• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ن لیگ میں بیانیے کا مسئلہ کوئی نئی بات نہیں، البتہ اِن دنوں یہ کھل کر میڈیا میں زیر بحث آ گیا ہے۔ بالخصوص شہباز شریف کے حالیہ انٹرویو اور نواز شریف کے ٹویٹ نے اسے خوب بڑھاوا دیا ہے۔ بنیاد اس کی آزاد کشمیر اور سیالکوٹ کے انتخابی نتائج بنے ہیں۔ حکومتی جلسوں کی بےرونقی کے بالمقابل مریم نواز کے بھرپور عوامی جلسوں اور ان میں عوامی جوش و خروش سے پارٹی حلقوں میں جو امیدیں بندھی تھیں، انتخابی نتائج نے ان پر پانی پھیر دیا۔ اس سے فوری یہ سوال اٹھ کھڑا ہوا کہ تمام تر عوامی مقبولیت کے باوجود اگر نتائج کسی کی خواہشات کے عین مطابق نکلنے ہیں تو پھر کیا بعید ہے کہ 2023میں 2018کی تاریخ نہ دہرائی جائے ؟ 2018کی مبینہ دھاندلی کے بعد اِس حوالے سے کوئی اصلاحات نہیں کی گئیں۔ ذرا سوچ لیں 2023میں اگر یہی مشق دہرائی جاتی ہے تو آپ لوگ کون سی توپ چلالیں گے؟ پسپائی کی یہ حالت ہو گئی ہے کہ پارٹی صدر میڈیا کے سامنے یوٹرن لیتے ہوئے 2018کی ناکامی کو دھاندلی کہنے کی جرأت بھی نہیں کر پا رہے بلکہ اسے اپنی حکمت عملی کا فقدان قرار دے رہے ہیں۔ حکمت عملی کا کیا فقدان تھا؟ اس کی وضاحت انہوں نے نہیں کی ہے۔ ان انتخابات سے پہلے جس طرح پارٹی قائد بیمار بیوی کو چھوڑکر اپنی بیٹی کے ہمراہ لندن سے واپس وطن آ گئے تھے، درویش کو ان کا یہ اقدام غیر ضروری بلکہ عاقبت نااندیشانہ لگا تھا اور اپنے تحفظات جہاں تک پہنچا سکتا تھا، پہنچائے بھی تھے۔ یہ اسی غلطی کا خمیازہ تھا جو بعد ازاں انہیں لینے کے دینے پڑ گئے، بلاشبہ وہ موت کے منہ میں جا سکتے تھے اور پھر کن مشکلات سے گزر کر انہیں محفوظ مقام پر جانا پڑا، غالباًحالات سدھرنے تک آئندہ وہ یقیناً ایسی غلطی یا کوتاہی نہیں دہرائیں گے۔ ان کے یوں واپس آنے سے انتخابی نتائج پر کوئی فرق پڑنا تھا نہ پڑا ۔آج یہ محسوس ہو رہا ہے کہ اگر وہ نہ آئے ہوتے تو مفاہمتی بیانیہ کے حاملین نے جو آج اپنی ’’ناقص حکمت عملی‘‘ کو طعنہ دے رہے ہیں، کھلے بندوں کہنا تھا کہ ہم اس لئے ہارے ہیں کہ ہمارا قائد ملک میں ہونے کی بجائے لندن میں بیٹھا ہوا تھا۔

درویش نے انہی مشکلات کو پیشگی محسوس کرتے ہوئے چند روز قبل میاں صاحب کو مشورہ دیا کہ آپ کی قوم اور آپ کی پارٹی ان تلخیوں کو جھیلنے کا یارا نہیں رکھتی لہٰذا آپ ہی اپنے بیانیے میں تھوڑی لچک پیدا کر لیں، ہمارے جیسے حیلہ ساز لوگوں کے لئے ایسا عظیم بیانیہ ہو ہی نہیں سکتا۔ دوسری اہم بات یہ کہ میڈیا پر جس نوع کی قدغنیں ہیں ان کی وجہ سے وہ اصل یا پوری بات سامنے نہیں لا سکتے۔ یوں جو ادھوری بات سامنے آتی ہے اس سے احباب میں کئی نوع کی غلط فہمیاں پیدا ہو جاتی ہیں جیسا کہ ان طنزیہ جملوں سے ہوئیں، مایوسی کی یہ آوازیں اپنے اندر ایک کربناک تاریخ رکھتی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ مسلم لیگ نواب سلیم ﷲ کے وقت سے کبھی کوئی انقلابی یا نظریاتی پارٹی نہیں رہی جسے شک ہے وہ اس کے قیام پر جاری ہونے والا اعلامیہ ایک مرتبہ پھر پڑھ لے۔ شاید اس کی بڑی وجہ ہمارے عامۃ الناس کا اندازِ فکر بھی ہے یہاں تو ایک وزیراعظم جو خود کو انقلابی خیال کرنے لگا تھا، پھانسی پر چڑھا دیا گیا، جس کا خیال تھا کہ دریا سرخ ہو جائیں گے وہاں اُلٹا پانی کی روانی ساکت سی ہو گئی ہے۔ جھوٹی سچی انقلابی پارٹی کے دعویداروں کا یہ حال ہے تو شہبازی پرواز سے ہم کیا توقعات رکھ سکتے ہیں۔ میاں صاحب! اپنے بیانیے کی صورت نئی تمنائوں اور امیدوں کے ساتھ جو پیغام لے کر اٹھے ہیں یقین نہیں آتا کہ ایسی چنگاری بھی یارب ہمارے خاکستر میں تھی۔ ہماری پچھلی سو سالہ لیگی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ آئینی بالادستی اور عوامی حاکمیت کو ووٹ کی قوت سے منوانے کی جرأت اور یہ ولولہ متاثر کن ہے جو طاقتور بیرکوں سے ٹکرانے کو تیار ہے۔ اس کے کچھ تقاضے ہمارے دوست سید مجاہد علی صاحب نے بیان کئے ہیں اور کچھ کی طرف یہ ناچیز توجہ دلانا چاہتا ہے۔ میثاقِ جمہوریت کی طرح آج اگر آپ نے قومی سطح پر ’’میثاقِ عوامی حاکمیت‘‘ کی اہمیت منوانی ہے تو اس کا اولین تقاضا یہ ہے کہ وطنِ عزیز میں تمام چھوٹی بڑی پارٹیوں کو اس ایک نکتے پر اپنے ساتھ ملائیں۔ پی ڈی ایم کی صورت ایک پلیٹ فارم پہلے ہی تشکیل پا چکا ہے۔ پی پی کے جانے سے اس میں جو مایوسی آئی ہے، کچھ نئے لوگوں کو شامل کرتے ہوئے اس کا خاتمہ ہونا چاہئے۔ پی پی اگر الگ ہوئی ہے تو اس کی وجہ اگرچہ ان کے اپنے مسائل و مفادات تھے لیکن جواز خود حضرت مولانا نے فراہم کیا۔ جمہوری عمل پر یقین رکھنے والا کوئی بھی شخص یک رخے اسلوب میں اس نوع کا مطالبہ نہیں کر سکتا کہ منتخب اداروں سے مستعفی ہو کر محض احتجاجی سیاست پر اکتفا کر لیا جائے۔ یہ سوچ ہی غیرجمہوری اور ناقابلِ عمل ہے۔ آئندہ کے لئے بھی آپ یہ بات پلے باندھ لیں کہ آپ کیسی ہی احتجاجی تحریک چلانے میں کامیاب ہو جائیں، انتخابی عمل میں کمزوری و کوتاہی آپ کے کئے دھرے کو برباد کر دے گی۔ جمہوری الذہن کوئی بھی شخص اپنے انتخابی حلقے کو یوں مخالفین کیلئے کھلا چھوڑنا قبول نہیں کر سکتا یہ تو دانستہ اس کی سیاسی موت یا خود کشی کا اعلامیہ ہو گا۔ آپ طاقتوروں کی مداخلت کا رونا پیہم روتے ہوئے اپنے سیاسی مخالفین کی ناکامیوں اور کوتاہیوں کو بھی پروپیگنڈے کی صورت خوب اچھا لیں لیکن خوب صورت نعروں کے ساتھ اپنا تعمیر و ترقی اور عوامی خوشحالی کا پروگرام اپنے عوام کے سامنے یوں پیش کریں کہ اس حالتِ پسپائی میں انہیں آپ کا داعیہ یا بیانیہ ہی امید کی آخری کرن محسوس ہو۔ آئندہ بلدیاتی انتخابات میں آپ اپنے لوگوں کو خوبصورتی سے کامیابی دلا سکتے ہیں اور یہی لوگ آگے چل کر آپ کی تحریک اور انتخابی دنگل میں ہراول دستہ ثابت ہوں گے۔ یہ امید پیش نظر رہے کہ حالات پلٹتے پتہ نہیں چلتا بشرطیکہ انسان یکسوئی سے اسٹینڈ لے ۔ عالمی سطح پر ایسی تبدیلیاں آنے والی ہیں جو اندرونی و بیرونی دباؤ کی صورت خود طاقتوروں کو آپ کے بیانیے پر آنے، عوام اور آئین کے سامنے سرنگوں ہونے پر مجبور کر دیں گی بصورت دیگر بھی آپ عوام اور تاریخ کے سامنے سرخرو ہوں گے۔

تازہ ترین