں ذخیرہ اندوزوں کے گودام موجود ہیں، منشیات فروشوں کے گروہ کھلم کھلا یہ کاروبار کرتے ہیں، اسمگلر دندناتے پھرتے ہیں مگر آپ کے نوجوان کبھی ان مجرموں کے اڈوں پر حملہ آور نہیں ہوئے البتہ نئے سال پر ہونے والی پارٹیوں یا اس موقع پرہلہ گلہ کرنے والوں کا قلع قمع کرنے کیلئے یہ لوگ لاٹھیاں لے کر ”موقع واردات“ پر پہنچ جاتے ہیں۔ جماعت اسلامی فحاشی کے خلاف بھی بڑے بڑے مظاہروں کا اہتمام کرتی ہے اور ان تمام گناہوں کے خلاف سینہ سپر نظر آتی ہے جو اجتماعی نوعیت کے نہیں ہیں۔
لیکن جن گناہوں کے اثرات پورے ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں ان پر آپ کی جماعت کا جارحانہ ردعمل کبھی سامنے نہیں آیا۔ ہمارے جی ایچ کیو میں ہونے والی سازشوں اور نااہلیوں کی وجہ سے ہماری فوج کو انڈیا کے سامنے ہتھیار ڈالنا پڑے، مگر آپ نے حملہ شراب کی دکانوں پر کر دیا اور یوں لوگوں کا دھیان اصلی مجرموں کی طرف جانے ہی نہیں دیا۔ ممکن ہے آپ کی نیت یہ نہ ہو لیکن عام لوگوں کو اس سے تاثر یہی ملتا ہے۔
سو مجھے آپ سے صرف یہ گزارش کرنا ہے کہ آپ اپنی پے در پے ناکامیوں سے دل برداشت اور جھنجھلاہٹ کا شکار ہونے کی بجائے اپنی ترجیحات پر نظرثانی کریں۔ پاکستانی عوام اسلام سے محبت کرتے ہیں اور یوں یہ زمین آپ کے لئے بہت زرخیز ہے، مگر کچھ ”نم“ آپ میں بھی تو ہونا چاہئے۔ مجھے امید ہے کہ آپ میری خیر خواہانہ گزارشات پر غور فرمائیں گے اور اگر آپ کسی ترجمان کی بجائے اس ضمن میں خود کچھ کہنا چاہیں تو مجھے آپ کا نقطہ نظر اپنے کالم میں شائع کرنے پر مسرت ہو گی۔ والسلام! اب آخر میں آپ کی اجازت سے نوجوان شاعر حسن عباسی کی ایک نظم جو ماں پر لکھی گئی نظموں سے بالکل مختلف اور بہت متاثر کن ہے:
ماں
دہشت گردی سے دنیا کو کیا خطرہ ہے
میری ماں کو
اس کا کچھ بھی علم نہیں ہے
وہ تو اپنے گھر کے بارے جانتی ہے
وہ تو اتنا جانتی ہے
مینہ برسا تو
کمرے کی بوسیدہ چھت گر جائے گی
جب روپیہ سستا ہو تو
ڈالر مہنگا کیوں ہوتا ہے
میری ماں کو
اس کا کچھ بھی علم نہیں ہے
وہ تواتنا جانتی ہے
کپڑے، برتن کیسے دھوتے
جھاڑو کیسے دیتے ہیں
وقت کے بارے
آئن سٹائن کی تھیوری کیا ہے
میری ماں کو
اس کا کچھ بھی علم نہیں ہے
وہ تو دن بھر خاموشی سے
کپڑے سیتی رہتی ہے
میری ماں کو بس پہ چڑھنا
اور سفر کرنا
اچھا نہیں لگتا ہے
لیکن جب بھی
بیٹی کے گھر جانا ہو
یا میرے بچوں سے ملنے آنا ہو
پھر وہ بس میں شوق سے جا کر بیٹھتی ہے
پھر تو اس کو سارے سفر اچھے لگتے ہیں
میری ماں کو
کرکٹ سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے
لیکن میرا چھوٹا بھائی
جب بھی اپنے میچ کا حال سناتا ہے
تو وہ اس کی ساری باتیں شوق سے سنتی ہے
میری ماں کو
شعر و سخن سے کیا مطلب
لیکن جب میں اپنی کوئی نظم سناتا ہوں
اس کی خالی آنکھوں میں
آنسو تیرنے لگتے ہیں
تازہ ترین