• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج کل2مئی کمیشن کی رپورٹ موضوع بحث ہے اور خوب لے دے ہورہی ہے کہ جاوید اقبال صاحب نے نام نہیں لئے اور ذمہ داری کا تعین کیوں نہیں کیا۔ رپورٹ دیکھ کر تو لگتا ہے کہ جتنے لوگوں کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے ان میں کوئی بھی نہیں بچا۔ رپورٹ میں جو بیانات نقل کئے گئے ہیں ان کے بعد تو کسی سچ بولنے کے اور مفاہمت کے کمیشن یعنی Truth and Reconciliation کمیشن کی گنجائش ہی نہیں رہی۔ ہر ایک نے آکر خود اپنے بارے میں اور دوسروں کے بارے میں سارے سچ بول دیئے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ یہ سچ اسامہ بن لادن کے حوالے سے بولے گئے ہیں اور اگر دوسرے مسئلوں پر بات ہوگی تو بھی اس طرح کے سچ بولے جائیں گے۔ اب کس نے کیا کہا یہ مختصر لفظوں میں کچھ یوں سامنے آیا ہے۔
سوال: کیا اس قومی سلامتی کی ناکامی کی ذمہ داری سے سیاسی، فوجی اور ایجنسیوں کی قیادت کو مبرا قرار دیا جاسکتا ہے؟ کمیشن نے کہا: نہیں۔ سیاسی، فوجی، جاسوسی اور نوکر شاہی کی قیادت کو حکومت چلانے، پالیسی بنانے اور پالیسی پر عملدرآمد کرانے میں فیل ہونے کی ذمہ داری سے مبرا نہیں کیا جاسکتا جس کی وجہ سے یہ قومی سلامتی کا سانحہ نہیں روکا جاسکا۔
سوال: کیا 2مئی کا امریکی حملہ ملک کی خودمختاری، آزادی اور سرحدوں کی حفاظت کرنے میں ایک بڑی ناکامی کا اظہار ہے۔ کمیشن: ملک کی سیاسی اور فوجی قیادت کی پالیسی کے حوالے سے تنگ نظری کی وجہ سے2مئی ملک کی1971ء کے بعد سب سے بڑی تذلیل کا سبب بنا ہے۔
سوال: CIA کیسے پاکستان میں ایک بڑا نیٹ ورک بنانے میں کامیاب ہوگیا جس سے پاکستان کی سلامتی کو خطرہ ہوسکتا تھا۔ کمیشن: یہ ملک کی سیاسی، فوجی اور ایجنسیوں کی قیادت کا اپنے قومی فرائض ادا کرنے میں مشترکہ اور مسلسل ناکامی کا کیس ہے۔ یہ پوری قومی قیادت کی ناکامی ہے۔
2مئی کی رپورٹ کے صفحہ 210 پر پیرا 502 میں لکھا ہے: سابق ISI کے DG جنرل پاشا نے بتایا (یا قبول کیا) سول اور فوجی قیادت کا رول اور ISI کا بڑا کردار اس سسٹم کی ناکامی اور اس واقعے کے اور اس سے پہلے اور بعد میں ہونے والے واقعات کے ذمہ دار ہیں۔ جنرل پاشا نے قبول کیا کہ پاکستان کو حقیقت تسلیم کرنا چاہئے جو یہ نہیں کہ امریکہ ایک بڑی قوت ہے بلکہ یہ ہے کہ ہم ایک بہت کمزور ملک ہیں اور بہت ڈرے ہوئے ہیں ہم ہر بے عزتی برداشت کرنے کو تیار ہیں اور اس پر جواب دینے کو تیار نہیں۔ اس کا مطلب ہے کرپٹ اور بے انتہا Low gradeیعنی فضول حکومت کا نظام۔ ہم کو انفرادی نہیں مجموعی ناکامی کا سامنا ہے۔ ہماری Elite کلاس کا ہر شخص بکاؤ ہے۔ امریکی کہتے ہیں ہم ہر ایک کو خرید سکتے ہیں صرف ایک ویزا دے کر یا امریکہ کا چکر لگوا کر یا صرف کھانا کھلا کر۔ جنرل پاشا کہتے ہیں ہم ایک ناکام ریاست اگر نہیں تو ناکام ریاست کی طرف جارہے ہیں۔
اس رپورٹ میں سے اس طرح کے بے شمار اعتراف اور اقبال جرم نکالے جاسکتے ہیں۔ ہر ایک نے دوسروں پر الزام لگایا مگر خود بھی ذمہ داری لی۔ سو سچ بولنے کا یہ سرکس تو ختم ہوگیا تھا جنوری ہی میں مگر کسی نے ملک کی خدمت کی خاطر یہ رپورٹ میڈیا کو دے دی اور سچ سب کے سامنے آگیا۔ تو اب کیا کرنا ہے۔ ہر ایک مجرم ہے اور ملک کے ساتھ زیادتی یا غداری کا مرتکب ہوا ہے۔ رپورٹ لکھنے والوں نے ساری قیادت، ساری حکومت، ساری نوکر شاہی، سب بڑے چھوٹوں پر آلو رکھ دیا اور کہہ دیا کسی میں ہمت ہے تو ایک دوسرے کو سزا دے دے جو ایک ناممکن سی بات ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس رپورٹ کے بعد اب نہ فوجی قیادت کے پاس منہ دکھانے کو کچھ بچا ہے اور نہ سیاسی لیڈروں کو سب اس حمام میں بے لباس نظر آرہے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ میاں نواز شریف اب تک اپنی قومی سلامتی کی پالیسی نہیں بنا سکے اور کبھی فوجی قیادت سے اور کبھی ISI کے دفتر جاکر حالات کا جائزہ لینے میں مصروف ہیں۔ ان کے سامنے مشکل تو بڑی ہے اور میری اطلاع کے مطابق ان کے ذہن میں سب سے بڑی مشکل یہی ہے کہ کیا فوجی قیادت اب ان کی حکومت کے تابع آئے گی یا نہیں۔ کہنے والے کہتے ہیں میاں صاحب زیادہ آج کل اسی موضوع پر سوچ رہے ہیں اور ان کو دو تین بڑے فیصلے چند ہفتوں میں ہی کرنے ہیں یعنی نئے فوجی سربراہ کی تعیناتی، نئے صدر کا انتخاب اور نئے چیف جسٹس کا تقرر۔ ویسے تو نئے آرمی چیف اور چیف جسٹس کا سب کو معلوم ہی ہے کہ سب سے سینئر کو ترقی دی جائے گی تو اس میں زیادہ سوچنے کی گنجائش نہیں۔ صدر کا انتخاب بھی ایک رسمی عمل ہی ہوگا۔ تو مسئلہ کیا ہے۔ بتانے والے بتا رہے ہیں کہ میاں صاحب کچھ نئی پالیسیاں بھارت کے حوالے سے اور تیز رفتار تجارت کے حوالے سے فوری نافذ کرنا چاہتے ہیں مگر فوج سے ابھی پوری مفاہمت نہیں ہوئی ہے۔ اسی طرح اگرIMF سے قرضوں پر اور شرائط پر اگر معاملہ اٹک گیا تو بات بگڑ سکتی ہے۔ چین کو اربوں کھربوں کے ٹھیکے دینے اور لمبے لمبے منصوبوں کے لئے ڈالر کہاں سے آئیں گے سو میاں صاحب سونے کی کانوں کا سستا سودا کرکے بلٹ ٹرین اور گوادر میں ہانگ کانگ خرید سکتے ہیں۔ PIA کو کسی پرائیویٹ پارٹی کو دے کر یا ہزاروں چھوٹے گھروں کی کالونیاں بناکر( اس طرح کے کاموں میں فوجیوں کا عمل دخل بہت ضرورت سے زیادہ رہا ہے) اور خاص کر قومی سلامتی کے بہانے تو اب کیا یہ جواز دوبارہ استعمال کیا جاسکے گا یا میاں صاحب کو کھلی چھٹی دی جائے گی۔ ان مسائل کا حل 2مئی کی رپورٹ میں کئی جگہ نظر آتا ہے مثلاً جنرل پاشا کئی جگہ کہتے ہیں وزارت داخلہ کا کوئی عمل دخلISI کے کام میں نہیں ہونا چاہئے۔ ہمارے رحمن ملک صاحب نے تو آنے کے ساتھ بغیر کسی تیاری کے ISI پر قبضہ کرنے کا اعلان کردیا تھا۔ وہ اتنے بھونڈے طریقے سے حملہ آور ہوئے تھے کہ دو دن میں ہی چت ہوگئے اور پھر نام نہیں لیا۔ میاں صاحب ذرا تیل دیکھ رہے ہیں اور تیل کی دھار اور ISI کے دفتر چوہدری نثار علی خان کو لے جانے کا مقصد تو کچھ اور نہیں ہوسکتا اور ان کو اب رابطے کا ذریعہ بھی بنایا جارہا ہے تو کیا نثار علی خان ISI کو کنٹرول کرسکیں گے۔2مئی کی رپورٹ آنے سے پہلے تو یہ ممکن نہ تھا کیونکہ کسی کو پتہ ہی نہیں تھا کہISI اپنی کھلی ناکامیوں کا اعتراف کرچکی ہے۔ اب جب یہ بات ہر ایک کی زبان پر ہے اور شرمندگی عیاں ہے، کیا اچھا موقع ہے کہ رحمن ملک کا خواب نثار علی خان پورا کرلیں۔ مگر میاں صاحب ابھی پوری طرح پریقین نہیں ہیں اس لئے تاخیر پر تاخیر ہورہی ہے اور مشکل فیصلے جمع ہوتے جارہے ہیں۔ کبھی کل جماعتی کانفرنس کا فیصلہ ہوتا ہے اور کبھی بلوچستان کا دورہ یا پھر چین سے ہیلو ہائے۔ اصل موضوع کی طرف میاں صاحب نہیں آرہے۔ لگتا یوں ہے کہ میاں صاحب بہت بڑے بڑے کام کرنا چاہتے ہیں مگر کسی اور کو شاملِ باجا نہیں کرنا چاہتے۔ چاہئے تو یہ کہ 2مئی کے کمیشن کی رپورٹ کو سرکاری طور پر قبول کیا جائے اور اس کی روشنی میں عمران خان کی تجویز مان لی جائے کہ چار چھ اصل بڑے لوگ بیٹھ کر کھل کر بات کریں کہ کیا ملک کو ایک ناکام ریاست بننے سے بچانا ہے یا ہر ایک اپنے اپنے خزانوں اور سونے کی کانوں کی حفاظت میں ہی مشغول رہے گا اور ملکی سلامتی کو بڑے بڑے سانحے ہونے کے باوجود سب مل کر بچانے کی سعی نہیں کریں گے۔ 2مئی کی رپورٹ کا فائدہ تب ہی ہوگا جب ہم اپنے فائدے نقصان کو بھول کر ملک کی فکر کریں۔
تازہ ترین